وباء کے دنوں میں محبتوں کو فراموش کردیا جاتا ہے، لیکن اس کے برعکس آرٹس کونسل کراچی کی تیرھویں عالمی اردو کانفرنس نے احمد شاہ کی قیادت میں کورونا کو شکست دے دی۔ کورونا کے سائے میں کانفرنس 3 سے 6 دسمبر 2020 تک ادب ،ثقافت، تہذیب، گیت سنگیت، شاعری، مزاح اور موسیقی کے رنگ بکھیرتی رہی۔
کانفرنس میں شوبزنس سے جڑے مختلف پروگراموں کا ذکر ملاحظہ کریں۔ عالمی شہرت یافتہ فن کاروں نے اردو کانفرنس کو رنگین بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ ڈراما نگار اور طنز و مزاح کے تیر چلانے والے انور مقصود نے حسبِ روایت آرٹس کا اردو میلہ لُوٹ لیا۔
انہوں نے چار روزہ میلے میں ہنسا ہنسا کے لوٹ پوٹ کردیا۔ اُن کے شگفتہ جُملوں سے ہر چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔انہوں نے کہا کہ ضیاء الحق نے ملک پر 12 سال حکومت کی، لیکن احمد شاہ کو 13 سال ہوگئے اور اس مرتبہ بھی کانفرنس کی کام یابی کے بعد وہ الیکشن پھر جیت جائیں گے۔ قبل ازیں نئی نسل کے شہرت یافتہ فن کار ہمایوں سعید اور فلموں کے ڈائریکٹر ندیم بیگ کے مابین دل چسپ گفتگو کا تبادلہ رہا۔عالمی شہرت یافتہ فن کار ضیاء محی الدین نے منتخب مزاح پیش کر کے حاضرین اور ناظرین کو خوب ہنسایا۔
لاہور سے تشریف لائے لانے نامور مزاحیہ اداکار سہیل احمد اور ابھرتے ہوئے مزاحیہ فن کار یاسر حسین نے پاکستان میں ثقافت کا نوحہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ گلوکارہ نور جہاں کو اپنے علاج کے لیے قیمتی گھر فروخت کرناپڑا تھا۔ یہ کسی المیہ سے کم نہیں تھا۔ آج تک ہمارے ایوانِ بالا میں ثقافت پر بحث نہیں کی گئی۔علاوہ ازیں ایک نشست میں پاکستان میں فنون کی صورتِ حال پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ۔
اردو کانفرنس میں موسیقی کے سو برس کے حوالے سے پروگرام بھی پیش کیا گیا، جس میں گیت، غزل، ٹھمری، خیال کی گائیکی سمیت عارفانہ اور صُوفیانہ کلام پیش کیا گیا۔میوزک اکیڈمی (ACMA) کے بینڈ سمیت نامور گلوکاروں نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا، اس موقع پر گلوکار نمرہ رفیق، احسن باری، ارمان رحیم نے اپنی سُریلی آواز کا جادو جگاتے ہوئے شرکاءکو جُھومنے پر مجبور کردیا۔
ارٹس کونسل کی گورننگ باڈی کی رکن اور معروف فن کارہ ڈآکٹر ہما میر نے امیر خسرو کا کلام پیش کرکے محفل میں رنگ جمایا، جب کہ نامور لوک فن کارہ تاج مستانی نے سرائیکی گیت سمیت ’’آلے الے‘‘ اور قلندری دھمال پیش کی ۔ گلوکارہ عروسہ علی نے گلوکارہ مہناز کا گایا ہوا گیت گایا۔ اخلاق بشیر نے جان نثار اختر کی غزل پیش کی۔
محفل موسیقی میں ٹھمری۔خیال کی گائیکی گیت غزل کلاسیکی موسیقی سمیت ہر رنگ کی موسیقی پیش کی گئی۔کمپئرنگ کے فرائض نومی خان نے انجام دی۔محفل موسیقی رات گئے تک جاری رہی۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ صداکار اوراداکارضیاءمحی الدین نے ”اُردو کا شاہ کارمزاح“ کے عنوان سے منعقدہ سیشن میں اپنے مخصوص انداز میں رنگ جمایا اور محفل کو زعفرانِ زار بنایا۔
اس موقع پر اُن کا کہنا تھا کہ مزاح صرف قہقہہ پر اُکساتا نہیں ہے، بلکہ بعض اوقات ظرافت کی ہلکی سی مسکراہٹ بھی آپ کے لبوں پر بکھیر دیتا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی کے مزاح میں ایک تھیکی کاٹ بھی ہے۔ ضیاءمحی الدین نے کہاکہ ظرافت کا کوئی ایسا پہلو نہیں ہے ،جس میں ابن انشاء نے اپنا سکہ نہ جمایا ہو۔
اردو کانفرنس میں معروف اداکار سہیل احمد کے ساتھ ایک ملاقات نے سماں باندھ دیا تھا،جس کی میزبانی نئی نسل کے نامور اداکار یاسر حُسین نے کی۔ سہیل احمد نے کراچی کو پاکستان کا چہرہ قرار دیا۔ دونوں مایہ ناز اداکاروں کے کھلکھلاتے جملوں نے ماحول کو کشت زعفران بنا دیا ، دوران گفتگو سہیل احمد نے اپنے چٹکلوں سے حاضرین سے خُوب داد سمیٹی ، اُن کا کہنا تھا کہ ’’سیاستدانوں نے اپنی نقل اتارنے پر ہمیشہ میری تعریف کی۔ نوجوان فن کاروں کو سینئر کا ادب کرنے اور ان سے سیکھنا چاہیے۔ میں نے سو سے زیادہ ڈراما سیریلز میں کام ،تو تین مرتبہ صدراتی ایوارڈز ملے۔‘‘
اردو میلے میں فلموں اور ڈراموں کے سپر اسٹار ”ہمایوں سعید سے ملاقات“ کا اہتمام بھی کیا گیا، جس میں محمد احمد شاہ اور لاہور سے آن لائن معروف ڈائریکٹر ندیم بیگ نے ہمایوں سعید سے مختلف سوالات کیے جن کے جواب ہمایوں سعید نے لاہور سے آن لائن گفتگو کرتے ہوئے دیے۔ ہمایوں سعید نے بتایاکہ میں کراچی ضرور آتا، مگر کورونا کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باعث میں مختلف شہروں کے درمیان کم سے کم سفر کررہا ہوں۔
انہوں نے کہاکہ ڈراما ہو یا فلم اسکرپٹ کی اہمیت سب سے زیادہ ہوتی ہے، گزشتہ چند برسوں سے میں اور ندیم بیگ اس لیے کسی ٹی وی سیریل کے لیے کام نہیں کررہے کہ ہمارے پاس اچھا اسکرپٹ موجود نہیں ہے، جو ڈرامے اس وقت بن رہے ہیں، ان میں بعض کریکٹرز میں وہ بات نظر نہیں آتی، جو ماضی میں نظر آتی تھی۔ کریکٹر کے پاس کچھ کرنے کے لیے ہونا چاہیے۔
آج کل ہم پُرانے رائٹرز کو یاد کرتے ہیں، جن میں حسینہ معین، نورالہدیٰ شاہ اور دیگر شامل ہیں۔ ان کے اسکرپٹ بہت جان دار ہوتے تھے۔ آج کل بعض رائٹرز ایسے ہیں، جو اسکرپٹس پر توجہ نہیں دے رہے۔ آج کے اسکرپٹس میں لکھے گئے ڈائیلاگز میں حسینہ معین اور نورالہدیٰ شاہ جیسی مصنفہ کا تجربہ ضرور شامل کیا جانا چاہیے۔ اب تو یہ ہورہا ہے کہ موجودہ دور میں بعض لکھنے والے ایک سال میں چھ چھ سیریل لکھ دیتے ہیں۔
انہوں نے اپنے بارے میں بتاتے ہوئے کہاکہ پہلے میں بھی سال میں تین سیریل کر لیا کرتا تھا، مگر اب تین سال میں ایک ہی سیریل کرتا ہوں۔ ہمیں اپنے پُرانے تجربے کار رائٹرز کو ساتھ ملاکر کام کرنا چاہیے ”جانے اَن جانے“ میرا پہلا سیریل تھا ، جسے حسینہ معین نے تحریر کیا تھا۔ان دنوں میں اپنی فلم ”لندن نہیں جاؤں گا“ پر کام کررہا ہوں، مگر میرا واقعی لندن جانا نہیں ہورہا، جس کا سبب موجودہ وباءکورونا ہے۔ ”لندن نہیں جاؤں گا“ فلم کا اسکرپٹ خلیل الرحمن قمر نے تحریر کیا ہے۔
کئی برسوں سے سُنتے آرہے ہیں کہ پاکستان فلم کو انڈسٹری کا درجہ دیا جارہا ہے، مگر عملی طور پر اب تک اسے انڈسٹری کا درجہ نہیں ملا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ حکومتوں نے کوشش نہیں کی ہوگی، یقینا ماضی کی حکومتوں اور موجودہ حکومت نے بھی اس سلسلے میں اپنی کوششیں ضرور کی ہوں گی، مگر ان کوششوں کا کوئی نتیجہ بھی سامنے آنا چاہیے۔ میں اداکاری کے دوران نیچرل رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ”ارطغرل غازی “ جیسے ڈرامے بنانے کے لیے بڑے سرمائے کی ضرورت ہے۔ مجھے بھی پاکستان میں اس طرح کے ڈرامے اور سیریل بنانے کی آفرز ہیں، مگر اس کے لیے زیادہ سرمایہ چاہیے۔مجھے پرائڈ آف پرفارمنس ملنے پر بہت زیادہ خوشی ہوئی اور یہ خوشی مجھے ہر ایوارڈ کے ملنے پر ہوتی ہے ان ایوارڈز کو سنبھالنے اور سجانے کے لیے میں نے اپنے گھر میں ایک گوشہ مختص کردیا ہے۔‘‘
کانفرنس میں ایک نشست”پاکستان میں فنون کی صورت حال“ پر پر رکھی گئی، جس میں فنونِ لطیفہ کی مختلف اصناف سے تعلق رکھنے والی شخصیات حسینہ معین، شیما کرمانی، شاہد رسام، امجد شاہ ، بی گل اور کاشف گرامی نے اپنے خیالات کا اظہار کیا،جب کہ نظامت کے فرائض عظمیٰ الکریم نے انجام دیے۔
اس موقع پر معروف ڈراما رائٹر حسینہ معین کا کہنا تھا کہ ڈراموں میں کرداروں کے ذریعے انسانوں کو پہچانا جاتاہے، آج کل ڈراموں کی ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ بغیر تحقیق کے کام ہورہا ہے ، لوگ یہ نہیں سوچتے کہ کس طرح کے کردار سے کس طرح کے مکالمے کہلوانا چاہئیں، ہمارے زمانے میں جب ڈرامے بنائے جاتے تھے ،تو اس میں آپ کے اپنے گھر کا ماحول ہوتا تھا، پھر اسی لحاظ سے کہانی بھی آگے بڑھتی تھی، اس وقت جو غلطی ڈراموں میں ہورہی ہے، وہ یہ ہے کہ جو ہمارا دل چاہتا ہے، ہم وہی کرلیتے ہیں، کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اگر یہ کردار غریب ہے، تو اس کا انداز کیا ہونا چاہیے، ہمیں اپنے ڈراموں میں عورت کو ذلیل کرنا اور کرانا ختم کرنا ہوگا ۔
میں نے اپنے ڈراموں میں عورت کو کبھی بھی تھپڑ مارتے ہوئے نہیں دکھایا، کیوں کہ اس عمل سے میں کیوں تمام مردوں کو ذلیل کروں، سب ایسے نہیں ہوتے، ڈرامے میں خاص احتیاط یہ کرنی پڑتی ہے کہ لوگ ان کرداروں کو اصل سمجھیں، جب کردار قبول ہوگا تو بات آگے بڑھے گی۔ آج کے دور میں ڈرامے کی خرابی اس کا کمرشلائزڈ ہونا ہے۔ پی ٹی وی نے بہت عمدہ ڈرامے پیش کیے ۔ اس کا مجھ پر بہت احسان ہے۔ اب موجودہ دور میں سب کمرشل ہوگئے ہیں، کوئی ایک گھنٹے کے لیے کہیں جاتا ہے تو کوئی دو گھنٹے کے لیے کہیں اورجاتا ہے، کام کوئی بھی ہو اس میں اخلاص کا ہونا ضروری ہے، بھاگ دوڑ ضروری نہیں۔‘‘
معروف کلاسیکل رقاصہ شیما کرمانی نے کہا کہ پرفارمنگ آرٹ کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ تقریر اور اظہار کی آزادی ہو، جو ہمیں میسر ہی نہیں ہے۔ اس لیے یہ آرٹ آگے نہیں بڑھ رہا، جب تک صحیح طرح سے سوچ کے اظہار کی آزادی نہیں ملے گی، آرٹ آگے نہیں بڑھ سکتا، کلاسیکل آرٹ کا آگے بڑھنا بڑا مسئلہ ہے، کیوں کہ اسے پروموٹ ہی نہیں کیا جارہا۔ دو دن ڈانس سیکھنے والے تیسرے دن اپنے آپ کومکمل پرفارمر سمجھنے لگتے ہیں۔ تعلیم کا ہونا ضروری ہے، مگر جس طرح تعلیم کم ہوتی جارہی ہے، اسی طرح آرٹ اور کلچر بھی گرتا جارہا ہے۔ آرٹ وہ ہے، جو انسان کو سوال کرنے پر اکسائے، جب کہ دوسری خوبی آرٹ کی یہ بھی ہے کہ وہ خُود آپ کو محسوس کرائے، آپ کو روکے اور آپ کے دل کو چھو جائے، یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہمارا آرٹ عام لوگوں تک پہنچے، ہر انسان کا حق ہے کہ وہ اچھا آرٹ دیکھے، مگر بدقسمتی سے ہم اپنے ملک کے لوگوں کو اچھا آرٹ نہیں پہنچا پارہے ہیں۔
اگر یہ بات کی جائے کہ جس طرح کی ڈیمانڈ آئے گی ، اسی طرح کا آرٹ پیش کیا جائے گا، تو اس پر یہ بات کی جاسکتی ہے کہ ڈیمانڈ کرنے والے کون لوگ ہیں، یقینا یہ وہی پیسے والے لوگ ہیں، جو ڈیمانڈ کرتے ہیں۔ دیکھنے والے نہیں، اچھا دکھائیں گے، تو لوگ اچھا دیکھیں گے اور اچھے کی ہی ڈیمانڈ کریں گے۔ کورونا کی وجہ سے پرفارمنگ آرٹ دنیا بھر میں ختم ہوچکا ہے۔ فلم اور ٹی وی بہت اہم میڈیا ہیں، ہم اس میڈیا پر ان لوگوں کو پرموٹ کیوں نہیں کرتے، جو محنت کرکے سماج میں اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔
شاہد رسام نے کہا کہ سوفٹ امیج پیدا کرنے کا کام آرٹ کا نہیں ہے، آرٹ آپ کی روح پر جمی گرد کو صاف کرتا ہے۔ تب ہی آپ ایک بہتر سماج اور سوسائٹی بنتے ہیں، آرٹ کی جدوجہد کا وقت صدیوں پر محیط ہوتا ہے۔ آج کے دور میں جس کی پینٹنگز مہنگے داموں فروخت ہوجائیں، وہی بڑا آرٹسٹ کہلاتا ہے، جب کہ کم قیمت فروخت ہونے والی پینٹنگ کو لوگ ہلکا سمجھتے ہیں۔ یہ پیمانہ اشیاء کے لیے تو چل سکتا ہے، مگر آرٹ کے لیے نہیں، کیوں کہ آرٹ کا پیمانہ وقت طے کرتا ہے۔ آرٹ وہی ہے، جو انسان کو سوال کرنے پر اکسائے۔
ٹیلی ویژن کی معروف شخصیت امجد شاہ نے کہاکہ ماضی میں ہم نے ایک عرصے تک ہر شعبے میں کمالات دکھائے ہیں۔ پی ٹی وی پر ”پائل“ کے نام سے پروگرام بھی چلتا تھا۔ آج کی نسل تو ہمارے کئی بڑے فن کاروں کو جانتی بھی نہیں ہے۔ ماضی میں جن میوزک ڈائریکٹرز نے فلموں کے لیے کام کیا، وہ لاجواب تھا اور ان کی موسیقی کو ہم نے بین الاقوامی سطح پر بھی بھیجا ہے۔
حسینہ معین کے زمانے میں ایک پوری ٹیم مل کر کام کرتی تھی، مگر آج کا مسئلہ یہ ہے کہ ہر کوئی سب کام خود کرکے سارا کریڈٹ لینا چاہتا ہے۔ کورونا کے زمانے میں ہم گھر بیٹھ کر ان پروگراموں اور فن کاروں کو سُن اور دیکھ سکتے ہیں، جن کو ہم نے پہلے نہیں سُنا، نہ ہی دیکھا۔ آج کی موسیقی اور گانے مقبول تو ہورہے ہیں، مگر یاد نہیں رہتے، جب کہ ماضی کی موسیقی اور گیت آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔
بی گل کا کہنا تھاکہ جس طرح دیگر شعبہ جات تنزلی کا شکار ہوئے ہیں، یقینا اس کے اثرات فنون پر بھی پڑے ہیں، مگر ہمیں نااُمید ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ آج کی نشست جیسے پروگرام تسلسل کے ساتھ منعقد ہوتے رہیں تو یقینا بہتری آئے گی۔ یہ اچھی بات ہے کہ کوآپریٹ سیکٹر بھی اس میں شامل ہورہا ہے، مگر مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے، جب وہ شامل ہوکر ہمیں یہ بھی بتائے کہ ہمیں کس طرح کام کرنا ہے، اب تو اس قدر آسانی ہوچکی ہے کہ ویب کے ذریعے دُنیا بھر کی چیزیں دیکھ کر ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہی۔
آرٹس کونسل کی گورننگ باڈی کے رُکن کاشف گرامی نے کہاکہ ہم ہر کام سب سے آخر میں کرنے پر تیار ہوتے ہیں، ہم نے اچھا کام ہمیشہ پابندیوں میں کیا ہے۔ گزشتہ برسوں میں ٹی وی نے رقص کو سب سے کم وقت دیا ہے ،جب کہ فلم بھی ٹی وی پر آنے کے بعد ہی مقبول ہوتی ہے۔ اب معیاری کام بھی نہیں ہورہاتو ہم دکھائیں گے کیا، اسکرپٹ لکھنے کے کام پر مارکیٹنگ کے لوگ بیٹھ گئے ہیں۔ ہم ایک اینٹی آرٹ سوسائٹی ہیں۔ اس کے باوجود بھی ہم یہاں تک پہنچے ہیں، تو یہ ایک بڑی کام یابی ہے ۔‘‘