• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

مذاکرات سے ’’جمہوری گاڑی‘‘ فراٹے بھر سکتی ہے؟

نئے سال کی آمد آمد ہے ایک طرف تو پوری دنیا کورونا وائرس کے وبائی عفریت کے ساتھ نئے سال کا استقبال خدشات ، خوف اور اندیشوں کے ساتھ کریگی تو دوسری طرف ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک جن کی معیشت پر اس وبا کے براہ راست اثرات وہاں کے عوام کو بدحالی اور تنگدستی کی سطح پر لے آئے ہیں وہ اپنے ہی نہیں بلکہ مستقبل قریب میں آنے والی نسلوں کے بارے میں بھی فکرمند ہیں۔ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ اس صورتحال میں بھی وطن عزیز میں داخلی سطح پر سیاسی بے یقینی اور اضطراب پورے عروج پر ہے اور حالات اس امر کی غمازی کر رہے ہیں کہ قوم کورونا وبا کے ساتھ ساتھ ان حالات کی ’’سیاسی وبا‘‘ میں ہی نئے سال میں داخل ہوگی۔ 

لیکن اگر جمہوریت کی گاری کو آگے چلانا ہے تو سب کو مذاکرات کی ایک میز پر آنا ہوگا۔ ’’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘‘ کی شکل میں اپوزیشن کی جماعتوں نے اجتماعی استعفے دینے کا اعلان کر دیا ہے اور اس کیلئے تاریخ کا بھی تعین لیکن اس حوالے سے کوئی مستحکم اور حتمی طور پر قابل اعتماد منصوبہ بندی کا فقدان اس لیے دکھائی دیتا ہے کہ اس ضمن میں ابتدا سے ہی پاکستان پیپلز پارٹی کے حوالے سے پی۔ڈی۔ایم کے بعض راہنما ان خدشات کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ چونکہ سندھ میں پی پی پی کی حکومت قائم ہے اس لیے وہ استعفے دینے کا رسک بہت سوچ سمجھ کر اور اپوزیشن کی قوت دیکھ کریں گے اور اب بھی وہی صورتحال ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے حلقوں کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ قومی اسمبلی سے استعفے دے دیئے جائیں لیکن سندھ اسمبلی کو پیپلزپارٹی کبھی استعفوں کی نذر نہیں کریگی کیونکہ وہاں پارٹی کی حکومت ختم ہونے کے ’’مضمرات‘‘ قیادت خوب سمجھتی ہے۔ یقیناً پیپلز پارٹی کے پیش نظر یہ حقیقت بھی ہوگی کہ ماضی میں ایم کیو ایم ، پیپلز پارٹی اور جس جماعت نے بھی اسمبلیوں سے استعفے دیئے انھیں بعد میں پچھتانا پڑا۔ 

پی۔ڈی۔ایم نے وزیراعظم عمران خان کو 31 جنوری تک از خود مستعفی ہونے کا نوٹس دیا ہے دوسری صورت میں فروری میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا الٹی میٹم بھی دے دیا ہے۔ چونکہ اپوزیشن کو اس بات کا یقین ہے کہ وزیراعظم کسی صورت بھی مستعفی نہیں ہونگے۔ اس لیے پی۔ڈی۔ایم کی قیادت نے 30 دسمبر سے ہی جلسے جلوس اور ریلیوں کی تیاریاں شروع کردی ہے۔ اس دوران 27 دسمبر کو لاڑکانہ میں شہید سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر پی۔ڈی۔ایم کے بعض راہنما گڑھی خدا بخش میں ہونے والے تعزیتی اجتماع میں شریک ہوں۔ جسکی دعوت بلاول بھٹو نے ان راہنمائوں کو دی ہے تاہم مریم نواز کی اس اجتماع میں نہ صرف شرکت بلکہ اجتماع سے خطاب بھی فائنل ہوچکا ہے۔ 

لانگ مارچ کے حوالے سے پی۔ڈی. ایم نے حکومت کو مفلوج کرنے کی جو منصوبہ بندی کی ہے اس میں کراچی سے لے کر گلگت بلتستان تک احتجاجی جلسے اور ریلیاں اسلام آباد میں جمع ہونگی اور تمام راستوں پر آمدورفت اور نقل حمل کو منجمد کرایا جائیگا۔ اگر اس منصوبہ بندی پر عمل ہوجاتا ہے تو حکومت کیلئے واقعتاً ایک مشکل صورتحال پیدا ہوسکتی ہے اور اگر اس دوران دہشتگردی یا انتظامیہ کی جانب سے رکاوٹوں کے باعث کوئی بڑا حادثہ پیش آگیا تو صورتحال تبدیل بھی ہوسکتی ہے لیکن کیا بات یہاں تک پہنچ سکے گی؟ظاہر ہے کہ اپوزیشن متحد رہی تو اور حالات اس کے حق میں’’سازگار‘‘ رہے تو اس کی یہ کوشش ہوگی اس احتجاج اور دھرنے کو سینیٹ کے انتخابات تک لیجایا جائے۔ 

دوسری طرف حکومت بھی اپوزیشن کی اس کوشش اور خواہش کو ناکام بنانے کیلئے سیاسی اور حکومتی طاقت کا بھرپور استعمال کریگی۔مولانا فضل الرحمن جو کئی دھائیوں سے مفاہمت کی سیاست کرتے آرہے ہیں لگتا ہے کہ مزاحمت کی سیاست انھیں راس نہیں آرہی گوکہ پانچ مرتبہ رکن قومی اسمبلی رہنے کے دوران انھوں نے اپوزیشن لیڈر کا کردار بھی اداکیا لیکن ایوان میں ا س وقت بھی ان کے دھیمے مزاج کے باعث انھیں فرینڈلی اپوزیشن لیڈر ہی کہا جاتا تھا۔ 

مفاہمت کی سیاست میں مولانا نے سیاست کا عروج دیکھا منصب صدارت اور وزارت عظمیٰ کےلیے نامزد بھی ہوئے خارجہ اُمور اور کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے شخصیت اور دبنگ کردار سے صحیح معنوں میں سیاست کو انجوائے کیا لیکن پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے سربراہ کی حیثیت میں جب سے انھوں نے صحیح معنوں میں اپوزیشن لیڈر کا کردار شروع کیا ہے انھیں مشکلات کا سامنا ہے۔ 

ان کے والد محترم مولانا مفتی محمود کی زندگی میں صوبہ سرحد میں جمعیت کا اثرونفوذ بھی رہا اور حکومت بھی لیکن اس کا تسلسل برقرار رکھنے میں مولانا فضل الرحمن کا میاب نہ ہوسکے اور پھر جب پاکستان تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا میں حکومت بنائی تو مولانا فضل الرحمن خم ٹھونک کر عمران خان کے سامنے یہ نعرہ لگا کر میدان میں آگئے کہ ’’ہمارے بغیر حکومت بن تو سکتی ہے لیکن چل نہیں سکتی‘‘ اور یہاں سے دونوں شخصیات کے مابین اختلافات کی بنیاد رکھی گئی جو موجودہ صورتحال میں اب مخالفت سے بھی کہیں آگے بڑھ گئی ہے۔ 

مولانا کا ’’سیاسی ماٹو‘‘ صرف کے پی کے نہیں بلکہ وفاق سے بھی عمران خان کی حکومت ختم کرنا ہے جبکہ وزیراعظم کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ مولانا کی سیاست کو بے نقاب کرینگے اور اپنے اپنے مقاصد میں کامیاب ہونے کیلئے فریقین پوری طرح سرگرم ہیں اس صورتحال میں جمعیت علمائے اسلام سے دیرینہ وابستگی رکھنے والے ایک راہنما مولانا شیرانی اچانک منظر عام پر آئے ہیں 80سالہ مولانا شیرانی 2013 میں جے یو آئی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے انھوں نے اسمبلی کے ایوان میں خود کو ہمیشہ ایک مذہبی سکالرکے طور پر پیش کیا وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین بھی رہے اپنے اصولوں میں بے لچک اور جراتمندانہ موقف رکھنے والے مولانا شیرانی کاخود مولانا فضل الرحمن بھی حد درجہ احترام کرتے ہیں .لیکن جے یو آئی کے بعض حلقے مولانا کے اس حد درجہ احترام کو مولانا شیرانی سے ان کے خائف رہنے سے تعبیر کرتے ہیں حقائق کچھ بھی ہوں مولانا شیرانی ہی وہ شخصیت ہیں جو جے یو آئی میں پورے طمطراق اور جراتمندی سے مولانا فضل الرحمن کے سامنے آئے ہیں۔

جبکہ جے یو آئی کے حلقے اسے بعض اداروں اور حکومت کا کھیل قرار دیتے ہیں اور واضح طور پرکہہ رہے ہیں کہ چونکہ اپوزیشن کی تحریک درحقیقت مولانا فضل الرحمن ہی چلا رہے ہیں جیل بھروتحریک۔ اسمبلیوں سے استعفے، جلسے جلوس لانگ مارچ اور دھرنا یہ سب انہی کی تحریک پرہورہا ہے اورحکومت نے انھیں روکنے سے ناکامی کے بعد اب یہ کارڈ کھیلا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین