سندھ کا خطہ اپنی قدیم تہذیب، ثقافت اور زبان کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتا ہے۔ سندھ دھرتی کےصوفی شاعرشاہ عبداللطیف بھٹائی ، جنہوں نے سندھی شاعری کو ایک نئی جہت بخشی ، بلاشبہ عالمگیر شہرت کے حامل ہیں۔ شاہ عبد اللطیف بھٹائی نے اپنی شاعری سے سندھی زبان کی وقعت، اہمیت اور عوامی مقبولیت میں گراں قدر اضافہ کیا۔ شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے کلام کو مرتب کرنے کا سہرا جرمن مستشرق ڈاکٹر ارنیسٹ ٹرمپ کے سر جاتا ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے شاہ کے کلام کو مرتب کرکے جرمنی کے شہر لیپزک سے شائع کیا اور اسے ’’شاہ جو رسالو‘‘ کا نام دیا۔ ڈاکٹر ٹرمپ کے بعد مرزا قلیچ بیگ، کلیان ایڈوانی، علامہ آئی آئی قاضی، غلام محمد شاہوانی اور ڈاکٹر ہوت چند مول چندگربخشانی نے شاہ کے کلام کو مرتب کرنے کا کارنامہ سر انجام دیا ۔
ڈاکٹر ہوت چند مول چند گربخشانی8 مارچ 1884ء کو سندھ کے تاریخی شہر حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ 1900ء میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد ڈی جے کالج کراچی میں داخلہ لیااور 1905ء میں بی اے کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ اسی سال ایم اے کے لیے ولسن کالج بمبئی میں داخل ہوئے۔ 1907ء میں ایم اے کرنے کے بعد اسی کالج میں انگریزی اور فارسی کے اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے اور ایک ہی سال بعد ڈی جے کالج کراچی میں فارسی کے پروفیسر ہو گئے۔
یہاں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور بتدریج ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے پرنسپل کے عہدے پر فائز ہو ئے۔ 1928ء میں ڈاکٹر گربخشانی لندن یونیورسٹی چلے گئے، جہاںMysticism in the Early 19th Century Poetry of England (انگلستان کی ابتدائی انیسویں صدی کی شاعری میں تصوف) کے عنوان سے مقالہ لکھا جس پر انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی۔ یہ مقالہ بعد ازاں ڈاکٹر گربخشانی کی صدسالہ تقریبات کی مناسبت سے بھارت سے کتابی صورت میں بھی شائع ہوا۔
ڈاکٹر ہوت چند گربخشانی نے ہر چند سندھی ادب میں متنوع اضافے کیے ہیں اور سندھی فکشن میں اپنے کام کی بنیاد پر بھی اپنے ہم عصروں میںا نفرادیت رکھتے ہیں لیکن دراصل وہ تحقیق کے آدمی تھے، چناں چہ انہوں نے شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے کلام کواشعار کی صورت میںجمع کرکے محققانہ چھان بین کے بعد اس طرح مرتب کیا ہے کہ اب ان کی دی ہوئی ترتیب ہی مستند قرار پائی ہے۔ڈاکٹر گربخشانی نے شاہ جو رسالو کی تین جلدیں مرتب کرکے شائع کیں لیکن چوتھی جلد ان کی وفات کی وجہ سے اشاعت پذیر نہ ہوسکی، جسے بعد میں مشہور محقق ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ نے مکمل کیا ۔
ڈاکٹر گربخشانی کا دوسرا تحقیقی کارنامہ ’’لواری جا لال‘‘ نامی کتاب کی تالیف ہے۔ یہ کتاب دراصل سوانحی کتاب ہے جس میں ڈاکٹر گربخشانی نے لواری سلسلے کی بعض شخصیات کا تذکرہ کیا ہے۔ ڈاکٹر گربخشانی کی تحقیقی و تنقیدی کتابوں اور مضامین کی فہرست بہت طویل ہے جس کی بنیاد پر ڈاکٹر گربخشانی کو سندھی تنقید کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کی دیگر تصانیف میں نورجہاں، مقدمۂ لطیفی اور روح رھان شامل ہیں۔ انہوں نے سندھی تنقید نگاری کو اپنے اظہار کے لیے ایک خاص زبان اور اسلوب بخشا اور اپنی تخلیقات سے سندھی زبان و ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ڈاکٹر گربخشانی 11 فروری 1947ء میں حیدرآباد، سندھ میں وفات پا گئے۔