سیہون پرگنہ میں ایک معروف شہر لکی ہے جسے سادات کا مسکن کہا جاتاہے۔ یہ وہاں کے پہاڑوں میں ایک تنگ سا درہ ہے۔ درہ کو سندھی زبان میں ’’لک‘‘ کہتے ہیں اور چھوٹا ہونے کی وجہ سے یہ ’’لکی‘‘ کہلاتا ہے۔پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع جامشورو میں ایک قدیم شہر ہے، جو سیہون کے جنوب میں 19 کلومیٹر کے فاصلے پر انڈس ہائی وے کے قریب دریا کے کنارے واقع ہے۔ لکی شہر میں صدرالدین شاہ لکیاری کا مزار اور شاہ صدرالدین ریلوے اسٹیشن بھی ہے۔ شہر سے 5 کلومیٹر کے فاصلے پر لکی پہاڑوں میں گرم اور سرد پانی کے قدرتی چشمےہیں۔ان چشموں کے قریب ایک مسجد اورہندوؤں کے دو مندر ہیں۔ مقامی لوگوں کی روایت کے مطابق ،گرم چشموں کے پانی میں نہانے سے جلدی بیماریاں ختم ہو جاتی ہے۔ اس شہر میں ایک ہائی اسکول بھی ہے۔ مزار اور ریلوے لائن کے مغرب میںقدیم قبرستان واقع ہےجس میں بنے مقابر کی دیواروں پر نقش نگاری کی گئی ہے۔
نامور محقق پیر علی محمد راشدی اپنی کتاب’ ’اوہے ڈیہن اوہے شیہن ‘‘میں لکھتے ہیں کہ ’قدیم زمانے میں یہ علاقہ لکیاری سادات کا گڑھ تھا، جہاں سید علی مکی کی اولاد نے بسیرا کیا، مگر پھر یہ جگہ ہندوؤں کا تیرتھ بن گئی اور ریلوے سٹیشن کا نام’’ تیرتھ لکی‘‘ رکھا گیا، جو پاکستان بننے کے بعد لکی شاہ صدر میں تبدیل ہو گیا۔ لکی شہر اور اسٹیشن کے سامنے پہاڑوں میں گرم پانی کا چشمہ ہندوؤں کے پاس تھاجہاں انہوں نے ایک مندر بھی تعمیر کروایا تھا، یہاں جلد کی امراض میں مبتلا مریض نہانے آتے تھے۔
اس کے علاوہ دنیا جہاں کے فقیر، سنیاسی، اور جوگی یہاں ٹھکانا بنا کر قیام کرتے تھے۔ مسافروں کی آمدو رفت کی وجہ سے لکی اسٹیشن کے بالکل سامنے ایک دھرم شالا بھی بنی ہوئی تھی جہاں آرام کرنے کے بعد، مسافر لکی شاہ کا سفر کرتے تھے۔پرفضا مقام ، پرسکون ماحول اور پانی کے چشموں کی روانی کی وجہ سے یہاں اس علاقے میںبدھ راہبوں کا بہت بڑا مرکزبن گیا تھا۔ اس شہر کا نام مختلف زمانوں میں تبدیل ہوتا رہا ہے۔
جن میں سے ایک نام’ ’دھارا تیرتھ‘ ‘‘بھی رہا ہے، یہاں کے چشموں کا پانی ایک دھارا (بہاؤ) کی شکل میں تھا، اس لیے اسے دھارا تیرتھ بھی کہا جاتا ہے۔ چشموں کا پانی ایک لمبے دھارے کی شکل میں اونچائی سے بہہ کر نیچے زمین پر آتا ہے، یہ پانی لکی پہاڑ سے نکل کر آتا ہے جوکہ تنگ راستوں سے ہوکر گزرتا ہے۔اس مقام پر شیو دیوتا کا لگنے والا میلہ ایک اہم ترین تہوار تھا۔چند دہائیوں قبل یہاں ہندوؤں کا اہم ترین تہوار’’ شوراتری‘‘ بھی منایا جاتا تھا، جس میں بڑی تعداد میں لوگ شرکت کرنے آتے تھے۔سندھ میں پہاڑوں کا یہ سلسلہ کھیرتھر پہاڑی سلسلے کے نام سے جانا جاتا ہے جو کہ کراچی سے شروع ہو کر مشرق کی جانب سے ہوتا ہوا یہاں تک آتا ہے۔ یہ سندھ کے اہم ترین پہاڑی سلسلوں میں سے ایک ہے۔
آج بھی یہاں مندر قائم ہے جہاں ہندو پوجا کرنے آتے ہیں اور وہ غار بھی موجود ہے جہاں عورتیں منت مانگنے جاتی ہیں۔ لیکن یہ منظر آنکھوں کو اس لیے بھی موہ لیتا ہے کیونکہ یہاں سنگلاخ پہاڑوں کے بیچ میں ’’گندرف‘‘ والے چشموں کا رنگین پانی موجود ہے جس کے بہاؤ کی آواز کو پہاڑ کی مکمل خاموشی میں بخوبی سنا جا سکتا ہے۔ یہ جگہ درحقیقت ہندوؤں کے لیے ایک مقدس مقام رہی ہے اور آج بھی اسے وہی مرتبہ حاصل ہے۔لیکن اسےوہ عروج حاصل نہیں ہے۔ آج بھی یہاں اسی طرح کے میلے سجتے ہیں لیکن ان میں ماضی کی طرح رونق نہیں ہوتی ۔