یہ بڑی افسوسناک بات ہے کہ گزشتہ سالوں کی طرح اس بار بھی کوئی ملکی جامعہ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کی عالمی درجہ بندی میں جگہ بنانے میں ناکام رہی۔ معروف برطانوی ادارے کیو ایس کی جانب سے جاری کی کی گئی جامعات کی نئی درجہ بندی برائے2021میں دنیا کی بہترین 350جامعات میں ایک یونیورسٹی بھی پاکستانی نہیں جبکہ بھارت کی 3ملائیشیا کی 5چین کی 6اور سعودی عرب کی 2یونیورسٹیز دنیا کی 200بہترین جامعات میں شامل ہیں۔ پاکستان کی صرف 3جامعات دنیا کی بہترین 500جامعات میں شامل ہو سکیں ،جن میں نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ)، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنسز اسلام آباد اور قائد اعظم یونیورسٹی شامل ہیں، جن کا نمبر بالترتیب 355اور 373اور 454واں ہے۔عالمی درجہ بندی میں امریکہ کی میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ برائے ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) پہلے نمبر پر ہے۔ مسلسل نوسال سے یہ پہلے نمبر پر آرہی ہے۔ اسٹین فورڈ دوسرے، ہارورڈ تیسرے ، کیلیفورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی چوتھے اور آکسفورڈ یونیورسٹی پانچویںنمبر پر ہیں۔ہماری بدقسمتی ہی ہے کہ قوموں کی ترقی میں تعلیم کی اہمیت کے کلیےکو نہ سمجھتے ہوئےکسی بھی ادوار حکومت میں تعلیمی شعبے کو وہ قدر واہمیت نہ دی گئی جس کا یہ شعبہ متقاضی رہا ہے ۔حالانکہ تعلیم ایسا شعبہ ہے جسے کلی طور پر نجی ملکیت میں نہیں دیا جاسکتابلکہ سرکاری سرپرستی ضروری ہوتی ہے۔ترقی یافتہ ملکوں میں نئی تحقیق و ایجادات کیلئے سرکاری گرانٹس مختص کی جاتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں اول تو تعلیمی شعبے کیلئے بجٹ میں کوئی قابل ذکر حصہ نہیں بلکہ جو تھوڑی بہت گرانٹس دی جاتی تھیں اب ان میں بھی کٹوتی کردی جاتی ہے ایسے میں ہمارےتعلیمی ادارے کیونکرعالمی سطح پر نمایا ں مقام حاصل کرسکیں گے۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں0092300464799