• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وبا کے دنوں کا ادبی میلہ
احمد شاہ، افتتاحی اجلاس میں اپنے خیالات کا اظہار کررہے ہیں

یہ بات تو طے شدہ ہے کہ ہماری دُنیا کوورونا سے پہلے جیسی نہیں رہی لیکن کورونا کے بعد کی دُنیا کیسی ہو گی اور زندگی کا ’نیو نارمل‘ کیا ہو گا اُس کی ایک جھلک آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کے زیراہتمام ہونے والی عالمی اُردو کانفرنس میں سامنے آ گئی 3سے 6 دسمبر تک جاری رہنے والی کانفرنس اس لحاظ سے تو کچھ مختلف تھی کہ پچھلی کانفرنسوں میں جہاں بیک وقت ہزاروں افراد کا میلہ لگا رہتا تھا وہاں تیرہویں مکمل احتیاطی تدابیر کے ساتھ سیکڑوں افراد نے شرکت کی اور لاکھوں کی تعداد میں اس کانفرنس کو آن لائن دیکھا گیا۔

کانفرس میں 34 سیشنز ہوئے ،جن میں اردو غزل کا 100 سالہ منظر نامہ ،اردو افسانے نثر کی ایک صدی ،ادب اور سماج میں خواتین کا کردار ،سندھی زبان وادب کے سوبرس اور بچوں کا ادب سمیت اردو کا شاہکا رمزاح ،عالمی مشاعرہ، پشتو ،پنجابی، بلوچی ،سرائیکی ادب کتابوں کی رونمائی اورپاکستان میں فنون کی صورت ِحال پر اظہار خیال کیا گیا ۔اختتامی اجلاس میں قرار داد یں پیش کیں۔

افتتاحی اجلاس سے اختتامی نشست تک جیسے جیسے یہ کانفرنس آگے بڑھتی گئی ،وبائی مرض کورونا کے خوف سے دبتی گھٹتی سانسوں میں بحالی کے آثار پیدا ہونے لگے۔گویا احمد شاہ نے کوروناسے بچائو کی ویکسین تیار کر لی ہو اور گوپی چند نارنگ سے شمیم حنفی تک،پروفیسر سحر انصاری سے افتخار عارف تک اور ضیا محی الدین سے انور مقصود تک سب اس بات کا اعلان کر رہے ہوں کہ وبا کے دنوں میں محبت ہو سکتی ہے تو وبا کے دنوں میں ادبی میلہ کیوں نہیں ہو سکتا؟

کانفرنس میں عنبرین حسیب امبر، ڈاکٹر ہما میراورعظمیٰ الکریم نےچاروں دن صبح سے لے کر شام تک فرنٹ لائن ورکرز کا کردار ادا کیا ۔افتتاحی اجلاس میں بہت سے صاحبانِ علم ودانش اسٹیج پر براجمان تھے اور بہت سے اہل ِ فکر ونظر وڈیو لنک کے ذریعے کانفرنس میں شریک تھے۔ کشور ناہید اس بار کراچی نہ آسکیںجن کی کمی پوری کانفرنس کے دوران محسوس کی جاتی رہی۔زہرا نگاہ نے افتتاحی اجلاس کے دوران کورونا سے پیدا ہونے والی صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے اپنی تازہ نظم سنائی۔

موٹر دھونے والی رانی

گجرے بیچنے والا راجہ

مانگنے والا راج کمار

اپنے گھر میں تینوں خالی بیٹھے ہیں

شہر میں ایک وبا کیا پھوٹی

ان کی قسمت پھوٹ گئی ہے

ان کی حکومت ٹوٹ گئی ہے

پچھلے برسوں کی طرح اس بار بھی صوبائی وزیرثقافت سید سردار شاہ نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے افتتاحی اجلاس میں شرکت کی تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ اردو کانفرنس میںایک وزیر نہیں بلکہ شاعر اور ادیب کے طور پر شریک ہوتے ہیں۔ان کا کہنا تھاکہ سندھ نے کبھی نفرت کی بات نہیں کی۔ سندھ محبت کی سرزمین ہے۔سندھ کے تاریخی مقامات کی کھدائی کے دوران کبھی کوئی بندوق نہیں نکلی ۔ اردو سب زبانوں سے بنی ہے، بھارت چھبیس زبانوں کو قومی زبان قرار دے سکتا ہے تو ہم چار زبانوں کو قومی زبانیں کیوں نہیں قرار دے سکتے؟

وبا کے دنوں کا ادبی میلہ
مہمان خصوصی سردار شاہ، اپنے خیالات کا اظہار کررہے ہیں

یہ پہلا موقع تھا کہ کلیدی مقالات وڈیو لنک کے ذریعے پڑھے گئے ۔گوپی چند نارنگ اور شمیم حنفی انڈیا سے اور یاسمین حمید لاہور سےوڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئیں۔ گوپی چند نارنگ نے کہا کہ انڈیا میں ادب کے لیے ساہتیہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی معاشرے اور اس کی ترقی کے ہیں۔ ان کے خیال میں ادب کے لیے اس سے مناسب لفظ کوئی اور نہیں۔ انہوں نے اُردوزبان کی تعریف میں لکھی گئی اقبال اشعر کی نظم کا حوالہ دیتے ہوئے اس کے ابتدائی مصرعے بھی پڑھے۔

اُردو ہے میرا نام، میں خُسرو کی پہیلی

میں میر کی ہمراز ہوں، غالب کی سہیلی

خطے میں لگ بھگ تین سو زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن شمال سے دکن تک اور بنگلور سے میسور تک اردو ہی بولی جاتی ہے۔ بالی ووڈکی فلموں اور ٹی وی ڈراموں میں  نوے فیصد اردو استعمال ہوتی ہے۔ جبکہ ریختہ ویب سائٹ کے تیس سے پینتیس کروڑ سبسکرائبرز ہیں جس سے اردو کی وسعت اور مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ (گوپی چند نارنگ)

انہوں نے کہا کہ ان کے نزدیک اُردو ایک معمہ ہے۔ خطے میں لگ بھگ تین سو زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن شمال سے دکن تک اور بنگلور سے میسور تک اردو ہی بولی جاتی ہے۔ بالی ووڈکی فلموں اور ٹی وی ڈراموں میں نوے فیصد اردو استعمال ہوتی ہے۔جبکہ ریختہ ویب سائٹ کے تیس سے پینتیس کروڑ سبسکرائبرز ہیں جس سے اردو کی وسعت اور مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کانفرنس کے شرکا اس وقت خوش گوار حیرت میں مبتلا ہوگئے جب نارنگ نے بتایا کہ وہ انیس سو تیس میں بلوچستان میں پیدا ہوئے تھے اور ان کی مادری زبان سرائیکی ہے۔انہوں نے انڈیا میں اردو کو دبانے کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایسی ہر کوشش کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔

شمیم حنفی نے وڈیو لنک کے ذریعے اپنے خطاب میں کہا کہ وبا نے دنیا کو متاثر کیا ہے لیکن ادب ، ثقافت اور فنون عمروں کی قید سے آزاد ہیں۔ماضی کو کسی خانے میں بند کرنا ناانصافی ہو گی۔ تخلیقی لوگ اپنے زمانے کو نظر انداز نہیں کر سکتے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انہیں کسی ایک زمانے میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ان کا کہنا تھا کہ جب وہ عذرا عباس، افضال سید اور ذکیہ مشہدی کو پڑھتے ہیں تو انہیں لگتا ہے کہ ان کا زمانہ آ گیا ہے۔

یاسمین حمید نے ’’ادب ، ادیب اور قاری‘‘ کے عنوان سے اپنا کلیدی مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ بچپن میں ہمیں نہ تو ’’وار اینڈ پیس ‘‘ناول پڑھایا گیا نہ ہی عصمت چغتائی، منٹو،اقبال، فیض اور ناصر کاظمی کو اس نیت سے پڑھایا گیا کہ معاشرے میں ایک صحت مندانہ تبدیلی لانا ہے۔انہوں نے انیس سو انہتر میں شائع ہونے والی کتاب ’’جدید شعرائے اردو‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کتاب کے مصنف نے ن، م، راشد کی شاعری کو مایوسی پر مبنی قرار دیا اور ایک سو بارہ شعرا میں مجید امجد کا نام تک شامل نہیں کیا لیکن آج اگر اقبال کے بعد آنے والے اُردو کے پانچ اہم شاعروں کا تذکرہ کیا جائے تو یہ فہرست ن، م، راشد اور مجید امجد کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔انہوں نے حسن عسکری اور سلیم احمد کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ پچاس کی دہائی میں جب وہ اردو ادب کی وفات اور تنزلی کے دعوے کر رہے تھے عین اسی وقت فیض اور ن، م، راشد کی تخلیقات سامنے آ رہی تھیں ۔میرا جی اپنا کام کر کے چلے گئے تھے۔منٹو حیات تھے جبکہ انتظار حسین اور ناصر کاظمی کی اُٹھان شروع ہو چکی تھی۔

افتتاحی اجلاس کے بعد ایک اہم نشست آصف فرخی کے لیے رکھی گئی تھی جس میں ان کے دوستوں اوران سے محبت کرنے والوں نے آصف کی یادیں تازہ کیں۔زہرا نگاہ نے آصف فرخی کو اردو ادب کا امین قرار دیاجبکہ افتخار عارف نے ملک میں ادبی میلوں کی بنیاد رکھنے والوں میں آصف کو سرفہرست گردانا۔ ان میں تراجم کی بھی بڑی صلاحیت تھی ۔ شمیم حنفی کا کہنا تھا کہ آصف بہترین ادیب کے ساتھ ساتھ زبردست منتظم بھی تھے۔ ان کے جانے سے ادبی فضا سوگوار بھی ہے اور صدمے سے دوچار بھی۔ آصف فرخی کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ کانفرنس میں ایک سیشن’’یادِ رفتگاں‘‘ کے عنوان سے تھا جس میں مسعود مفتی، سرورجاوید، مظہر محمود شیرانی، عنایت علی خان،راحت اندوری اور اطہر شاہ خاں کو یاد کیا گیا۔

پچھلے سال کی طرح اس بار بھی نوجوانوں کا مشاعرہ برپا کیا گیاجس میں تازہ فکراور نئے امکانات سے بھرپور شاعروں نے شرکت کی۔اس کے ساتھ ساتھ کانفرنس کے تینوں دن درجنوں کتابوں کی رونمائی ہوئی اور اُردو کے علاوہ سندھی، پنجابی، پشتو، بلوچی اور سرائیکی زبانوں پر مشتمل سیشن ہوئے۔ان تمام سیشن کو دیکھ کر صوبائی وزیرثقافت سید سردار شاہ کا یہ گلہ جاتا رہا کہ پاکستان کی دیگر زبانوں کو اہمیت نہیں دی جاتی۔

’’پاکستان میں فنون کی صورت حال‘‘ پر گفتگو کرنے والوں میں حسینہ معین، شیما کرمانی، شاہد رسام، امجد شاہ اور بی گل شامل تھے۔ نظامت عظمیٰ الکریم کر رہی تھیں۔ شرکائے گفتگو میں اس بات پر اتفاق رائے دکھائی دیا کہ آرٹ میں شدت مزاحمتی رنگ کے بغیر نہیں آ سکتی۔

کانفرنس میں کشور ناہید کی کتاب ’’دریا کی تشنگی‘‘، مبین مرزا کی کتاب ”ارژنگ“، حمرا خلیق کی کتاب ”کلامِ رابعہ پنہاں“ ، تنویر انجم کی کتاب”نئی زبان کے حروف، کاظم سعید کی کتاب ”دوپاکستان“، مسعود قمر کی کتاب ”بارش بھرا تھیلا“، طاہرہ کاظمی کی کتاب ”کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ“ ، عذرا عباس کی کتاب “اداسی کے گھاؤ “، مظہر عباس کی کتاب ’’اور پھر یوں ہوا‘‘اور شکیل جاذب کی کتاب’’نمی دانم‘‘کی رونمائی ہوئی۔ کشورناہید کی طرح شکیل جاذب بھی خود شریک نہ ہو سکے۔

کانفرنس میں اداکار ہمایوں سعید اور سہیل احمد کے ساتھ گفتگو کے سیشن بھی ہوئے جن میں عزیزی کا پلڑہ باری رہا۔ انہوں نے کراچی کو پاکستان کا چہرہ قرار دیا اور اس شہر سے وابستہ اپنے بچپن کی یادیں تازہ کیں۔اداکاریاسر حسین سے گفتگو کے دوران سہیل احمد نے کہا تخلیق اللہ کی دین ہے۔انہوں نے بتایا کہ وہ پیروڈی کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ اس شو کی کسی کی بیٹی ، بہو یا داماد بھی دیکھ رہے ہوں گے۔ انہوں نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہیں مرشد پاک قرار دیا۔

وبا نے دنیا کو متاثر کیا ہے لیکن ادب ، ثقافت اور فنون عمروں کی قید سے آزاد ہیں۔(شمیم حنفی)

ہر سال کی طرح اس بار بھی عالمی مشاعرہ ہوا۔جس میں بہت سے شاعروں نے وڈیولنک کے ذریعے شرکت کی۔ پروفیسر سحر انصاری کی صدارت میں ہونے والے اس مشاعرے میں افتخار عارف، امجد اسلام امجد، انورمسعود، خوشبیر سنگھ شاد، منظر بھوپالی، عشرت آفرین، حمیدہ شاہین، ثروت زہرہ، شاہدہ حسن اور اشفاق حسین وڈیو لنک کے ذریعے موجود تھے۔جبکہ انورشعور، صابرظفر، فراست رضوی، عباس تابش، میر احمد نوید، اجمل سراج، ریحانہ روحی، محمد یامین، قمررضا شہزاد، خالد معین،رحمٰن فارس اور کاشف حسین غائرمشاعرہ گاہ تمام احتیاطی تدابیر کے ساتھ موجودتھے۔نظامت کے فرائض عنبرین حسیب عنبر نے انجام دیے۔ انور شعور ،اجمل سراج، کاشف حسین غائر، رحمٰن فارس اور عباس تابش نے اپنے ان اشعار پر خود داد سمیٹی۔

ہم نے بنادیا ہے تمہیں ایک شاہکار

اب ہم تمہارے نام سے پہچانے جائیں گے

……(انورشعور)……

ان دنوں خواب کے بارے میں ہے تشویش مجھے

آنکھ کھلتے ہی یہ مہمان کہاں جاتا ہے

……(کاشف حسین غائر)……

فیس بھرنے کے لیے جیب میں پیسے بھی نہ تھے

جن دنوں میرکا دیوان خریدا ہم نے

……(اجمل سراج)……

پھر اُس کے بعد زمانے نے مجھ کو روندھ دیا

میں گر پڑا تھا کسی اور کو اُٹھاتے ہوئے

……(رحمٰن فارس)……

دیکھ کیسے دُھل گئے ہیں گریہ و زاری کے بعد

آسماں بارش کے بعداور میں عزا داری کے بعد

……(عباس تابش)……

کانفرنس میں اُردو ناول، اُردو افسانے، اُردو تنقید، اُردو غزل، اُردو نظم اور نعتیہ و رسائی ادب پر بھی سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ جبکہ صحافت پر ہونے والے سیشن میں معروف صحافیوںسہیل وڑائچ، وسعت اللہ خان، وجاہت مسعود، مظہر عباس اور عاصمہ شیرازی نے تنگی داماں اور چکی کی مشقت کا رونا رویا۔ تاہم سہیل وڑائچ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ’’نہیں ہے ناامید اقبال‘‘ کے مصداق انتہائی پرامید دکھائی دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ صحافت نے تمام تر پابندیوں ، بندشوں اور دیدہ و نادیدہ تعزیروں کے باوجود اپنے آپ کو منوایا ہے اور بیانیہ کوئی بھی ہو ووہ صحافت کے اثر سے باہر نہیں ہوتا۔

کانفرنس میں کشور ناہید کی کتاب ’’دریا کی تشنگی‘‘، مبین مرزا کی کتاب ”ارژنگ“، حمرا خلیق کی کتاب ”کلامِ رابعہ پنہاں“ ، تنویر انجم کی کتاب”نئی زبان کے حروف، کاظم سعید کی کتاب ”دوپاکستان“، مسعود قمر کی کتاب ”بارش بھرا تھیلا“، طاہرہ کاظمی کی کتاب ”کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ“ ، عذرا عباس کی کتاب “اداسی کے گھاؤ “، مظہر عباس کی کتاب ’’اور پھر یوں ہوا‘‘اور شکیل جاذب کی کتاب’’نمی دانم‘‘کی رونمائی ہوئی۔

اختتامی اجلاس میں آرٹس کونسل کے صدر محمد احمد شاہ نے قراردیں پیش کیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ کورونا کی وباءاگر کنٹرول میں آجاتی ہے تواگلے سال مارچ میں قومی ثقافتی کانفرنس منعقد کریں گے جس میں تمام زبانوں اور ثقافتوں کو جمع کیا جائے گا،انہوں نے آئندہ سال2تا5دسمبر 14ویں عالمی اُردو کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان بھی کیا۔ احمد شاہ کا کہنا تھا کہ ہمارا معاشرہ بہت سخی ہے۔ وہ اپنے کام کو اتنا بڑا نہیں سمجھتے لیکن اس کے باوجود ان کی جتنی تعریف اور پذیرائی ہوتی ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر آپ نیک نیتی سے کوئی کام کرتے ہیں تو اس کو سراہنے والے ہر جگہ موجود ہیں۔ انہوں نے ااپنے آپ کو آرٹس کونسل کی گاڑی کا ڈرائیور قرار دیا اور کہا کہ دیکھیں ایک ڈرائیور کو کتنی عزت ملتی ہے۔

کانفرنس میں تہتر برس سےجاری پاکستانی

بےادبی پر بات نہیں ہوئی،انورمقصود

کانفرنس کا اختتام انورمقصود کی گفتگو سے ہوا۔ان کا کہنا تھا کہ احمد شاہ کا نعرہ ہے ’’ہم پرورشِ اہلِ قلم کرتے رہیں گے‘‘۔ یہ ہر سال الیکشن سے پہلے اردو کانفرنس منعقد کرتے ہیں اور الیکشن جیت جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں ادبی کانفرنس اور جانوروں کے تعلق کا ذکر کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ساقی فاروقی زندہ ہوتے تو بتا دیتے کہ ادبی کانفرنس سے جانوروں کا کیا تعلق ہے ۔ہمارا ہاتھی کمبوڈیا چلا گیا ہے اور سنا ہے ہمارے شیر بھی قطر مانگ رہا ہے۔ 

ایک اہم نشست آصف فرخی کے لیے رکھی گئی تھی جس میں ان کے دوستوں اوران سے محبت کرنے والوں نے آصف کی یادیں تازہ کیں۔اس کے ساتھ کانفرنس میں ایک سیشن’’یادِ رفتگاں‘‘ کے عنوان سے تھا جس میں مسعود مفتی، سرورجاوید، مظہر محمود شیرانی، عنایت علی خان،راحت اندوری اور اطہر شاہ خاں کو یاد کیا گیا۔

انہوں نے اپنی ایک رشتہ دار خاتون کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس عمر میں  انہیں شاعری کا جنون سوار ہوگیا۔ کہنے لگیں انور غزل کے پہلے شعر کو کیا کہتے ہیں؟ میں نے کہا اگر مرد غزل کہے تو مطلع اور آپ غزل کہیں تو ’’متلی‘‘۔ کہنے لگیں مجھے آرٹس کونسل کے مشاعرے میں جانا ہے۔ میں نے کہا پہلے اپنی شاعری کشور ناہید کو دکھا دیں اس کے بعد وہ جہاں جانے کا کہیں وہیں چلی جائیں۔ انورمقصود کا کہنا تھا کہ وبا ان لوگوں سے محفوظ ہے۔جتنے لوگ بارہویں کانفرنس میں  آئے تھے وہ آج بھی محفوظ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس کے دوران تمام زبانوں کے ادب پر بات ہوئی ہے لیکن تہتر برس سےجاری پاکستانی بےادبی پر بات نہیں ہوئی۔

تازہ ترین