• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سو سو طرح کے اندیشوں اور وسوسوں کے باوجود، خدا کا شکر ہے کہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پاکستان کا 10 واں جنرل الیکشن آ پہنچا۔ 11 مئی ۔ یومِ انتخاب… جب پاکستانی قوم آئندہ 5 سال کے لئے نمائندوں کا انتخاب کرے گی۔ یہ الیکشن کئی حوالوں سے منفرد ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا پہلا الیکشن جو حقیقی معنوں میں آزاد و خود مختار الیکشن کمیشن کے زیر اہتمام ہو رہا ہے ۔ اس کے ساتھ اطمینان بخش حد تک غیر جانبدار نگران حکومتیں، اس پر مستزاد آزاد عدلیہ اور چوکس و متحرک میڈیا۔ ایوانِ صدر کے مکین کی سیاسی ضروریات اور انتخابی ترجیحات اپنی جگہ لیکن ماضی کے برعکس آج ایوان صدر میں کوئی ایسا الیکشن سیل موجود نہیں ہے جو MANIPULATION کے ذریعے مطلوبہ نتائج حاصل کر سکے۔ فوج کے سربراہ بھی الیکشن کے بروقت اور آزادانہ و منصفانہ انعقاد کے لئے اپنے ادارے کی طرف سے بھرپور امداد و تعاون کا یقین دلاتے رہے (اور اس کے لئے انہوں نے عملی اقدامات بھی کئے) ۔
ایک اہم تر بات یہ کہ ان انتخابات میں وہ جماعتیں بھی حصہ لے رہی ہیں جنہوں نے 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ ان میں جماعت ِ اسلامی بھی تھی، آج اس کے امیر کا کہنا ہے کہ انتخابات جیسے بھی لولے لنگڑے ہوں ان میں حصہ لینا، حصہ نہ لینے سے بہتر ہے۔ ان میں بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں بھی ہیں جو بلوچ عسکریت پسندوں کے طرف سے سنگین دھمکیوں بلکہ عملی کاروائیوں کے باوجود الیکشن میں موجود ہیں۔ اے این پی کو خراجِ تحسین نہ پیش کرنا بھی زیادتی ہو گی، جو خیبرپختونخواہ میں دہشت گردی کا سب سے زیادہ نشانہ بننے کے باوجود میدانِ انتخابات میں موجود رہی۔ ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کے اشارے تو دیے لیکن میدان چھوڑنا مناسب نہ سمجھا۔ ایک اور انفرادیت یہ کہ آخری دنوں تک ان انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے شکوک و شہبات موجود رہے۔ اڑھائی، تین سال کی ٹیکنو کریٹ حکومت اور بنگلہ دیش ماڈل کی باتیں تو بہت پہلے سنائی دے رہی تھیں۔ دسمبر میں ”شیخ الاسلام“ کی ”سیاست نہیں ریاست بچاوٴ“ کے نعرے کے ساتھ اچانک آمد و لانگ مارچ اور وفاقی دارالحکومت میں دھرنے کو اسی منصوبے کا حصہ سمجھا گیا۔ ادھر فاٹا کے عسکریت پسند اور بلوچ مہم جو اپنی اپنی وجوہات کی بنا پر ان انتخابات کو روکنے کے لئے سرگرم ِ عمل تھے۔ چنانچہ بعض دانشوروں کی طرف سے یہ سرگوشی مہم بھی چلی کہ اگر 3 صوبوں میں انتخابات نہیں ہوتے تو کیا صرف پنجاب میں انتخابات کی انعقاد قومی یکجہتی کے لیے مفید ہو گا؟ ایسے میں ”شیخ الاسلام “ پھر تشریف لے آتے ہیں۔ عسکریت پسندوں کی طرح ان کا نشانہ بھی 11 مئی کا انتخابی عمل ہے، جسے سبوتاژ کرنے کے لئے انہوں نے الیکشن میں ووٹ ڈالنے کو گناہ ِ کبیرہ قرار دیتے ہوئے، 11 مئی کو ملک گیر دھرنا مہم کا اعلان کر دیاہے۔ عسکریت پسند جو کام دھماکوں اور دھمکیوں کے ذریعے کرنا چاہتے ہیں، ”شیخ الاسلام“ گناہِ کبیرہ کے فتوے کے ذریعے کر رہے ہیں۔
7 مئی کی شام کپتان کے ساتھ پیش آنے والے حادثے پر میاں نواز شریف نے اسی ردِ عمل کا اظہار کیا، جو انہیں زیبا تھا۔ جوں جوں الیکشن قریب آرہے تھے، دونوں جماعتوں میں کشیدگی بڑھتی جارہی تھی۔ اس میں کس کا کتنا حصہ تھا؟ یہاں اس بحث کا محل نہیں۔ ہر کوئی اپنی اپنی سوچ اور اپنے اپنے ظرف کے مطابق سرگرم تھا۔ انتخابی مہم کے آخری 2 دن باقی تھے اور نواز شریف نے یہ 2 دن لاہور کے لئے وقف کئے ہوئے تھے۔ ایک ایک لمحہ قیمتی تھا۔ عمران خان کے ساتھ حادثے کی خبر سنتے ہی انہوں نے اپنے اگلے روز کی انتخابی مہم منسوخ کر دی۔ یہ خیر سگالی کے ساتھ Level Playing field کے جذبے کا اظہار بھی تھا۔ اسی شام مریم نواز کو شاہدرہ میں خطاب کرنا تھا۔ ایبٹ آباد سے فون پر میاں صاحب کی ہدایت تھی کہ وہ اپنی تقریر کا آغاز عمران خان کے لئے دعائے صحت کے ساتھ کرے۔ خود انہوں نے لیاقت باغ راولپنڈی کے جلسے میں، جہاں دور دور تک انسانوں کا جمِ غفیر تھا، کپتان کی صحت یابی کے لئے دعا کرائی۔ شہباز شریف مزاج پرسی کے لئے شوکت خانم ہسپتال پہنچے۔ (پر جوش اور مشتعل کارکنوں کی موجودگی میں ایک بڑا رسک تھا) لیکن ڈاکٹروں نے آئی سی یو میں جانے کی اجازت نہ دی۔ حالانکہ کپتان اس سے قبل یہیں سے قوم کے نام اپنا وڈیو پیغام ریکارڈ کروا چکا تھا۔ شہباز شریف نے کپتان کی بہنوں اور تحریک کے دیگر قائدین سے اظہار افسوس کیا اور لوٹ آئے۔ نواز شریف نے 27 دسمبر 2007 کی شام بے نظیر بھٹو صاحبہ کے لئے بھی اسی جذبے کا اظہار کیا تھا۔ محترمہ پر حملے کی خبر سنتے ہی وہ ہسپتال کے لئے روانہ ہوگئے تھے۔ انتقال کی خبر انہیں راستے میں ملی۔ چند گھنٹے قبل خود ان کے استقبالی جلوس پر فائرنگ سے 4 مسلم لیگی کارکن جان بحق ہو گئے تھے۔
کپتان کے ساتھ اس حادثے پر پاکستانی قوم کے خمیر سے پایا جانے والا جذبہ ٴ خیر ایک بار پھر ابھر کر سامنے آیا۔ کپتان اور تحریک انصاف سے اختلاف رکھنے والوں نے بھی اس حادثے کو شدت سے محسوس کیا۔ اسی قومی جذبے کا اظہار 27 دسمبر 2007 کو محترمہ کی المناک موت پر ہوا تھا۔ آئی سی یوسے کپتان کا وڈیو پیغام بھی اثر انگیز تھااور پھر تحریک انصاف نے اسے اشتہار بنا دیا۔ حادثے کو سیاسی و انتخابی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی یہ مہم بہت سوں کے لئے ناگوار ی کا باعث بنی۔ ہمدردی کی لہر سمٹنے لگی۔
13 مئی کے انتخابی نتائج کیا ہوں گے؟ کپتان نے آخری 2 ہفتوں میں رابطہء عوام کی بھرپور مہم چلائی۔ ”پھینٹا لگانے“ جیسی باتیں ان کے سنجیدہ مداحوں کے لئے آزار کا باعث بنیں تاہم وہ کارکنوں میں جوش و جذبہ ابھارنے میں کامیاب رہے۔ ادھر نواز شریف سرگرم تھے۔
شہباز شریف نے بھی بھرپور حصہ ڈالا۔ میاں صاحب کی تقریر میں مستقبل کے عزائم کا اظہار بھی تھا اور ماضی کے ٹریک ریکارڈ کا حوالہ بھی۔ وہ اپنی تجربہ کار ٹیم کا ذکر بھی کرتے۔ اس میں اپنی ایک اپیل تھی۔ راستہ پُر پیچ ہو تو آپ ایک تجربہ کار ڈرائیور کا انتخاب کرتے ہیں۔ مقدمہ سنگین ہو تو سینئر وکیل کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، مرض قدیم ہو تو ماہر معالج سے رجوع کیا جاتا ہے۔ پاکستان آج جن سنگین داخلی و خارجی بحرانوں سے دو چار ہے، اس میں کسی ”تجربے کی گنجائش“ نہیں ۔ نوجوان بطور خاص نواز شریف کے مخاطب ہوتے جن کی بھاری اکثریت انہیں سننے کے لئے جوق در جوق چلی آتی تھی۔ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ رائے عامہ کے سائینٹفک جائزوں کی بنیاد پر نواز شریف کو پہلے نمبر پر رکھ رہے ہیں۔ خود حفیظ اللہ نیازی نے اپنے تازہ کالم میں نواز شریف کے لئے 100 کے لگ بھگ نشستوں کی پیش گوئی کی ہے۔ ( ان دنوں کپتان سے ناراضی کے باوجود، حفیظ اللہ نیازی کی تمام تر ہمدردیاں تحریک کے ساتھ ہیں) ۔ ان کے خیال میں پیپلز پارٹی 50 یا اس سے کچھ زائد نشستیں لے ہی جائے گی۔ جبکہ تحریکِ انصاف کو وہ اس سے بھی پیچھے قرار دیتے ہیں۔
تازہ ترین