• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شاہ جی بھی گئے…!
چلے تو وہ بہت سے ہی گئی تھے لیکن سانس کا تار جڑا تھا۔ وہ لمحہ بہت دیر بعد آیا جس کے لئے شاید خود شاہ جی بھی دن گن رہے تھے۔ ان جیسے متحرک، زندہ دل اور یار باش شخص کے لئے اتنے طویل عرصے بے بسی و لاچاری کی حالت میں بستر پہ پڑے رہنا کتنا اذیت ناک ہوگا، سوچتا ہوں تو دل لرز جاتا ہے۔ میں نے انہیں آخری بار اپنے گھر کے ایک چھوٹے سے کمرے میں ایک پلنگ پہ دراز دیکھا، جہاں کئی چیزیں بے ترتیبی سے پڑی تھیں۔ میرا بیٹا عمران بھی ہمراہ تھا۔ وہ بصد مشکل سہارا لے کر بستر پہ اٹھ بیٹھے، ہاتھ ملایا، باتیں بھی کیں لیکن میرے اندر ایک جھڑی سی لگی رہی۔ میں چراغ کی لو بیٹھتے دیکھ رہا تھا۔ عمران نے ان کے ایک کالم کا توصیفی انداز میں ذکر کیا تو بجھتی ہوئی آنکھوں میں ایک چمک سی آگئی۔ ہونٹوں پہ ایک مسکراہٹ پھیلتی چلی گئی اور گفتگو میں یکایک جان سی پڑ گئی۔ ہم ان سے ہاتھ ملا کر رخصت ہونے لگے تو بولے۔ ”یار بڑی شرم سی آرہی ہے آپ کو چھوڑنے باہر تک بھی نہیں جاسکتا“۔ میں نے جھوٹی تسلی کے دوچار بول کہے اور کمرے سے باہر نکل آیا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے عمران سے کہا ”عباس اطہر بھی گئے“۔
میرے اور شاہ جی کے درمیان کوئی قدر مشترک نہ تھی۔ میں کبھی ان کا ہم نوالہ و ہم پیالہ نہ رہا۔ عملی صحافت میری زندگی کا حصہ نہیں رہی سو مجھے کبھی شاہ جی کے ساتھ کام کرنے کا موقع بھی نہیں ملا۔ ان کی عمر کا بیشتر حصہ لاہور میں گزرا اور میرا مسکن اسلام آباد رہا۔ ہماری سوچ اور نظریات کے دھارے بھی جدا رہے۔ وہ ساری عمر پیپلزپارٹی سے عشق کی چتا میں جلتے رہے اور زندگی کے کسی دور میں پی پی پی نے میرے دل پہ دستک نہ دی لیکن نہ جانے کیا بات تھی کہ گنتی کی چند ملاقاتوں کے بعد شاہ جی کی من موہنی سی شخصیت اپنی سادگی و پرکاری کے ساتھ آلتی پالتی مار کر میرے دل میں آبیٹھی اور پھر بیٹھی ہی رہی۔
پہلی ملاقات ان دنوں ہوئی جب شاہ جی نوائے وقت کے ایڈیٹر تھے اور میں ان کے اخبار میں کالم لکھا کرتا تھا۔ ایک دن لاہور جانا ہوا تو ارشاد عارف سے گپ شپ کے بعد میں نے کہا کہ عباس اطہر صاحب سے ملنا ہے۔ وہ مجھے ایک نہایت ہی چھوٹے سے کمرے میں لے گئے جہاں شاہ جی کرسی میز لگائے بیٹھے تھے اور کچھ لکھ رہے تھے۔ اس ملاقات میں بے ساختگی یاکھلا ڈھلا پن تو ہر گز نہ تھا لیکن وہ تکلیف اور بوجھل پن بھی نہ تھا جو پہلی رسمی ملاقات کا لازمہ ہوتا ہے۔ اس مختصر سی ملاقات کے بعد شاہ جی سے مہینے دو مہینے بعد فون پہ بات ہو جاتی لیکن دوستانہ قربت اب بھی نہ تھی۔
شاہ جی کا کالم ”کنکریاں“ مجھے ہمیشہ بہت پسند رہا۔ کسی آرائش و زیبائش کے بغیر سادہ سلیس زبان اور رواں دواں اسلوب میں لکھا گیا ان کا کالم بڑے بڑے معاملات کو اتنی عمدگی سے سمیٹ لیتا تھا کہ رشک آتا تھا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہوئے وہ کسی شخصیت کی چٹکی لیتے تو لطف آجاتا۔ ان کے ہاں طنز اور مزاح کی آمیزش نے ایک نہایت ہی کاٹ دار لہجہ اختیار کرلیا تھا۔ میں اکثر کہا کرتا تھا اور یہ سچ تھا کہ شاہ جی ! میں آپ کا اخبار دوسرے صفحے سے شروع کرتا ہوں“۔ اپنی تخلیق کسے پسند نہیں ہوتی۔کبھی شاہ جی کے سامنے ان کے کالم کی تعریف کی جاتی تو ان کے چہرے پر نوبیاہتا دلہنوں جیسی ایک شفق سی کھل اٹھتی اور وہ شرما سے جاتے۔ جواب میں بس ایک لفظ کہتے ”اچھا“۔ آخری ملاقات میں، میں نے کہا ”شاہ جی! کالم تو لکھ دیا کریں“۔ بے چارگی کی ایک دھند ان کے چہرے پہ پھیل گئی۔ کہنے لگا بازو ٹھیک سے کام نہیں کر رہا، شدید درد اٹھتا ہے کندھے میں،کسی اور کو لکھوانے کی عادت نہیں“۔
شاہ جی ”نوائے وقت“ چھوڑ کر ایک نئے اخبار میں گئے تو ان کا پیکیج کئی گنا بڑا تھا۔ نئے اخبار کے معاملات کی نگہبانی کرنے والی ایک اہم شخصیت نے مجھ سے رابطہ کیا اور ایک بھاری پیکیج پر ان کے اخبار میں آنے کی دعوت دی۔ اسی دن شاہ جی کا فون آیا۔ کہنے لگے“ میرا دل چاہتا ہے کہ آپ ضرور ہمارے ساتھ آجائیں لیکن میں مناسب نہیں سمجھتا کہ کوئی کہے، ان کے بندے توڑ رہا ہوں“۔ لاہور میں شاہ جی نے ایک کھانے پہ بلایا۔ اخباری شخصیت اور شاہ جی کے علاوہ برادرم عبدالقادرحسن بھی تھے۔ یہی موضوع سخن تھا لیکن میں طرح دیتا رہا پھر ایک دن شاہ جی اسی شخصیت کے ہمراہ میرے گھر اسلام آباد آگئے۔ دیر تک باتیں ہوتی رہیں لیکن میں نے ”عمل“ نہ کی۔ وہ دل برداشتہ سے ہوئے۔ کہنے لگے”یہ مولوی آدمی ہے، اسے اپنے حال پہ چھوڑ دو“۔
لیکن شاہ جی نے عملاً مجھے اپنے حال پہ نہ چھوڑا۔ ہمارے درمیان انہی دنوں سے کچھ ایسی قربت قائم ہوگئی جس میں بلا کی گرمجوشی تھی۔ شاید ہی کوئی دن ہو جب شاہ جی مجھے فون کرکے لمبی گپ شپ نہ کرتے ہوں۔ رات دیر تک کام کرنے والے اخبار نویسوں کی طرح وہ سحر خیز نہ تھے۔ عموماً ان کا فون گیارہ بجے کے بعد ہی آتا لیکن کبھی کبھار علی الصبح گھنٹی بج اٹھی۔ شاہ جی کہتے۔ آج نیند نہیں آئی، سوچا تم مولوی آدمی ہو۔ جاگ رہے ہو گے“۔ ایک دن کہنے لگے، یار پتہ نہیں کیوں، تم سے گپ شپ کرتے ہوئے بڑا ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہوں“۔
شاہ جی پیپلزپارٹی کے عشاق میں سے تھے۔ ہم نواز شریف کی بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس کے سلسلے میں لندن میں تھے تو شاہ جی سے خوب محفل رہتی تھی۔ انہوں نے بی بی کو پیغام بھیجا لیکن ادھر سے ملاقات کا سندیسہ نہ آیا۔ پھر ہم مانچسٹر چلے گئے جہاں شاہ جی کا ایک مجذوب سا بھائی قیام پذیر تھا۔ ایک دن شاہ جی کو بی بی کی طرف سے ملاقات کا پیغام آگیا۔ شاہ جی کہنے لگے۔ اب میں نہیں جارہا، کل واپسی کی فلائٹ ہے پھر سیٹ بھی نہیں ملے گی۔ میں نے کہا۔ شاہ جی ضرور جائیں، میں آپ کی سیٹ آگے کروا دیتا ہوں۔ پی آئی اے کے ایک دوست کو میں نے وہیں بلوالیا۔ اس نے نہ صرف شاہ جی کی واپسی کی تاریخ آگے کرادی بلکہ اکانومی سے اپ گریٹ کراکے بزنس کلاس کرادی۔ شاہ جی بی بی سے ملنے گئے، واپس آکر مجھے روداد سنائی۔ کہنے لگے میں نے پیپلزپارٹی کے ووٹر کی وفاداری اور سخت جانی واضح کرنے کے لئے ایک کھردرا سا لفظ استعمال کیا تو بی بی نے کہا ”شاہ جی ایسے تو نہ کہیں“۔
پاکستان واپس آتے ہی مجھے شکریئے کا فون کیا کہنے لگے یار آپ کے دوست نے مجھے فرسٹ کلاس میں بٹھا دیا۔ سارے سفر کے دوران ڈرتا رہا کہ کوئی اٹھا نہ دے ۔ کیا مرنجاں مرنج اور سادہ منش شخص تھا۔ پیپلزپارٹی کی وفا کی آنچ میں آخری سانس تک سلگتا رہا۔ کسی بڑے کو توفیق نہ ہوئی کہ اسپتال میں اس کی عیادت ہی کرلیتا۔ اسلم خان نے ایک ملاقات کے دوران صدر آصف زرداری کو بستر مرگ پہ پڑے شاہ جی کا پیغام پہنچایا تو جناب صدر نے صرف اتنا کیا۔ نوٹڈ (Noted) اور آگے گزر گئے ۔ اچھا ہوا کہ شاہ جی ان خرخشوں سے چھوٹ گئے۔ انہیں اس بارگاہ عالی کا سندیسہ آگیا جو سب کو اپنی آغوش رحمت میں لے لیتی ہے۔
شاہ جی بہت دیر تک یاد آتے رہیں گے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ان جیسا سرخی تراش اخبار نویس آج تک پیدا نہیں ہوا لیکن مجھے تو بس اس غریب و سادہ سے شخص کی یاد ستاتی رہے گی جس کی باتوں میں گلوں کی خوشبو تھی اور جو اندر سے بھی اجلا تھا اور باہر سے بھی نفیس۔
دور رہیں اور پل پل مہکیں خوابوں اور خیالوں میں
ایسے لوگ بھی مل جاتے ہیں لیکن صدیوں سالوں میں
تازہ ترین