کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو نیوز کی خصوصی ٹرانسمیشن میں شاہزیب خانزادہ سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کہا کہ آرمی چیف نے اس اقدام کے ذریعے پیغام دیا کہ کوئی مقدس ادارے نہیں ہیں کیوں کہ لوگوں میں تاثر تھا کہ ملک میں کچھ مقدس ادارے ہیں جن کیخلاف کارروائی نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ اگر سیاسی عزم ہو اور قیادت میں کام کرنے کی لگن ہو تو کرپشن کیخلاف اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں جیسا کہ آج پاکستان آرمی کی لیڈرشپ نے مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آرمی چیف کا موقف یہ ہے کہ اگر ہم نے ضرب عضب کے اہداف حاصل کرنے ہیں اور دہشتگردی کا مقابلہ کرنا ہے تو دہشتگردوں کی مالی معاونت اور کرپشن کو جڑ سے ختم کرنا ہوگا ۔ آرمی چیف نے پہلے یہ موقف اختیار کیا اور پھر اس حوالے سے اقدامات کیے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں نیب، اینٹی کرپشن ڈپارٹمنٹ سب موجود ہیں لیکن ان کی کارکردگی صفر ہے۔ انہوں نے کہا کہ کہ لوگ بہت بڑی رقم ہضم کرکے ملک سے باہر چلے گئے،پہلے ضمانت ہوتی ہے، پھر ECLسے نام نکلتا ہے اور پھر باہر چلے جاتے ہیں اور پھر واپس آنے کا نام نہیں لیتے ۔انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے بھی آرمی چیف کے اس اقدام کو اچھا قرار دیا اور کہا کہ فوج میں احتساب کا عمل پہلے ہی موجود ہے، لفیٹیننٹ جنرل کی سطح کے فوجی افسر کو ڈس مس کرنا ایک بڑا فیصلہ ہے، تاہم فوج میں احتساب کا عمل ہمیشہ سے جاری رہتا ہے اس بار ایسا ہوا ہے کہ یہ میڈیا کے سامنے آیا ہے اور ملک میں جاری پاناما لیکس کے بحث کی وجہ سے اس کے دوسرے معنی نکالے جارہے ہیں اور اس اقدام کے ٹائمنگ پر بھی باتیں ہورہی ہیں تاہم یہ اچھا فیصلہ ہے۔ قمر زمان کائرہ نے کہا کہ جمہوری حکومتوں پر معاشرے کا دبائو اور اداروں کا دبائو بہت زیادہ ہوتا ہے جو اس کے رخ کا تعین کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کرپشن کے خاتمے کیلئے ہر طرح کا تعاون کرنے کو تیار ہیں،حکومت آگے بڑھے، ہم تعاون کرنے کیلئے تیار ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پی آئی اے کے معاملے پر بھی بہت اختلافات تھے،کمیٹی بنی، سب لوگ بیٹھے، آپس میں اس کا راستہ نکالا اور اتفاق رائے سے قانون سازی ہوگئی۔قمر زمان قائرہ نے کہا کہ فوجی افسران کو ہٹانے کا جو فیصلہ آج ہوا وہ یہ کیس پچھلے 2سال سے چل رہا تھا اس کا اعلان آج ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کو چاہیے کہ جو کمیشن تشکیل دینا ہے اس پر وہ اپوزیشن کی بات سنیں اور اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کریں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آپ نے دیکھا اور آپ کے علم میں ہے کہ ہمارے اداروں نے اور بہت سے لوگوں نے حسین حقانی صاحب کے جو کچھ مضامین چھپے اور جو کچھ وہ کہتے رہے ہیں اپنی Talksمیں اس پر بہت سے لوگوں پر اعتراضات تھے اور ہیں۔شاہ زیب: حقانی صاحب کا اس حکومت سے کیا تعلق ؟ محمود قریشی : اس حکومت سے تعلق نہیں ہے ، ایک institutionکو ٹار گٹ کیا جارہا ہے و ہ institiution اس وقت ایک نیشنل سیکیورٹی کے لیے ایک اہم کردار ادا کررہا ہے ، آج اگر دہشت گردی کی جنگ ہم لڑرہے ہیں تو گولی شاہ زیب آپ اور میں سینے پر نہیں کھا رہے، فرنٹ پر وہ فوجی جوان ہے جو سینے پر گولی کھا رہا ہے ۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ موجودہ حکومت کو اس بات کا خدشہ ہے کہیں ان پر وار نہ ہوجائے، انہیں جتنا بھی اعتماد دلانے کی کوشش کی گئی ان کو شک رہتا ہی ہے اور ابھی مجھے یہ لگتا ہے کہ اعتماد کا فقدان ہے،انہیں اتنا بڑا مینڈیٹ ہونے کے باوجود شک رہتا ہے کہ ان کی کوئی ٹانگ نہ کھینچ لے جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ آج ملک میں تقریباً ایک اتفاق رائے بن چکا ہے کہ ہمارا راستہ جمہوریت کا راستہ ہے اور اس سے بہتر کوئی راستہ نہیں۔ قمر زمان کائرہ نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ پاکستانی وزیر اعظم کے بھارتی وزیر اعظم سے ذاتی تعلقات ہیں یا نہیں، پرائم منسٹر کے پرائم منسٹر سے تعلقات ہوتے ہیں ہمارے دور میں بھی ہم گئے اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم نے ہمیں بھی بڑا اچھا recieveکیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ جہاں تک تعلق فوج کو بدنام کرنے کا ہے یہ تاثر غلط ہے، ہم کہہ سکتے ہیں کہ حکومت وقت کو جس طرح رد عمل دینا چاہیے تھا جس زور سے یہ معاملہ اٹھانا چاہیے تھا اس طرح نہیں اٹھایا گیا شاہد لطیف نے کہا کہ کچھ لوگوں نے جان بوجھ کر فوج کے بارے میں غلط فہمی پھیلارکھی ہے کہ جی باقی سب لوگوں کاتواحتساب ہوتاہے سیاست دانوں کاہوتاہے توجی بیوروکریٹس کاہوتاہے توباقی لوگوں کاہوتاہے اورججوں کابھی ہوتاہے تو یہ کیا وجہ ہے کہ آج تک فوجیوں کااحتساب نہیں ہوا۔یہ ایک غلط تاثر ہے، فوج کے اندر احتساب کاعمل جو ہے وہ ہمیشہ سے ہے اوریہ بات ایک علیحدہ ہے کہ اس کو منظر عام پر نہیں لایا جاتا۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عمران خان صاحب یہ کہنے کی کوشش کررہے ہیں کہ اینٹی کرپشن ایجنڈا ان کی اولین ترجیح تھی، یہ سالہاسال سے باتیں کررہے تھے لوگ توجہ نہیں دے رہے تھے، اب حالات و واقعات نے جو کروٹ لی ہے تو ان کے بہت سے جوخد شا ت تھے جو بہت سی ان کی باتیں تھیں و ہ صحیح ثابت ہورہی ہیں لوگ دیکھ رہے ہیں اورآج قوم میں کرپشن کے خلاف بالکل بیزاری کاعالم پیداہوچکا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ آج ہمارے ملک میں غربت ہے اگر ہمارے ملک میں ترقی میں رکاوٹ ہے سرمایہ کاری نہیں ہورہی تو اس کی ایک بڑی وجہ کرپٹ عناصر ہیں جس نے غلبہ کیا ہوا ہے، جوبر سراقتدار ہے اورجب تک ان سے چھٹکارا نہیں ملے گاقوم آگے نہیں بڑھ پائے گی۔ قمرزمان کائرہ نے کہا کہ پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی نے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ اپنا مشاورتی عمل مکمل کرلیاہے اورمیراخیال ہے کہ اگلے دنوں میں ایک جوائنٹ میٹنگ بھی ہوجانی چاہئے۔ پی ٹی آئی اورہمار ی لیڈرشپ اسمبلی کے اندر جولوگ ہیں ان کی ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں اور حکومت کوفائنل ڈیڈلائن ہی دی جارہی ہے کہ اب اگر وہ راستہ اختیارنہیں کرتے جس کی ڈیمانڈ اپوزیشن کررہی ہے تو پھراگلالائحہ عمل ہم آپس میں مل کر طے کریںگے اور اگر احتجاجی عمل میں جانا پڑاتوبھی اکٹھے جانا پڑے گا میراخیال ہے کہ آئندہ چند دنوں کے اندر یہ اپوزیشن کی میٹنگ ایک طرح کی ہوجانی چاہئے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جیسے کہ پہلے بات ہورہی تھی جب آپ ایک معیار سیٹ کریں گے تو سب پر اس کا یکساں اطلاق ہوگا یہ نہیں ہوسکتا کہ پی ٹی آئی کیلئے ایک معیار اور کسی اور کے لئے دوسرا معیار اپنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ عموماً جو آف شور کمپنی بنائی جاتی ہے وہ Basically concealment کی اور ایک اپنی جو Identity ہوتی ہے اس کو conceal کرنے کے لیے بنائی جاتی ہے علیم خان کی تفصیلات میرے سامنے نہیں ہیں لیکن جو انہوں نے کہا ہے انہوں نے کہا کہ میں نے ان کا ذکر کیا ہوا ہے الیکن کمیشن کے اپنے Assets and liabilityمیں اور میں نے ذکر کیا ہوا ہے ایف بی آر کے سامنے اب اس کی تحقیق کرلیں خان صاحب نے کہاں کہا ہے کہ ان کو رعایت دے دی جائے جہاں اگر حکومت سمجھتی ہے کہ ان کا احتساب ہونا چاہیے تو حکومت کو کس نے روکا ہے۔خواجہ محمد آصف نے کہا کہ جو شخص انصاف مانگتا ہے اس کے ہاتھ ضرور صاف ہونے چاہیے تو اگر میں انصاف مانگنے جاتا ہوں میں کسی کو قصوروار ٹہراتا ہوں تو اس جرم کا مجھے خود قصور وار نہیں ہونا چاہیے اگر میں کہتا ہوں تو میاں نواز شریف کے بچوں نے آف شور کمپنیاں بنائی ہوئی ہیں اور وہ Explain کریں بالکل ٹھیک ہے حق بنتا ہے لیکن خود خیرات کا پیسہ شوگر لینڈ میں اور فلانے لینڈ میں آف شور کمپنیوں میں Invest کرتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ میں پھر حکومت کو دعوت دیتا ہوں ، خواجہ صاحب کی خدمت میں گزارش کروں گا ، کہ فی الفور وہ اجلاس بلائیں ، قومی اسمبلی کا اجلاس بلائیں ، اور اس میں پاناما لیکس کے بعد کی صورتحال کو ڈسکس کریں ، اور حکومت اپنی حکمت عملی پارلیمنٹ کے سامنے رکھے کہ یہ واقعہ رونما ہوا اب قوم کی یہ توقعات ہیں ، اور ہم یہ اقدامات اُٹھانے جارہے ہیں ، اپوزیشن کو اعتماد میں لیں ، اگر کمیشن بنانا ہے تو ان کی مشاورت سے بنائے ، اگر ٹی او آر بنانے ہیں تو ان کی مشاورت سے بنائیں ، اور اگر وہ قوانین میں اصلاحات لانا چاہتے ہیں کوئی ترمیم کرنا چاہتے ہیں ، تو ہم سے تعاون مانگیں ، ہم ان سے تعاون کریں گے ، تاکہ احتساب کا عمل آگے بڑھے ، وہ نیب کو بلائیں اور پوچھیں کہ یہ قومی ادارہ ہے ، ٹیکس دینے والوں کے پیسے پر چل رہا ہے۔ ، اس کی کارکردگی کیا ہے ،ا ور اگر کارکردگی نہیں ہے ، تو اس کی وجوہات کیا ہیں ، ان کے راستے میں رکاوٹ کیا ہے، ان کی کوئی جائز مشکلات ہیں تو جائز مشکلات دور کریں ، یہ شروعات حکومت کرے اور ہم سے توقع کرے ، ہم ان سے تعاون کریں گے۔ شاہ محمود قریشی کاکہناتھاکہ جب آپ ایک معیار سیٹ کریں گے تو سب پربلاتفریق اطلاق ہو گا یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک معیار ہم بنائیں پی ٹی آئی کے لیے ایک معیارہے کسی اور کے لیے دوسرامعیارہے اور نا ہی ان کا یہ ارادہ تھا ۔انہوںنے زور دیتے ہوئے کہا کہ نہیں نہیں ! کوئی معیار نہیں ہے انہوں نے یہ کہا کہ عموماً جو آف شور کمپنی بنائی جاتی ہے وہ Basically concealment کی اور ایک اپنی جو Identity ہوتی ہے اس کو چھپانےکے لیے بنائی جاتی ہے ،علیم خان کی تفصیلات میرے سامنے نہیں ہیں لیکن انہوں نے کہا کہ میں نے ان کا ذکر الیکن کمیشن کے اپنے اثاثوں اورواجبات میں کیا ہوا ہے اور میں نے ذکر کیا ہوا ہے ایف بی آر کے سامنے اب اس کی تحقیق کرلیں، خان صاحب نے کہاں کہا ہے کہ ان کو رعایت دے دی جائے جہاں اگر حکومت سمجھتی ہے کہ ان کا احتساب ہونا چاہیے تو حکومت کو کس نے روکا ہے ،میں پھر حکومت کو دعوت دیتا ہوں ، خواجہ صاحب کی خدمت میں گزارش کروں گا ، کہ فی الفور وہ قومی اسمبلی کا بلائیں، اس میں پاناما لیکس کے بعد کی صورتحال پربحث کریں ، اور حکومت اپنی حکمت عملی پار لیمنٹ کے سامنے رکھے کہ یہ واقعہ رونما ہوا اب قوم کی یہ توقعات ہیں ، اور ہم یہ اقدامات اُٹھانے جارہے ہیں ۔