• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے سول سرونٹس کارکردگی اور نظم و ضبط قواعد 2020کی منظوری دیے جانے کے بعد اگرچہ سرکاری افسروں اور ملازمین کی کارکردگی آناً فاناً بہتر ہونے کی توقع درست نہیں تاہم یہ امکان ضرور پیدا ہوا ہے کہ اِس باب میں کچھ نہ کچھ پیش رفت ہوگی اور سرکاری محکموں کی کارکردگی اور سرکاری پالیسیوں پر عملدآمد کی رفتار اور معیار پر اِس کے اثرات نظر آئیں گے۔ وضاحت کے بموجب مذکورہ قواعد کا مقصد اگر واقعتاً اداروں میں اصلاحات لانا، شفاف اور موثر داخلی احتساب کرنا، کارکردگی کو موثر بنانا، ڈسپلن یقینی بنانا ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ اُن کی بدولت عوام کو کئی مشکلات سے نجات ملے گی اور ملک اچھے نظم و نسق کی منزل کی طرف بڑھے گا۔ یہ مسئلہ عشروں سے جاری ایسی صورت حال کا ہے جو قیامِ پاکستان کے وقت کی ہنگامی صورت حال میں پہلے سے جاری اُن قواعد کو اپنانے کے نتیجے میں پیدا ہوئی جو استعماری دور کی ضروریات کے لئے تھے۔ یہی نہیں، نظامِ تعلیم بھی اِس طور پر استوار کیا گیا تھا کہ برٹش انڈیا پر قابض استعماری طاقت کو غلامی کے سانچے میں ڈھلے ہوئے اچھے بابو لوگ مل سکیں۔ وطنِ عزیز میں اِس باب میں دو شکایتیں عام ہیں۔ ایک یہ کہ استعماری دور میں بنائے گئے طور طریقوں پر مبنی نظام ایک آزاد ملک کی ضروریات کی درست تکمیل نہیں کر سکتا۔ دوسری شکایت یہ کہ بعض حکومتوں نے ایسی تقرریاں کیں جو میرٹ اور اہلیت کے مطابق نہیں۔ موجودہ حکومت کی طرف سے متعارف کرائے جانے والے قواعد و ضوابط کے نتائج ماضی کی کئی حکومتوں کے دعووں کے برعکس نہ ہوئے، جمہوری اقدار کے علمبردار ملکوں مثلاً امریکہ اور برطانیہ کی طرح عوام دوست ثابت نہ ہوئے اور سرکاری افسروں کا طرزعمل حکمرانوں کی جی حضوری کرتے ہوئے عام آدمی کے استحصال پر مبنی رہا تو کہا نہیں جاسکتا کہ نظام کے ستائے ہوئے عوام کا ردِعمل کیا ہوگا؟ سول سروس کسی بھی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور اِس میں شامل افراد اِس بات کے ذمہ دار ہوتے ہیں کہ وہ حکومتی پالیسیوں کو احسن طریقے سے بروئے کار لائیں اِس لئے فلاحی ریاست کے منشور کی دعویدار کسی بھی حکومت کی کامیابی میں اُن کا موثر کردار ہوتا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ بیورو کریٹس کی قابلیت، اہلیت، دانشمندی اورنظم و نسق کی بہتری، مفاد عامہ اور ملکی ترقی میں حکومت کی اہم معاون ہوتی ہے۔ ایوان وزیراعظم کے ذرائع کے مطابق بدھ کے روز جن قواعد و ضوابط کی منظوری دی گئی اُن کا مقصد بیورو کریٹس کا شفاف اور موثر داخلی احتساب یقینی اور ان کی خدمات کو بہتر کارکردگی کا حامل بنانا اور ڈسپلن کو یقینی بنانا ہے۔ نئے قواعد کے تحت سرکاری افسروں کے خلاف انکوائری کا فیصلہ 90دن کے اندر ہو جائے گا۔ ’’مس کنڈکٹ‘‘ کی تعریف میں پہلی بار پلی بارگین اور رضاکارانہ واپسی بھی شامل ہے جبکہ محکمانہ عمل کو تیز کرنے کیلئے مجاز افسر کا کردار ختم کردیا گیا ہے، اب صرف اتھارٹی اور انکوائری افسر یا انکوائری کمیٹی ہوں گے۔ نئے قواعد میں ہر مرحلے کیلئے ٹائم لائن کا تعین کیا گیا ہے۔ سرکاری افسر پر الزامات کا جواب 10سے 14دن، انکوائری افسر کی جانب سے کارروائی مکمل کرنے کا وقت 60دن رکھا گیا ہے۔ اتھارٹی کی جانب سے کیس کا فیصلہ 30دنوں میں کیا جائے گا۔ ریکارڈ کی فراہمی، محکمانہ نمائندے کی جانب سے تاخیر، معطلی، ڈیپوٹیشن، رخصت، اسکالر شپ پر گئے افسران کے حوالے سے امور پر واضح صراحت کردی گئی ہے۔ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس اور پولیس کے افسران جو صوبوں میں تعینات ہوں گے ان کے حوالے سے چیف سیکرٹریز کو دو ماہ میں فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ دینا ہوگی، بصورت دیگر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن خود کارروائی کرے گا۔ کیا ہی اچھا ہوکہ یہ قواعد و ضوابط ایک نئی، منقلب اور اصلاح یافتہ سول سروس کا پیش خیمہ بنیں۔ وطن عزیز کو استعمار سے آزادی ملے 73؍برس ہو چکے ہیں، اب عوام کو آزادی کا فخر محسوس ہونا اور بیورو کریسی کو حاکم نہیں خادم ہونا چاہئے۔

تازہ ترین