• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملتان میں پاکستان جمہوری تحریک کا جلسۂ عام دیکھا تو عارفانہ کلام کے بےمثل شاعر جناب اصغر گونڈوی کا شعر یاد آیا ؎

ہیں کامیابِ دید بھی محرومِ دید بھی

جلووں کے اژدہام نے حیراں بنا دیا

حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی فتح یاب اور دونوں ہی تشنہ کام۔ حکومت کا یہ موقف تو درست اور وَزنی تھا کہ کورونا وائرس کی شدت میں سیاسی جلسے نہیں ہونے چاہئیں کیونکہ اِن سے وبا پھیلتی ہے اور اِنسانی جانیں خطرے میں پڑتی ہیں مگر اِس کا یہ طرزِعمل ناقابلِ فہم تھا کہ وزیرِاعظم، وزرائے کرام اور اِنتظامی عہدےدار تو جلسے اور تقریبات کرتے رہیں جیسا کہ اسد عمر نے اُنہی دنوں سکھر میں ایک بڑی تقریب میں حصّہ لیا تھا مگر پاکستان جمہوری تحریک عوام کے بنیادی حقوق پامال کیے جانے پر احتجاجی ریلیاں اَور جلسے منعقد نہیں کر سکتی۔ پشاور میں بھی اُسے جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی اور وَہاں پی ٹی آئی کی حکومت نے بڑی رکاوٹیں کھڑی کی تھیں۔

30نومبر کی دوپہر ملتان کے قاسم باغ میں اپوزیشن نے جلسہ کرنے کا اعلان کیا جس پر ہمارے وزیرِ اطلاعات شبلی فراز نے فرمایا کہ ہم کسی بھی قیمت پر جلسہ نہیں ہونے دیں گے۔ چار دِن اِسی کشمکش کی نذر ہو گئے۔ پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت ہے جو کہیں نظر نہیں آتی۔ اِس نے اسلام آباد کی ہدایتپر اپوزیشن جماعتوں کے کارکنوں کی گرفتاریاں شروع کر دیں اور سابق وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کے تینوں صاحبزادے حوالۂ زنداں کر دیے جو جلسے کے انتظامات کے ذمہ دار تھے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق تین ہزار سے زائد شہریوں کے خلاف مقدمات دائر کیے گئے ہیں۔ دو روز پہلے قاسم باغ تک جانے والی تمام سڑکوں پر کنٹینر لگا دیے گئے۔ پھر ایسے اقدامات بھی دیکھنے میں آئے جن سے تاج پورہ جلسے کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ 1975میں تاج پورہ کے جس گراؤنڈ میں پیپلزپارٹی سے علیحدگی کے بعد غلام مصطفیٰ کھر نے ضمنی انتخاب کی مہم میں جلسۂ عام کرنے کا اعلان کیا تھا، اُس گراؤنڈ میں پانی کے ساتھ سانپ بھی چھوڑ دِیے گئے تھے۔ ملتان میں قاسم باغ کے دروازے بند کر کے اُن پر قفل لگا دیے گئے اور اِس کے چاروں طرف بیرئیرز اَور کنٹینرز کا جال بچھا دیا گیا۔ پکڑ دھکڑ کا سلسلہ تو آخری وقت تک جاری رہا۔ 29نومبر کی سہ پہر مولانا فضل الرحمٰن ملتان تشریف لائے اور اُنھوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے کارکنوں کو ڈنڈے کا جواب ڈنڈے سے دینے کی اجازت دیتے ہیں۔ اِس اعلان سے ایک طرف انتظامیہ میں کھلبلی مچ گئی اور دُوسری طرف تصادم کا بھی خدشہ پیدا ہوا۔ 30نومبر کی صبح لاہور ہائی کورٹ کے ملتان بینچ نے جلسے کی اجازت بھی دے دِی اَور گرفتار شدہ کارکن بھی رہا کر دیے۔ اپوزیشن نے خون خرابے سے بچنے کے لئے جلسہ قاسم باغ کے بجائے گھنٹہ گھر چوک پر اندر منعقد کیا۔

مَیں 3دسمبر کی صبح کالم لکھنے بیٹھا ہوں اَور اِس روز تک پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر ملتان کا جلسۂ عام زیرِبحث آ رہا ہے۔ اِس طرح یہ جلسۂ عام ایک ہفتے سے جاری ہے جس نے حکومت کو ایک اور چیلنج سے دوچار کر دیا ہے، وہ ہے 13دسمبر کا مینارِ پاکستان پر جلسۂ عام کا انعقاد جسے تاریخی بنانے کے لیے ابھی سے کوششیں شروع ہو گئی ہیں۔ ملتان کا جلسۂ عام جو سات روز جاری رہا، اِس میں نئی حقیقتیں بھی جلوہ گر ہوئی ہیں۔ ایک تو یہی کہ کارکردگی اور اَچھی حکمرانی سے تہی دامن حکومت عوام کے خلاف طاقت استعمال نہیں کر سکتی اور اَگر کرے گی، تو جلد ہی ڈھیر ہو جائے گی۔ دوسری حقیقت یہ کہ حکومت کی مسلسل طعنہ زنی کے نتیجے میں اپوزیشن کا جو اتحاد ’پاکستان جمہوری تحریک‘ کے نام سے وجود میں آیا ہے، اُسے اربابِ حکومت ہی کی غلط پالیسیوں، اشتعال انگیزیوں اور عقلِ سلیم سے تہی دست بیان بازیوں سے تقویت مل رہی ہے، جبکہ پی ٹی آئی کی قیادت میں شدید انتشار نظر آ رہا ہے۔ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی، وفاقی وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری اَور وَزیرِاعظم کے سیاسی مشیرحامد ڈوگر نے بیان دیے ہیں کہ پنجاب حکومت نے ملتان جلسے کو روکنے اور سیاسی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ میں جمہوری اصول پامال کیے ہیں۔ اِس نئی حقیقت کا بھی اشارہ ملا ہے کہ ہماری قومی سیاست میں خواتین کا کردار بڑی اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ آصفہ بھٹو نے پہلی سیاسی تقریر کر کے اپنی والدہ محترمہ کی یاد تازہ کر دی ہے اور عوامی جذبات کو مہمیز لگائی ہے۔ اُن کی آمد کی سنجیدہ حلقے اُمیدوں کے ساتھ ستائش کر رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ اَپنے بھائی بلاول بھٹو کی معیت میں نوجوانوں کے اندر اَپنے حقوق و فرائض کا شعور گہرا کریں گی۔ مریم نواز صاحبہ پہلے ہی اپنی جرأت، استقامت اور خطابت کا سکّہ جما چکی ہیں، البتہ وہ مقبولیت کے جس مقام پر فائز ہیں، اِس کے لئے اُنہیں تجربہ کار اور ذِی فہم اشخاص اپنے حلقۂ مشاورت میں شامل کرنا ہوں گے۔

لاہور کے جلسۂ عام کے انعقاد میں ابھی آٹھ روز باقی ہیں۔ اِس جلسے کے حوالے سے خونریز تصادم کا سلسلہ بھی شروع ہو سکتا ہے اور مفاہمت کا ایک باب بھی کھل سکتا ہے۔ واپسی کے راستے بند ہو جانے سے پہلے حکومت کو تمام ایشوز پر بات کرنے کیلئے اپوزیشن کو دعوت دینی چاہئے۔ نیب کے بارے میں ہمہ پہلو بات ہونی چاہئے جس نے اپوزیشن کی اذیت رسانی کا ناگفتہ بہ سلسلہ آخری حدوں تک پہنچا دیا ہے جس پر اعلیٰ عدالتیں بہت سیخ پا ہیں۔ اپنی والدہ کے انتقال پر پیرول پر رہا ہونے والے جناب شہباز شریف نے گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی بات کی ہے۔ اکثر تجزیہ نگاروں کی رائے میں اِس کے ذریعے ہی قوم ہولناک نتائج سے محفوظ رہ سکتی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے اگرچہ حکومت سے مذاکرات کا ہر امکان مسترد کر دیا ہے، مگر کھڑکی بھی کھلی رکھی ہے کہ آخری فیصلہ رہبر کمیٹی میں ہو گا۔ سنگین چیلنجوں میں گِھرے وزیرِاعظم کو معقولیت اور میانہ روی کی راہ اختیار کرنی چاہئے کہ یہی سلامتی و استحکام کا راستہ اور غالباً مفاہمت کا آخری موقع ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین