متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے وفاقی حکومت چھوڑنے سے متعلق عوام سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ وفاقی حکومت میں ر ہنا ہے یا نہیں؟، اس سے متعلق ایم کیو ایم کا تنظیمی ڈھانچہ عوام کے پاس جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے سامنے تحفظات اور لائحہ رکھ دیا ہے، عوام کے پاس جاکر اگلے لائحہ عمل کی رائے لیں گے اور جلد حتمی فیصلہ کریں گے۔
خالد مقبول صدیقی نے دعویٰ سے کہا کہ ہمارا پہلا مطالبہ مردم شماری کی درستی ہے، کابینہ میں شامل ہونا ہمارا مطالبہ کبھی تھا ہی نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے خزانے میں 60 سے 65 فیصد کراچی ڈالتا ہے، ہماری بات سنی جاتی ہے مگر اُس پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔
ایم کیو ایم سربراہ نے کہا کہ ہمیں لگتا ہے کہ کراچی کے حوالے سے سیاسی جماعتوں، ریاست اور ریاستی اداروں میں خاموش اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی ٹوٹ رہا ہے، ڈوب رہا ہے، سندھ کے شہری علاقوں کو پیغام دیا گیا ہے کہ نوکریوں پر آپ کا کوئی حق نہیں۔
خالد مقبول صدیقی نے مزید کہا کہ ہم نے اولین مطالبہ سندھ کی شہریوں کی آبادی اور پاکستان کی بقا کے لیے کیا، کراچی 15 سالوں میں ایک بڑے دیہات کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کابینہ میں فیصلے کے وقت ایم کیو ایم کے وزیر نے شدید احتجاج کیا، اولین مطالبہ اور نکتہ ہے، جس پر قائم رہیں گے۔
ایم کیو ایم سربراہ نے یہ بھی کہا کہ مردم شماری کے عوامی مطالبے پر عوام سے رجوع کرنےکا فیصلہ کیا ہے، گلی محلوں، ٹاؤنز میں جاکر اگلے لائحہ عمل پر عوام کی رائے معلوم کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ جس شہر کے رہائشیوں کو ڈھائی کروڑ شناختی کارڈ جاری ہوچکے ہیں اس کی آبادی 1 کروڑ 60 لاکھ بتائی گئی ہے۔
خالد مقبول صدیقی نے دعویٰ کیا کہ مردم شماری کے کئی بلاکس میں آبادی زیرو دکھائی گئی ہے، عوام کے ساتھ کھڑے ہوکر کوئی حتمی فیصلہ بہت جلد کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت آئینی آپشن لینے میں کیو ں تاخیر کررہی ہے، مشترکا مفادات کونسل نے 5 فیصد سیمپل کے آڈٹ کا فیصلہ کیا تھا، حکومت کے پاس قانون میں تبدیلی اور ترمیم کے تمام آپشن ہیں۔
ایم کیو ایم سربراہ نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے نتیجے میں حکومت کا سب سے بڑا نشانہ سندھ کے شہری علاقے ہیں۔