• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپوزیشن نے حکومت پر دباؤ بڑھایا، کپتان نے ٹیم بدلی، مگر حالات نہ بدلے

سابق امریکی صدر، فرینکلن ڈی روز ویلٹ نے کہا تھا’’ سیاست میں کچھ بھی حادثاتی طورپر نہیں ہوتا۔ اگر کوئی حادثہ ہو بھی، تو آپ شرطیہ طور پر کہہ سکتے ہیں کہ اس کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔‘‘یہی وجہ ہے کہ جب سابق وزیرِ اعظم، میاں نوازشریف کو علاج کی غرض سے لندن جانے کی اجازت دی گئی، تو اُسے معمول کی کارروائی نہیں سمجھا گیا۔ میاں نواز شریف نے 2020ء خود ساختہ جلاوطنی کے طور پر برطانیہ میں گزارا، مگر پاکستان کی سیاست اُن ہی کے گرد گھومتی رہی۔

سویلین بالادستی کا عَلم اُٹھاتے وقت میاں نوازشریف نے اسٹیبشلمنٹ کے اشاروں پر ناچنے والے سیاست دانوں کو’’چابی والے کھلونے‘‘ قرار دیا تھا، مگر 2020ء کے آغاز میں جب آرمی چیف کی مدّتِ ملازمت میں توسیع کا بِل سامنے آیا، تو اُن کی جماعت مسلم لیگ(نون)سمیت’’ ووٹ کو عزّت دو‘‘ کا نعرہ لگانے والی سب جماعتوں کے ارکانِ پارلیمنٹ ’’چابی والے کھلونے‘‘بن گئے۔

یکم جنوری کو وفاقی کابینہ نے آرمی ایکٹ 1952ء میں ترمیم کی منظوری دی اور 7جنوری کو یہ بل قومی اسمبلی سے متفّقہ طور پر منظور ہوگیا۔جے یو آئی(ف)،پی ٹی ایم اور جماعتِ اسلامی کے ارکانِ اسمبلی نے واک آئوٹ ضرور کیا، لیکن اسمبلی ریکارڈ کے مطابق کسی نے اس بِل کی مخالفت نہیں کی اور ماحول اس قدر دوستانہ رہا کہ پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر، نوید قمر نے یک جہتی کا ماحول پیدا کرنے کی غرض سے اپنی پارٹی کی طرف سے تجویز کردہ ترامیم بھی واپس لے لیں۔ 

ایوانِ بالا میں بھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون) کی حمایت سے بل منظور ہوگیا، البتہ پرویز رشید اور رضا ربانی جیسے سینیٹرز نے ایوان سے غیر حاضر رہ کر اپنی عزّت بچائی۔میاں نوازشریف ہی نہیں، اُن کی صاحب زادی، مریم نواز نے بھی طویل عرصہ خاموشی اختیار کیے رکھی، جس سے ان شکوک و شبہات کو تقویت ملی کہ پسِ پردہ کچھ یقین دہانیاں کروائی گئی تھیں، جن پر عمل درآمد نہ ہو سکا، تو ایک بار پھر مزاحمت کا جھنڈا اُٹھا کر یلغار کرنا پڑی۔آئین اور جمہوریت پر شب خون مارنے والے ڈکٹیٹر، جنرل پرویز مشرف کو خصوصی عدالت نے سزائے موت سُنائی تھی، مگر 12جنوری 2020ء کو لاہور ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کی تشکیل اور غیر حاضری میں ٹرائل غیر قانونی قرار دے دیا، تو وہ عدالتی فیصلہ غیر مؤثر ہوگیا، جسے بیش تر قانونی ماہرین نے تاریخی فیصلہ قرار دیا تھا۔

دِل چسپ بات یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے ٹرائل کو غیر قانونی قرار دینے والے لاہور ہائی کورٹ کے جج، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی ترقّی پا کر سپریم کورٹ کے جج بن گئے، جب کہ سزا سُنانے والی خصوصی عدالت کے سربراہ ،جسٹس وقار سیٹھ کو نظر انداز کردیا گیا۔حالاں کہ سپریم کورٹ ججز کیس میں، جسے’’ الجہاد ٹرسٹ کیس‘‘ بھی کہا جاتا ہے، اصول طے کر چُکی ہے کہ ہائی کورٹس میں سینئر موسٹ جج کو پہلے سپریم کورٹ کا جج بنایا جائے گا۔پشاور ہائی کورٹ کے جج، جسٹس وقار سیٹھ نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، لیکن اُن کی اپیل پر سماعت سے پہلے ہی وہ کورونا کے باعث چل بسے۔احتساب عدالت کے جج، ارشد ملک کا بھی، جنہوں نے میاں نوازشریف کو سزا سُنائی اور بعد ازاں قابلِ اعتراض ویڈیوز سامنے آنے پر برطرف ہوئے، کورونا سے انتقال ہوگیا۔

گزشتہ برس کے آغاز ہی میں سیاسی جوڑ توڑ میں تیزی آگئی تھی اور تحریکِ انصاف کے اتحادیوں نے اپنے دام بڑھانا شروع کردیئے۔12جنوری کو ایم کیو ایم نے وفاقی کابینہ سے علیٰحدگی کا اعلان کیا، تو بتایا گیا کہ اُس کی طرف سے کراچی کے لیے فنڈز کے علاوہ ایک اور وزارت کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ایم کیو ایم کے پاس پہلے ہی دو وزارتیں تھیں۔ خالد مقبول صدیقی نے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کام، جب کہ فروغ نسیم نے وزارتِ قانون کا قلم دان سنبھال رکھا تھا۔23مارچ کو ایم کیو ایم مطالبات تسلیم کیے جانے کی یقین دہانی پر واپس آگئی۔

مسلم لیگ (ق) بھی کئی مرتبہ ناراض ہوئی، مگر تعلقات میں اُتار چڑھائو کے باوجود اتحاد برقرار رہا۔آخری بار تو گلے شکوے اِس قدر بڑھے کہ وزیرِ اعظم، عمران خان کو اپنی روایات کے برعکس خود چل کر چوہدری شجاعت حسین کی چوکھٹ پر جانا پڑا۔البتہ، بلوچستان سے ایک اہم اتحادی بی این پی کے سربراہ، اختر مینگل تحریکِ انصاف سے راہیں جدا کرکے پی ڈی ایم سے مل گئے۔وفاقی حکومت تو برسرِ اقتدار آنے کے بعد مسلسل عدم استحکام کا شکار ہے ہی، چار میں سے تین صوبوں کے وزرائے اعلیٰ پر بھی مسلسل غیر یقینی کی تلوار لٹکتی رہی۔بلوچستان میں سابق وزیرِ اعلیٰ اور موجودہ اسمبلی کے اسپیکر، عبدالقدوس بزنجو نے وزیرِ اعلیٰ، جام کمال کے خلاف بغاوت کی، تو خیبر پختون خوا میں وزیرِ اعلیٰ، محمود خان کے خلاف اُن کے وزرا اُٹھ کھڑے ہوئے۔

پنجاب میں وزیرِ اعلیٰ، عثمان بزدار کو پہلے ہی دن سے قبول نہیں کیا گیا اور یہی افواہیں گردش کرتی رہیں کہ بہت جلد اُنہیں ہٹا دیا جائے گا اور یہ کہ پنجاب میں تحریکِ انصاف کے 20ارکان صوبائی اسمبلی نے فارورڈ بلاک بنالیا ہے۔ عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی بھی اطلاعات گردش میں رہیں۔شہباز شریف اپنے بڑے بھائی، میاں نوازشریف کے ساتھ لندن گئے تھے،مگر لگ بھگ چار ماہ بعد 22مارچ کو اچانک واپس آگئے، تو ان خدشات کو تقویت ملی کہ اقتدار کی غلام گردشوں میں کوئی کھچڑی ضرور پَک رہی ہے اور شہبازشریف کسی خاص مقصد کے تحت ہی پاکستان واپس لوٹے ہیں، لیکن یہ سب چہ مگوئیاں حقیقت کا رُوپ نہ دھار سکیں۔پنجاب میں نہ صرف پی ٹی آئی کے ناراض ارکان کو منایا گیا، بلکہ مسلم لیگ (نون)کی صفوں میں انتشار پیدا کرکے نشاط ڈاہا کی سربراہی میں فارورڈ بلاک بھی بنا لیا گیا۔

خیبر پختون خوا میں محمود خان کے خلاف بغاوت کرنے والے سینئر وزیر، عاطف خان، شہرام ترکئی اور شکیل خان کو فارغ کردیا گیا، جب کہ بلوچستان میں جام کمال اور عبدالقدوس بزنجو کے درمیان گلے شکوے دُور ہوگئے۔یوں عمران خان بحران ٹالنے کے بعد یہ دعویٰ کرتے دِکھائی دیئے کہ جام کمال، محمود خان اور عثمان بزدار یعنی تینوں وزرائے اعلیٰ کا ’’کِلہ‘‘مضبوط ہے اور اُنہیں کوئی نہیں ہٹا سکتا۔سیاسی کھیل کی مناسبت سے کپتان اپنی ٹیم میں بھی رد و بدل کرتے رہے۔فردوس عاشق اعوان کو، جنہیں اپریل 2019ء میں وزیرِ اعظم کا معاونِ خصوصی برائے اطلاعات ونشریات تعیّنات کر کے وفاقی حکومت کا ترجمان بنایا گیا تھا، اپریل 2020ء میں فارغ کیا گیا، تو اُن پر کرپشن کے الزامات لگائے گئے۔

لیفٹیننٹ جنرل(ر)عاصم سلیم باجوہ کو اُن کی جگہ وزیرِ اعظم کا معاونِ خصوصی برائے اطلاعات مقرّر کیا گیا، مگر جب اُن کے خلاف غیر مُلکی اثاثہ جات اور امریکا میں سرمایہ کاری کی باتیں سامنے آئیں، تو اُنہیں یہ عُہدہ چھوڑنا پڑا۔پنجاب میں وزیرِ اطلاعات و نشریات، فیاض الحسن چوہان کو مارچ 2019ء میں ہندو کمیونٹی سے متعلق قابلِ اعتراض گفتگو پر فارغ کیا گیا،پھر تقریباً9ماہ بعد دوبارہ وزیرِ اطلاعات بنے، لیکن 3نومبر 2020ء کو اچانک اُن سے محکمۂ اطلاعات کا قلم دان لے لیا گیا اور فردوس عاشق اعوان کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب کا معاونِ خصوصی بنا کر یہ شعبہ اُن کے سپرد کردیا گیا، تو معلوم ہوا کہ ان کا ’’کِلہ‘‘بھی بہت مضبوط ہے۔

وفاقی کابینہ میں بھی ردوبدل کیا جاتا رہا۔تین سال میں چوتھی مرتبہ 12دسمبر کو کھلاڑیوں کی فیلڈنگ پوزیشن تبدیل کی گئی۔وفاقی وزیر ریلوے، شیخ رشید احمد کو مُلک کی طاقت وَر ترین وزارت، وزارتِ داخلہ سونپی گئی۔وزیرِ داخلہ بریگیڈیئر (ر)اعجاز شاہ کو نارکوٹکس کنٹرول کا وفاقی وزیر بنا دیا گیا۔اعظم سواتی کو، جنہیں سپریم کورٹ اور عوامی دبائو پر کابینہ سے نکالنا پڑا تھا، وزارتِ ریلوے دے دی گئی، جب کہ مشیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو معیشت تباہ ہونے کے باوجود ترقّی دے کر وفاقی وزیرِ خزانہ بنایا گیا۔

اپوزیشن جماعتوں کے لیے گزشتہ سال بھی ابتلا اور آزمائش کا دَور ثابت ہوا۔ سابق قائد حزبِ اختلاف اور قومی اسمبلی کے رُکن، سیّد خورشید شاہ، جنہیں 19ستمبر 2019ء کو آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں گرفتار کیا گیا تھا،گزشتہ برس بھی زیرِ حراست رہے۔ایک سال گزرنے کے باوجود اُن کی ضمانت پر فیصلہ نہیں ہوسکا۔

آخری بار ان کی درخواستِ ضمانت کی سماعت 14دسمبرکو سپریم کورٹ کے تین رُکنی بینچ نے کی، مگر سماعت ملتوی کردی گئی۔مسلم لیگ (نون)کے رُکن قومی اسمبلی، حمزہ شہبازشریف کو 11جون کو نیب نے تحویل میں لیا اور وہ اب تک زیر حراست ہیں۔سابق وزیرِ اعلیٰ، میاں شہبازشریف کو 28ستمبر کو گرفتار کیا گیا اور سال کے آخر تک رہائی نہ مل سکی۔خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کو بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں، لیکن 17مارچ کو سپریم کورٹ سے ضمانت ہوجانے پر رہائی نصیب ہوئی۔

خواجہ برادران کو ضمانت دیتے وقت سپریم کورٹ کے معزّز جج صاحبان نے ریمارکس دیئے کہ نیب بدنیّت ہے یا پھر نااہل۔ رجالانِ سیاست کی طرح کار پردازانِ صحافت کو بھی نہایت کٹھن حالات کا سامنا رہا۔’’میرِ کارواں ‘‘ میر شکیل الرحمان کو 12مارچ2020ء کو قومی احتساب بیورو نے ایک بے بنیادالزام کے تحت غیر قانونی طریقے سے گرفتار کیا اور پھر اعلیٰ عدالتیں بھی برقت ریلیف فراہم نہ کرسکیں۔10نومبر کو روزنامہ’’ جنگ‘‘ کے مدیرِ اعلیٰ، میر شکیل الرحمان کی درخواستِ ضمانت سپریم کورٹ سے منظور ہوئی، تو تب کہیں جا کر رہائی کا پروانہ جاری ہوا۔

اپوزیشن جماعتیں گزشتہ برس کے ابتدائی دَور میں تو گومگو کا شکار رہیں اور حکومت کے لیے کسی قسم کی مشکلات کا سبب نہ بن سکیں، تاہم جب پیپلز پارٹی کے چیئرمین، بلاول بھٹّو زرداری نے کُل جماعتی کانفرنس بلانے کا اعلان کیا، تو ٹھہرے پانیوں میں ارتعاش پیدا ہوا۔20ستمبر کو اسلام آباد میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس پاکستانی سیاست میں ہل چل مچانے اور اسلام آباد ہی نہیں، جڑواں شہر راول پنڈی میں بھی جوار بھاٹا لانے کا باعث بنی۔سابق وزیرِ اعظم، نواز شریف کی دھماکا خیز تقریر سے تو جیسے بھونچال آگیا۔سونے پر سہاگا یہ ہوا کہ اپوزیشن جماعتوں نے’’ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘‘ (PDM)کے نام سے ایک نیا سیاسی اتحاد تشکیل دے کر حکومت کے خلاف مشترکہ جدوجہد اور احتجاجی تحریک کا اعلان کردیا۔

جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ، مولانا فضل الرحمان جو 2019ء کے آخر میں حکومت کے خاتمے کے لیے لانگ مارچ اور اسلام آباد میں دھرنا دے چُکے تھے، اُنہیں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کا سربراہ بنایا گیا۔پی ڈی ایم نے گوجرانوالہ، کراچی، پشاور، کوئٹہ،ملتان اور پھر 13دسمبر کو لاہور میں مینارِ پاکستان کے وسیع و عریض میدان میں تاریخی جلسہ کیا۔حکومت نے کورونا کی وبا کے باعث جلسے کی اجازت نہ دی، مگر اپوزیشن نے یہ موقف اختیار کیا کہ 2019ء میں آنے والی وبا کے برعکس 2018ء میں مسلّط ہونے والی حکومت زیادہ خطرناک ہے۔

اس دَوران گلگت بلتستان میں انتخابات ہوئے، تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون) نے ایک بار پھر دھاندلی کے الزامات عاید کیے۔2018ء میں عمران خان کے وزیرِ اعظم بننے کے بعد اس حکومت کے مستقبل سے متعلق ہمیشہ سوالات اُٹھائے جاتے رہے ہیں۔2019ء میں بھی حکومت کا دھڑن تختہ ہونے کے امکانات ظاہر کیے گئے، بالخصوص جب مولانا فضل الرحمان نے اسلام آباد میں ڈیرے ڈال رکھے تھے، تو فضا خاصی ابرآلود تھی۔پھر اُن کے رخصت ہو جانے کے بعد بھی کہا جاتا رہا کہ مارچ میں تبدیلی کا وعدہ کیا گیا ہے، مگر ان افواہوں کے باوجود حکومت ایک کے بعد دوسرا سال پورا کرنے میں کام یاب رہی۔

پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد اپوزیشن رہنمائوں کی طرف سے مسلسل یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ حکومت دسمبر 2020ء میں رُخصت ہو جائے گی۔سیاست پر گہری نظر رکھنے والے حیران تھے کہ آخر اپوزیشن جماعتیں کس بَل بُوتے پر کام یابی کا دعویٰ کرتی رہیں؟سابق وزیرِ خزانہ، سرتاج عزیز اپنی کتاب’’ Between Dream and Realities‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جب بے نظیر بھٹّو کے پہلے دورِ حکومت میں نواز شریف نے’’تحریکِ نجات‘‘چلانے کا اعلان کیا، تو مسلم لیگ(نون)کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں اُن سے سوال کیا گیا کہ ’’پاکستان میں عام طور پر حکومتیں گرانے کے لیے تین’’اے‘‘درکار ہوتے ہیں۔ اللہ، امریکا اور آرمی۔آپ کے پاس کتنے ’’اے‘‘ہیں؟‘‘نوازشریف نے ہنستے ہوئے کہا’’ فی الحال تو صرف ایک ’’اے‘‘یعنی اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘اب بھی نوازشریف کے لب ولہجے کے باعث لوگ یہ سراغ لگانے کی کوشش کرتے رہے کہ اُن کے پاس کتنے ’’A‘‘ہیں۔اللہ سے متعلق ہر شخص کا گمان ہوتا ہے کہ وہ اُس کے ساتھ ہے، لیکن آرمی والا ’’A‘‘شاید اپوزیشن کے ساتھ نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دسمبر میں حکومت کی رخصتی کے دعوے کرنے والی اپوزیشن پہلے تو اس حد تک گئی کہ حکومت جنوری نہیں دیکھ پائے گی، مگر پھر حکومت کو 31جنوری 2021ء تک کی مہلت دے دی گئی۔حکومت پر دبائو بڑھانے کا ایک طریقہ اسمبلیوں سے مستعفی ہونا تھا، مگر پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے واضح کیا کہ 31جنوری تک حکومت نہ گئی، تو پھر لانگ مارچ کا اعلان کیا جائے گا اور پارلیمنٹ سے مستعفی بھی ہوا جائے گا۔بظاہر یوں لگتا ہے کہ اپوزیشن کے پاس کوئی ’’A‘‘نہیں اور احتجاج کے لیے موزوں وقت کا انتظار ہے۔دسمبر اور پھر جنوری میں موسم شدید سرد ہوتا ہے اور مارگلہ سے آتی یخ بستہ ہوائوں کے مقابل دھرنا دے کر بیٹھنا آسان نہیں۔چناں چہ فروری کے وسط یا آخر میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ ہوگا اور اپوزیشن جماعتیں شہرِ اقتدار میں پڑائو ڈالیں گی۔

اپوزیشن جماعتوں کی قیادت اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ مارچ 2021ء میں سینیٹ کے الیکشن ہونے ہیں، اگر حکومت یہ مرحلہ عبور کرنے میں کام یاب ہوگئی، تو اُسے ایوانِ بالا میں بھی اکثریت حاصل ہو جائے گی اور پھر موجودہ نظام کو اُکھاڑ پھینکنا ناممکن نہیں، تو انتہائی دشوار ضرور ہو جائے گا۔اِس لیے سالِ نو کا دوسرا مہینہ ہی فیصلہ کُن ثابت ہوگا۔

ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ وفاقی حکومت پر دبائو بڑھانے کے لیے اگر سندھ حکومت قربان کرنی پڑی، تو کیا پیپلز پارٹی یہ جوا کھیلنے کا حوصلہ کر پائے گی؟اور مسلم لیگ (نون)کے قائد میاں نوازشریف، جو لندن سے خطاب کر رہے ہیں، وہ اس فیصلہ کُن مرحلے کے موقعے پر تمام خطرات مول لے کر پاکستان واپس آئیں گے یا پھر وہیں بیٹھ کر انقلاب برپا ہونے کا انتظار کریں گے؟اِس حوالے سے کوئی ابہام نہیں کہ اگر عمران خان اس آزمائش میں سُرخ رُو رہے اور مارچ میں ’’ڈبل مارچ‘‘ نہ ہوا، تو ان کا ’’کِلہ ‘‘بہت مضبوط ہو جائے گا۔

تازہ ترین