• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیز الحمد للہ انتخابی ذمہ داریوں سے گزر گیا۔ حسب روایت دھاندلیوں کے الزامات عائد کئے جار ہے ہیں۔ گو کہ پورے ملک میں ووٹوں کا ٹرن آؤٹ 60فیصد رہا جو ایک اچھی علامت ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک کی خاموش اکثریت ملک میں تبدیلی کے لئے متحرک تھی۔ اس تناظر میں دھاندلی کے الزامات کا تذکرہ اور تجزیہ مختلف ٹیلیویژن اینکر پرسنز اور سیاسی تجزیہ نگار اپنے پروگراموں میں اپنے اپنے انداز میں کرتے رہے۔ مخصوص نظریات کے حامل قلم کاروں اور ٹی وی اینکرز نے کراچی کی پولنگ کو ہدفِ تنقید بنایا اور مبینہ طور پر دھاندلیوں کا الزام عائد کیا۔
یہ وہی اینکرپرسن یا تجزیہ نگار ہیں جو ملک میں قانون اور آئین کی بالادستی کی باتیں کرتے ہیں لیکن جب انتخابی دھاندلی کے الزام کا تجزیہ کرنے کی بات آئی تو وہ تو آئینی اور قانونی تقاضوں کو پس پشت ڈال کر اپنی خواہشات کا اظہار کرتے نظر آئے اور انہوں نے کراچی میں دوبارہ پولنگ کا مطالبہ کر ڈالا اور اس کیلئے ماحول کو ہموار کرنے کی مذموم کوشش کی۔ انتخابی دھاندلی کے الزامات آنے کے بعد آئین اور قانون کس طرح سے حرکت میں آتا ہے، اس کا طریقہ کار بھی دستورِ پاکستان میں درج ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان انتخابی عذر داریوں کی سماعت کے لئے ٹریبونل قائم کرتا ہے اور دھاندلیوں کے الزامات کے شواہد اور ثبوت کی بنیاد پر سماعت کرتا ہے۔ فریقین کے موٴقف کو سننے کے بعد ہی وہ ری پولنگ یا دوبارہ گنتی کا حکم صادر کرتا ہے، اس کیلئے ذرائع ابلاغ کا استعمال موزوں نہیں۔ اگر کسی انتخابی حلقے میں پولنگ تاخیر سے شروع ہوئی یا انتخابی عملہ وقت پر نہ پہنچ سکا اور مبینہ طور پر کسی امیدوار کے ٹیلی فون کے باوجود Rapid Response Force جسے پانچ منٹ میں آنا تھا اور وہ پانچ گھنٹے تک نہ آئی تو اس کی ذمہ داری کسی بھی سیاسی تنظیم پر عائد نہیں کی جا سکتی۔
پولنگ میں اس تاخیر سے تمام سیاسی جماعتوں کا یکساں نقصان ہوا ہے۔ برصغیر کی سیاست پر اگر نظر ڈالی جائے تو انتخابی عمل کے دوران کچھ گڑ بڑ ہوتی ہے جو عموماً پانچ سے دس فیصد کے درمیان ہوتی ہے جسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے البتہ اگر کہیں سیاسی نظریئے کے حامل کارکنوں نے جذباتی ہو کر کوئی گڑ بڑ کی ہے تو وہاں ری پولنگ ہو سکتی ہے لیکن اس کے لئے بھی دستورِ پاکستان طریقہ کار وضع کرتا ہے جس کے لئے کسی کی خواہش کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ پورے ملک میں درجنوں حلقے ایسے ہیں جہاں دو لاکھ سے زائد ووٹ کاسٹ کئے گئے ہیں۔ اسی طرح کراچی میں بھی پولنگ ٹرن آؤٹ زیادہ رہا اور وہ امیدوار زیادہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ بعض ٹیلیویژن چینلوں پر موبائل سے بنائی ہوئی ویڈیوز بھی چلائی جا رہی ہیں جو مبینہ طور پر دھاندلیوں کی نشاندہی کرتی ہیں۔ ان ویڈیوز کو شواہد کے طور پر ٹریبونل میں پیش کیا جائے جہاں پر اس کا جائزہ لیا جانا چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس امر کا بھی جائزہ لیا جائے اور الیکشن کمیشن، قانون نافذ کرنے والے اداروں سے جواب طلب کیا جائے کہ پابندی کے باوجود پولنگ بوتھ میں موبائل کیسے پہنچا؟ آیا کہیں یہ کسی کے خلاف سازش تو نہیں تھی کہ ڈرامہ رچا کر موبائل سے اس کو فلمبند کیا گیا؟ پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے حالیہ انتخابات پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مجموعی طور پر انہیں درست قرار دیا ہے ۔ جو جماعت کراچی کے مخصوص حلقے میں ری پولنگ اور اس کے حامی تجزیہ نگار پورے کراچی میں ری پولنگ کا مطالبہ کر رہے ہیں، اس جماعت کے رہنما نے اسپتال سے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں قوم کو نہ صرف مبارکباد دی بلکہ یہ عندیہ بھی دیا کہ وہ ملک میں ہونے والی انتخابی دھاندلیوں پر مشتمل قرطاسِ ابیض جاری کریں گے اور اس کا مقصد صرف اور صرف غلطیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی ہو گا۔ باالفاظِ دیگر انہوں نے بھی مجموعی طور پر انتخابی نتائج کو تسلیم کیا ہے اور اسے خوشگوار تبدیلی سے تعبیر کیا ہے کیونکہ ان انتخابات میں ٹرن آؤٹ ماضی کے تمام انتخابات سے بہت زیادہ رہا ہے۔ ملک کے ان تجزیہ نگاروں نے جو چیف الیکشن کمشنر کو فخرو بھائی کہتے نہ تھکتے تھے، ان سے استعفے کا مطالبہ کر دیا جبکہ کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے نہیں آیا۔
یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ ذرائع ابلاغ بلاشبہ خرابیوں او ر اچھائیوں کی نشاندہی کرتے ہیں لیکن خدائی فوجدار بن کر فیصلے صادر نہیں کرنے چاہئیں۔ برصغیر سمیت پوری دنیا کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ انتخابی عمل کے دوران جذباتی مراحل بھی آجاتے ہیں اور کارکنان حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں لیکن یہ کسی بھی سیاسی جماعت کی پالیسی نہیں کہی جا سکتی۔ اگر کسی کے خیال میں کوئی ایسا واقعہ رونما ہوا ہے کہ پولنگ اسٹیشن پر قبضہ کر لیا گیا ہے تو اس کی پہلی ذمہ داری الیکشن کمیشن اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بنتی ہے۔ اگر وہ مناسب طریقے سے کارروائی نہیں کر سکتے تو اس کے لئے عدالتی چارہ جوئی کا راستہ کھلا ہوا ہے۔ انتخابی ٹریبونل بھی قائم ہو چکے ہیں۔ عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کے دروازے سب کے لئے کھلے ہیں لیکن صرف الزامات کی وجہ سے دوبارہ پولنگ ہو، کی نظیر پوری دنیا کی انتخابی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ سڑکوں پر مظاہرے اس وقت کئے جاتے ہیں جب تمام راستے مسدود ہو جائیں۔ ملک جس نازک صورتحال سے گزر رہا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ انتخابات کے نتائج میں موجود خرابیوں اور خامیوں کے سدباب کے لئے آئین اور قانون کا راستہ اختیار کیا جائے اور یہ فیصلہ سیاسی جماعتوں کو کرنا چاہئے۔ تجزیہ نگار اور ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے افراد سوالات کر سکتے ہیں لیکن اپنے فیصلے کسی پر مسلط نہیں کر سکتے لہٰذا قلم کار اور اینکر پرسنز اپنے تبصروں کا اظہار کرنے سے قبل اپنے اس موٴقف پر قائم رہیں جو وہ انتخابات کے انعقاد، نگراں حکومتوں کے قیام اور دیگر معاملات پر اختیار کرتے رہے ہیں۔ ملک میں قانون کی بالادستی، آئین کی حکمرانی اور اداروں کا احترام قائم کیا جائے، اس سے ہٹ کر کیا جانے والا کوئی بھی مطالبہ یا اقدام اسی طرح غیر آئینی سمجھا جائے گا جس طرح ماضی میں فوجی اور سول آمروں نے کیا لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے جذبات، اپنی سیاسی وابستگی اور اپنی محبت کو اپنے تک محدود رکھیں دوسروں پر منطبق کرنے کی کوشش نہ کریں۔ صرف اور صرف پاکستان میں آئین اور قانون کی بالادستی اور حکمرانی ہوگی۔ عوام کے فیصلے یا تو پارلیمینٹ میں ہوں گے یا پھر اعلیٰ عدالتوں میں۔ پرویز مشرف ہوں یا کوئی ذرائع ابلاغ کا نمائندہ، اب اس کی ذاتی خواہش کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں ہو گا۔ عوامی طاقت کا مظاہرہ اگر سیاسی جماعتوں کو کرنا ہے تو شوق سے کریں لیکن فیصلے عدالتوں کو کرنے ہیں۔
تازہ ترین