میں گزشتہ 10سال سے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ (NIM) کراچی میں سرکاری سینئر مینجمنٹ افسران کو ملکی معیشت اور صنعت و تجارت پر پریذنٹیشن دے رہا ہوں جو 20ویں گریڈ میں ترقی پانے والے افسران کے کورس کا حصہ ہوتی ہے۔ اِس بار بھی 30ویں مڈ کیریئر مینجمنٹ کورس کو صنعتوں سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی آلودگی اور اُس کے منفی اثرات جبکہ 28ویں سینئر مینجمنٹ کورس کو پاکستان میں بڑے درجے کی صنعتوں کی ترقی پر 2گھنٹے پریذنٹیشن دیں۔ میں نے اپنی پریذنٹیشن میں بتایا کہ قیامِ پاکستان کے بعد بابائے قوم نے پاکستان کو ایک زرعی اور صنعتی ملک بنانے کا خواب دیکھا تھا۔ اکتوبر 1947میں قائداعظم نے کراچی میں سائٹ کے صنعتی علاقے میں پاکستان کی پہلی صنعت ولیکا ٹیکسٹائل مل کا افتتاح کیا جہاں سے صنعتی ترقی کا سفر شروع ہوا اور پاکستان کا شمار دنیا کے بڑے اور نامور ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز میں ہونے لگا۔ دنیا کے تمام بڑے ٹیکسٹائل برانڈز پاکستان میں تیار کئے جاتے ہیں لیکن کوئی بھی صنعتی پالیسی اُس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک مقابلاتی نرخوں پر بجلی اور گیس کی بلاتعطل فراہمی، جدید صنعتی انفرااسٹرکچر اور مواصلاتی نیٹ ورک، ہنرمند، تجربہ کار ورکرز، جدید بینکنگ، دوستانہ ٹیکس نظام نہ پایا جاتا ہو۔
ملک میں گزشتہ سال آٹوموبائلز کی پروڈکشن 96,455یونٹس تھی جس میں سوزوکی کار کی سیل سب سے زیادہ 30106یونٹس تھی جس کے بعد ٹویوٹا کرولا 20140اور اس کے بعد ہنڈا اور دیگر ماڈل کی 44209آٹو موبائلز تھیں۔ اب پاکستان دنیا میں موٹر سائیکل بنانے والا پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے اور سالانہ 1.8ملین موٹر سائیکلیں تیار کررہا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں پاکستان کی سیمنٹ انڈسٹری نے نہایت تیزی سے ترقی کی ہے۔ ملک میں اِس وقت سیمنٹ کی 50سے زائد چھوٹی بڑی صنعتیں قائم ہیں اور سیمنٹ کی ایکسپورٹ میں گزشتہ 10سال میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت پاکستان، انڈیا، افغانستان، عرب امارات، عراق، روس اور وسط ایشیائی ممالک کو 4.5 میٹرک ٹن سیمنٹ ایکسپورٹ کرکے دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن گیا ہے۔ پاکستان کا تیسرا بڑا سیکٹر انرجی ہے جس میں تیل، بجلی اور گیس کی پیداواری صنعتیں شامل ہیں جس کے بعد فرٹیلائزر سیکٹر آتا ہے۔ ملک میں اس وقت 10فرٹیلائزر پلانٹس کام کررہے ہیں جو 8ملین ٹن فرٹیلائزر پیدا کررہے ہیں۔ گزشتہ سال فرٹیلائزر سیکٹر کی مجموعی پیداوار 9ملین ٹن تک پہنچ گئی تھی۔کسی بھی ملک میں اسٹیل کی صنعت ملکی صنعتی ترقی میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دنیا کی اسٹیل کی مجموعی 1870ملین ٹن پیداوار میں صرف چین کی 996ملین ٹن، بھارت 111ملین ٹن، جاپان 99ملین ٹن، امریکہ 87ملین ٹن، روس 72ملین ٹن، کوریا 71ملین ٹن اور بدقسمتی سے پاکستان جس کی واحد اسٹیل مل بھی بند ہوگئی۔ ملک کی دیگر صنعتوں کی طرح کیمیکل سیکٹر بھی صنعتی ترقی میں اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان کا کیمیکل سیکٹر اس وقت کاسٹک سوڈا، سلفر ایسڈ، کلورین گیس، سوڈا ایش اور دیگر کیمیکلز تیار کررہا ہے لیکن یہ ناکافی ہے جس کے باعث ہمیں بڑی مقدار میں ڈائز اور کیمیکلز امپورٹ کرنا پڑتے ہیں۔ پاکستان کے انجینئرنگ سیکٹر میں 6 ہیوی انجینئرنگ انڈسٹریز پبلک سیکٹر میں قائم ہیں جن میں اسٹیل ملز، پاکستان مشین ٹول فیکٹری، کراچی شپ یارڈ، ہیوی مکینیکل کمپلیکس، ہیوی فائونڈری پروجیکٹ ٹیکسلا اور پاکستان آرڈیننس فیکٹری واہ شامل ہیں۔
1958سے 1969تک جنرل ایوب کے دور میں پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن نے ملک کی صنعتی ترقی میں اہم کردار ادا کیا جبکہ پرائیویٹ سیکٹر کو صنعتیں لگانے کیلئے نیشنل ڈویلپمنٹ فنانس کارپوریشن، بینکرز ایکویٹی، انڈسٹریل ڈویلپمنٹ بینک جیسے ڈویلپمنٹ فنانشل انسٹی ٹیوشنز قائم کئے گئے جنہوں نے ملکی صنعتی ترقی میں اہم کردار ادا کیا لیکن بعد کی حکومتوں نے ان اداروں کو سیاسی بنیادوں پر قرضے اور ملازمتیں دینے کیلئے استعمال کرکے بینک کرپٹ کردیا اور یہ تمام ادارے جو ملک میں نئی صنعتوں کے قیام میں اہم کردار ادا کررہے تھے، بند ہو گئے۔ آج ملکی معیشت میں سروس سیکٹر کا 62فیصد، زراعت کا 19فیصد اور مینوفیکچرنگ سیکٹر کا حصہ صرف 19فیصد ہے جو پاکستان کے آہستہ آہستہ ٹریڈنگ اسٹیٹ بننے کی نشاندہی کرتا ہے نہ کہ بابائے قوم کے زرعی اور صنعتی پاکستان کا خواب۔