’’پاکستان کی موجودہ اسمبلی کا انتخاب ۲۵ جولائی ۲۰۱۸ء کو ہوا تھا۔۱۳ ؍اگست ۲۰۱۸ء کو نو منتخب اسمبلی کے اراکین نے حلف اٹھایا۔اسپیکر کے انتخاب کے بعد قائد ایوان کی حیثیت سے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان، منتخب ہوئے ۔ بعد ازاں انہوں نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا۔اب اس حکومت کو دو سال چار ماہ کی مدت ہورہی ہے ۔سرِ دست ہمارے پیش نظر پارلیمان کی ۲۰۲۰ء کی کارکردگی ہے ۔
واضح رہے کہ ایک وفاقی مملکت ہونے کے ناطے پاکستان دو ایوانی مقننہ کا حامل ہے ۔ چنانچہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر عام انتخابات کے ذریعے منتخب ہونے والی قومی اسمبلی کے علاوہ سینیٹ ہماری پارلیمان کا دوسرا ایوان ہے جو وحدتوں کی برابری کے اصول کے تحت صوبائی اسمبلیوں پر مشتمل الیکٹورل کالج کے ذریعے منتخب ہوتا ہے۔سینیٹ کی مدت چھہ برس ہے ۔جبکہ قومی اسمبلی پانچ سال کے لیے منتخب ہوتی ہے ۔آئین کی رو سے مالیاتی بِل کے سوا کوئی بھی قانونی مسودہ قومی اسمبلی یا سینیٹ میں سے کسی میں بھی متعارف ہوسکتا ہے جبکہ دونوں ایوانوں سے اس کی منظوری ضروری ہے۔
اس منظوری کے بعد ہی مسودۂ قانون صدرِ مملکت کے پاس اُن کے توثیقی دستخط کے لیے بھیجا جاتا ہے ۔صدر کے دستخط ثبت ہونے پر اس مسودے کو قانون کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔مالیاتی بِل سینیٹ میں صرف بحث کے لیے پیش ہوسکتا ہے ۔سینیٹ اس پر اپنے مشورے اور تجاویز بھی قومی اسمبلی کو بھجوا سکتی ہے لیکن خود سینیٹ کو اس کی منظوری یا اس پر ووٹنگ کا اختیار حاصل نہیں ہے۔یوں قومی اسمبلی جو ایوانِ زیریں کہلاتی ہے اور اس وجہ سے بھی کہ وزیر اعظم اس اسمبلی ہی کا رکن ہوتا ہے ، سینیٹ کے مقابلے میں زیادہ بااختیار ادارہ سمجھی جاتی ہے، حالانکہ سینیٹ وحدتوں کا ایوان ہونے کے ناطے ایوانِ بالا کہلاتا ہے ۔ 2020ء میں پارلیمان کی کارکردگی کا مختصراً جائزہ نذرِ قارئین۔ ‘‘
……………………
۲۰۲۰ء میں ہماری پارلیمان نے بعض دور رس نوعیت کے قوانین منظور کیے ہیں ۔ان میں ایسے قوانین بھی شامل ہیں جن کی رو سے پارلیمان نے خود اپنی آزادانہ فیصلہ سازی کے حوالے سے سوالات اٹھا دیے ہیں۔اس پہلو پر ہم زرا آگے چل کر بات کریں گے ۔یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اختصار ہی سے سہی ، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پارلیمنٹ کے ادارے کے غیر ہموار سفر کا کچھ ذکرکرلیا جائے ۔ پارلیمانی نظام کے حوالے سے ملک کے قیام سے پہلے ہی یہ بات کم و بیش طے کرلی گئی تھی کہ پاکستان میں وفاقی اور پارلیمانی طرز حکومت اختیار کیا جائے گا ۔ہندوستان کی طرح برطانیہ کی بعض دوسری نو آبادیات میں بھی پارلیمانی طرز حکومت ہی منتخب کیا گیا تھا۔آزادی کے بعد ہندوستان اور پاکستان دونوں میں پارلیمانی نظام ہی کو قائم کرنے کی کوششیں کی گئیں ۔
ان دونوں ملکوں کی جو سماجی ساخت تھی، پھر ان کے جو علاقائی تنوعات تھے ، جو تہذیبی اور ثقافتی تشکیلات تھیں ان کا تقاضا یہ تھا کہ علاقائی حلقۂ ہائے نیابت کو سیاسی نظام میں زیادہ سے زیادہ جگہ دی جائے۔ پھر پارلیمانی نظام میں انتظامیہ اور مقننہ کے درمیان جو قریبی تعلق ہوتا ہے اس کو بھی زیادہ موزوں سمجھا گیا ۔مقننہ کے سامنے انتظامیہ کی جوابدہی کے اصول ہی کی وجہ سے پارلیمانی نظام کو جوابدہی کا نظام بھی کہا جاتا ہے اور اس کے اسی پہلو سے قائداعظم زیادہ متاثر تھے جس کا ثبوت ہندوستان کی لیجسلیٹو کونسل میں اُن کی تقاریر ہیں جن میں وہ حکومتِ برطانیہ سے مطالبہ کیا کرتے تھے کہ ہندوستان میں انتظامیہ کو مقننہ کے سامنے اُسی طرح جوابدہ کیوں نہیں بنایاجاتا جس طرح اُس نے خود اپنے ملک میں اس انتظامیہ یعنی وزیراعظم اور کابینہ کو ہائوس آف کامنز کے سامنے جوابدہ بنایا ہے۔
پاکستان نو سال کی تگ و دو کے بعد ۱۹۵۶ء میں آئین بنانے میں کامیاب ہوا جس کی پارلیمانی جہت بہت کمزور تھی، کیونکہ اُس وقت کی افسر شاہی اس نظام کو خود اپنے لیے مفید ِنہیں پاتی تھی۔چنانچہ قومی اسمبلی کو وزیراعظم کے انتخاب تک کا حق نہیں دیا گیا ۔ وزیر اعظم کاچنائو صدر کی صوابدید پر تھا۔ اُن کی طرف سے وزیر اعظم کا اعلان ہونے کے بعد نامزد وزیراعظم کو اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ہوتا تھا۔ افسر شاہی کے نمائندہ صدر اسکندر مرزااس نظام کو بھی محض ڈھائی سال ہی برداشت کرسکے۔انہوں نے اکتوبر۱۹۵۸ء میں فوج کے ذریعے اس نظام کو ختم کردیا۔تاہم فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان نے مارشل لاء لگانے کے بیس دن بعد اسکندر مرزا کو ہٹا کر خود ہی مسندِ صدارت بھی سنبھال لی۔تب سے اب تک چار مرتبہ پاکستان فوجی حکومتوں کا تجربہ کرچکا ہے ۔
ان چار میں سے تین فوجی حکمرانوں نے یا تو نئے آئین کے تحت صدارتی نظام قائم کیا(جنرل ایوب خان) یا اسمبلی کے ساتھ سودے بازی کے ذریعے آئینی ترمیم کروا کر پارلیمانی نظام کو صدارتی طرز کے قالب میں ڈھال دیا(جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف)۔یہی نہیں بلکہ جب بھی ملک میں سویلین حکومتیں قائم ہوئیں ان کو ملک کے اصل مقتدر حلقوں کی شرائط کا پاس کرنا پڑا۔ان میں سے بیشتر دوغلی یا دوہری اساس کی حامل حکومتیں (Hybrid Regimes)تھیں۔ان میں اصل اختیارات تو ملک کی مقتدرہ کے پاس تھے جبکہ برسرِ منظر محمد خان جونیجو، ظفر اللہ جمالی اور چودھری شجاعت حسین جیسے سیاسی چہرے نظر آتے تھے۔
وہ سویلین حکومتیں جو عوامی میندیٹ لے کر برسرِ اقتدار آئیں اُن کا اختیار بھی کبھی آئین میں آرٹیکل 58-2(b) کو شامل کرکے محدود رکھا گیا اور کبھی عملاً ایسا انتظام کردیا گیا جس کی وجہ سے وہ ریاست کے کلیدی امور کے بارے میں از خود فیصلہ کرنے کی اہل نہیں سمجھی گئیں۔حکومتوں کی جیسی تحدیدات (Limitations) تھیں انہیں کا ایک مظہر خود پارلیمنٹ کے بھی اختیار یا عدم اختیار کی شکل میں نظر آتا تھا۔سو ، تاریخی اعتبار سے پاکستان کی پارلیمان بحیثیت مجموعی کبھی بھی ایک حقیقی پارلیمانی نظام کی پارلیمان بن کر سرفراز نہیں ہوسکی۔واضح رہے کہ قیام پاکستان کے وقت قائداعظم نے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی اپنی تاریخی تقریر میں پارلیمنٹ کو مملکت کا مقتدر ادارہ قرار دیا تھا۔
اس تناظر میں موجودہ پارلیمنٹ کی کارکردگی کو دیکھنے کی کوشش کی جائے تو کوئی زیادہ حیرت نہیں ہوتی کہ یہ ماضی کی پارلیمنٹس کے مقابلے میں کوئی زیادہ بہتر کردار کی حامل ثابت نہیں ہوئی بلکہ بعض حوالوں سے اس کی کارکردگی اُن سے بھی کم تر ہی رہی ۔
گذشتہ برس پارلیمان کی جو صورت حال زرائع ابلاغ کے ذریعے عوام کے سامنے آئی اُس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں، اور خاص طور سے قومی اسمبلی میں لفظی جنگوں کی تکرار روز کا معمول بنی رہی۔اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر خود بھی اپنے دستور اور اسمبلی کے رُولز آف بزنس میں فراہم کردہ اختیارات کو مناسب طور پر استعمال کرتے ہوئے نظر نہیں آئے ۔اسپیکر کا جو ایک غیر جانبدارانہ کردار ہونا چاہیے وہ بالعموم نظر نہیں آیا۔حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں چند اراکین نے پارلیمانی آداب اور پارلیمانی زبان سے انحراف کی شہرت حاصل کرلی ہے۔
دنیا کی اچھی اسمبلیوں میں مزاح اور طنز کے بڑے نادر نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ہمارے یہاں ۱۹۵۰ء کے عشرے میں اور پھر بھٹو صاحب کے زمانے کی اسمبلی میں ایسے بہت سے پالیمنٹیرینز موجود تھے جو پارلیمانی زبان سے انحراف کیے بغیر فریقِ مخالف پر بامعنی طنز کرسکتے تھے ۔لیکن اب ہماری پارلیمان میں بدقسمتی سے اراکین کا کوئی قابل ذکر صاحبِ مطالعہ ہونا بھی نظر نہیں آتا۔
گو ان میں ڈگری یافتہ یقینا اکثریت میں ہیں ۔موجودہ پارلیمنٹ میں ایک اور قابل ذکر کمزوری وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے اراکین کا پارلیمان کے اجلاسوں میں شریک نہ ہونے کا رویہ ہے۔ وزیراعظم عمران خان ماضی کی پارلیمنٹ کو تو سخت ناپسند کرتے تھے لیکن موجودہ پارلیمنٹ میں بھی وہ شاز و نادر ہی تشریف لاتے ہیں۔
ایک موقع پر وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ایسی اسمبلی میں آنے کاکیا فائدہ جہاں اُن کی بات کو سنا نہ جاتا ہو۔لیکن کسی فاضل رکن کا اسمبلی میں ہُوٹنگ کا ہدف بننا اُس کے اسمبلی کے اجلاسوں سے غیر حاضر ہوجانے کا جواز فراہم نہیں کرتا۔سیاسی ذہن رکھنے والے لوگ تنقید اور ہُوٹنگ کا دلجمعی سے سامنا کرتے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ پارلیمان کی کارکردگی کو صرف اُس کے عام اجلاس ہی سے نہیں ماپا جاتا۔پارلیمان کے مباحثے جتنے اہم ہیں اتنی ہی اہمیت پارلیمان کی مختلف کمیٹیوں میں ہونے والی مسودہ ہائے قانون پرعرق ریزی اور بحث و مباحثے کی ہوتی ہے ۔سالِ گذشتہ میں پارلیمان کی کمیٹیاں موجود تو رہیں لیکن ان میں سے کئی کے اجلاس باقاعدگی سے نہیں ہوسکے۔
ان اجلاسوں کا عدم تسلسل کورونا کی وبا کی وجہ سے بھی تھا لیکن یہ ضرور ہے کہ ان اجلاسوں کے نہ ہونے کے نتیجے میں قانون سازی کا عمل سست روی کا شکار ہوا۔انتخابات کے بعد پارلیمانی کمیٹیوں کے قیام ہی میں کئی ماہ کی تاخیر کردی گئی تھی۔جب کمیٹیاں وجود میں آئیں تو چند کے علاوہ بقیہ کمیٹیاں غیر فعال رہیں ۔یہاں تک کہ کرونا کی وبا آگئی اور کمیٹیوں کی کارکردگی متاثر ہوئی۔
مسلح افواج کے سربراہوں کی مدت اور اس میں توسیع کے قوانین
۲۰۲۰ میں قومی اسمبلی نے ستمبر کے اواخر تک ۴۴ مسودہ ہائے قانون پاس کیے ۔جبکہ سینیٹ کی طرف سے اسی مدت میں پاس کیے جانے والے مسودہ ہائے قوانین کی تعداد ۳۶ تھی۔ان قوانین میں کچھ قوانین عمومی نوعیت کے تھے جن کا مقصد کسی خاص شعبے مثلاً صحت سے متعلق کوئی نیا قانون وضع کرنا تھا یا پھر موجودہ قانون میں کوئی ترمیم کرنا مقصود تھا۔البتہ تین یا چار شعبے ایسے ہیں جن سے متعلق قانون سازی کا ہمارے ریاستی اور سیاسی نظام سے زیادہ گہرا اور براہ راست تعلق تھا۔
اس سلسلے میں پہلا قانون یا مجموعۂ قوانین مسلح افواج کے سربراہوں اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین کی مدت میں توسیع سے متعلق تھا۔قبل ازیں اگست ۲۰۱۹ء میں وزیراعظم عمران خان نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی چیف آف آرمی اسٹاف کی حیثیت سے مدت میں توسیع کردی تھی۔لیکن ۲۶ نومبر کو سپریم کورٹ نے اس توسیع کے لیے اختیار کردہ طریقۂ کا ر پر سوال اٹھادیے اور وزیراعظم کے فیصلے کو معطل کردیا۔
اگلے تین روز حکومتی اور عدالتی ایوان غیر یقینی صورت حال سے دوچار رہے۔حکومت، عدلیہ اور مسلح افواج کے قانونی ماہرین کے درمیان سلسلۂ جنبانی جاری رہا اور تب سپریم کورٹ نے چیف آف آرمی اسٹاف کی مدت میں چھہ ماہ کی توسیع کی اجازت دیتے ہوئے یہ ہدایت کی کہ پارلیمان سے اس قسم کا فیصلہ کروایا جائے کہ آئندہ چیف آف آرمی اسٹاف کی مدت اور اس کی توسیع کے حوالے سے قانون وضع کیا جائے تاکہ پہلے سے معلوم ہوکہ یہ تقرر کتنی مدت کے لیے ہوگااور توسیع کی شکل میں یہ مزید کتنی مدت جاری رہ سکے گا۔عدلیہ کا کہنا یہ تھا کہ ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ تقرر اور توسیع کی مدت کے بارے میں کوئی غیر یقینی باقی نہ رہے ۔
دوسرے لفظوں میںخود سپریم کورٹ نے ایک راستہ دکھایا اور پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوںنے کوئی وقت ضایع کیے بغیر، بلکہ قدرے عجلت کے ساتھ کمیٹی کی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے بعد پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اتفاق رائے سے وہ تین مسودہ ہائے قانون منظور کرلیے جو برّی فوج، فضائیہ اور نیوی کے سربراہوں کی بحیثیت سربراہ مدت اور اس میں توسیع سے متعلق تھے۔۹ جنوری کو صدر مملکت کے دستخط ثبت ہونے کے بعد یہ مسودے قانون کی شکل اختیار کرگئے۔
ان تینوں قوانین کی رُو سے تینوں افواج کے سربراہوں اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئر مین کا تقرر، اُن کا ازسرِ نو تقرر یا اُن کی اپنے منصب پر توسیع وزیراعظم کا اختیار ہوگی او روزیراعظم کے اس فیصلے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔ان قوانین کی رُو سے مذکورہ بالا چاروں مناصب پر فائز ہونے والے فور اسٹار جنرلوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر ۶۰ سال ہوگی جبکہ ازسرِ نو تقرر اور منصب میں توسیع کی صورت میں اُن کی ریٹائرمنٹ کی عمر ۶۴ سال رکھی گئی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ان چار وں عہدوں پر فائزافسران اپنے منصب پر تین سال فائز رہنے کے بعد ۶۱ سال کی عمر تک پہنچ چکے ہوں تو ان کو تین سال کی مزید توسیع حاصل ہوسکتی ہے ۔ان قوانین کی منظوری کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ جو ۲۹ نومبر ۲۰۱۶ء کو ۵۶ سال کی عمر میں چیف آف آرمی اسٹاف مقرر ہوئے تھے اور جن کو اس منصب پر تین سال فائزرہنے کے بعد ۵۹ سال کی عمر میں ۲۹ نومبر ۲۰۱۹ء کو ریٹائر ہونا تھا اب وہ کم از کم ایک مزید تین سالہ مدت تک اپنے منصب پر فائز رہ سکیں گے ۔ماضی میں بھی ہماری افواج کے سربراہ ایک سے زیادہ مدت کے لیے اپنے منصب پر فائز رہ چکے ہیں لیکن اب اس کو قانونی شکل دے دی گئی ہے اور اس سلسلے میں رہنمائی سپریم کورٹ کی طرف سے کی گئی اور اندریں حالات سیاسی جماعتوں نے بھی اس کو قبول کرنے میں دیر نہیں لگائی۔
فیٹیف سے متعلق قوانین
ایک اور شعبہ جس سے متعلق قانون سازی ہمارے ریاستی امورکے حوالے سے دوررس نتائج اور امکانات کی حامل ثابت ہوگی وہ فائننشل ایکشن ٹاسک فورس (FATAF) کی ہدایات پر عملدرآمد سے متعلق ہے۔پاکستان گذشتہ تین چار عشروں میں ایسے علاقائی حالات سے دوچار رہا ہے جن کے نتیجے میں وہ خطے میں موجود عسکریت پسندی اور انتہا پسندی سے خود کو الگ نہیں رکھ سکا۔
عسکریت کے فروغ، اس کے لیے بہم کیے جانے والے مالی وسائل اور عملی اقدامات کی نقشہ گری میں ہماری حکومتوں کو کبھی امریکہ اور مغربی بلاک اور بعض عرب ملکوں کی تائید اور پشت پناہی حاصل رہی جبکہ افغان جہاد اورنائن الیون سے متصل واقعات میں ملوث بعض عناصر ، ان کے وسائل اور کاروائیاں خود ملک کے اندر اپنی بنیادیں رکھتی تھیں۔ لیکن جب تک دہشت گردی کا ہدف پاکستانی شہری بنتے رہے تب تک تو باہر کی دنیا کا ضمیر نہیں جاگا۔
البتہ جب ان واقعات کا ہدف پاکستان کی سرحدوں سے باہر پھیلنا شروع ہوا تو نہ صرف باہر سے اس پر ردعمل ظاہر ہونا شروع ہوا بلکہ اب خود پاکستان پر دبائو پڑنا شروع ہوا کہ وہ اپنی حدود میں ان عناصر پر قدغن لگائے جو عالمی امن کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔
فیٹیف ایک ایسا بین الحکومتی ادارہ ہے جو ۱۹۸۹ء میں پیرس میں منعقد ہونے والے جی سیوِن سربراہی اجلاس میں قائم کیا گیا۔اس کا مقصد ان ملکوںکو، جہاں کہ منی لانڈرنگ ہوتی ہے، آمادہ اور مجبور کرنا ہے کہ وہ اس کے آگے بند باندھیں ،منی لانڈرنگ کے خلاف قوانین پاس کیے جائیں اور ان پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔فیٹیف وقتاً فوقتاً متعلقہ ملکوں کے اندر موجود اُن عوامل اور عناصر کی نشاندہی بھی کرتا ہے جو منی لانڈرنگ کے ذریعے عالمی مالیاتی نظام پرمنفی طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔فیٹیف کا یہ بھی خیال ہے کہ منی لانڈرنگ کا بڑا سرمایہ دہشت گردی کی کاروائیوں میں استعمال ہوتا ہے ۔۲۰۱۹ء تک فیٹیف نے جنوبی کوریا اور ایران کو دہشت گردی کے لیے سرمایہ فراہم کرنے والے ملکوں کے طور پر شناخت کرتے ہوئے ان کو بلیک لسٹ کردیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی ایک گرے لسٹ کے اندر بارہ ملکوں کو رکھا گیا ،جس کے بارے میں کہا گیا کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گرد کاروائیوں اور اُس پر سرمایہ کاری کی اجازت فراہم کرتے ہیں ۔یہ ملک دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں اور یہاں پر ان کا سرمایہ بھی محفوظ رہتاہے۔گذشتہ برس یہ گرے لسٹ بارہ ملکوں پر مشتمل تھی جن میں بہاما، کمبوڈیا، ایتھوپیا، گھانا،شام ، تیونس اور یمن کے علاوہ پاکستان بھی شامل تھا۔پاکستان اس گرے لسٹ میں جون ۲۰۱۸ء میں شامل کرلیا گیا تھا اور اس کو کہا گیا تھا کہ وہ ستمبر ۲۰۱۹ تک فیٹیف کے فراہم کردہ ایکشن پلان پر عملدرآمد کرکے دے۔اس سے پہلے بھی پاکستان ۲۰۱۲ء سے ۲۰۱۵ء تک فیٹیف کی گرے لسٹ میں شامل رہا تھا۔پاکستان کی حکومت مختلف اوقات میں فیٹیف کو مطمئن کرنے کے لیے اقدامات بھی کرتی رہی ہے ۔
مثلاً لشکر طیبہ، جیش محمد اور جماعت الدعوہ جیسی تنظیموں پر پابندیاں بھی لگتی رہی ہیں اور مسعود اظہر اور حافظ سعید کو نظر بند بھی کیا گیا ہے لیکن فیٹیف ان اقدامات سے مطمئن نہیں ہوسکا۔ فیٹیف کے عدم اطمینان کی صورت میں پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں۔آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک پاکستان کی امداد روک سکتے ہیں۔ہماری بین الاقوامی تجارت کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جاسکتی ہیں اور ہماری مصنوعات کابین الاقوامی سطح پر بائیکاٹ بھی کیا جاسکتاہے ۔یہی خطرات ہیں جن کی وجہ سے حکومت کوایک مرتبہ پھر چند مزید قوانین بنانے پڑے ہیں جن کا مقصد دہشت گردی کی کاروائیوں کو روکنا اور دہشت گرد گروہوں کے مالی وسائل حاصل کرنے کے زرائع کو ختم کرنا ہے ۔
اس سلسلے میں جولائی اور اگست میں دہشت گردی کے خلاف بعض قوانین میں ترمیم کرکے ان کو مزید سخت بنایا گیا تاکہ یہ فیٹیف کے تقاضوں کی تکمیل کرسکیں۔صورت حال یہ ہے کہ فیٹیف ہنوز دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قانون سازی سے مکمل طور پر مطمئن نہیں ہوا ہے اور اس نے اس کو گرے لسٹ ہی میں مزید رکھنے کا اعلان کیا ہے ۔
یہاں مذکورہ قوانین کی منظوری سے متعلق اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ جہاں ایک طرف اس موضوع پر بھی حکومت اور حزب اختلاف نے ایک ایسے اتفاق رائے کا اظہار کیا جس کے بارے میں تجزیہ نگاروں اور بعض سیاسی دانشوروں نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ یہ اتفاق رائے بھی حکومت اور حزب اختلاف کی اپنی باہمی کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ زیادہ مقتدر قوتوں کے ایما پر ممکن ہوا ہے۔
پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ پہلے بیرونی احکامات پر اس نے اپنے آپ کو فرنٹ لائن اسٹیٹ بنانا منظور کیا اور دنیا بھر کے دہشت گردوں کو پناہ دی تاکہ وہ افغانستان میں مغربی دنیا کی جنگ لڑیں ۔اور اب بیرونی احکامات پر ہی اس کو ان گروہوں اور ملک کے اندرونی ساختہ گروہوں کے خلاف کاروائی کرنی پڑرہی ہے ۔
زینب الرٹ قانون
۲۰۱۸ء میں قصور کی ایک نو سالہ بچی زینب کے ساتھ ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔اس کو اغوا کرکے آبروریزی کے بعد ماردیا گیا۔ پورے ملک میں اس واقعے پر شدید احتجاج ہوا اور زرائع ابلاغ نے بھی اس پر بھرپور اظہار خیال کیا۔بدقسمتی سے اس قسم کے واقعات ملک میں معمول بن چکے ہیں۔
یہ واقعہ اپنی طرح کا نہ تو پہلا واقعہ تھا اور نہ ہی آخری ۔ لیکن اس معصوم بچی کے واقعہ نے کم از کم اتنا ضرور کیا کہ احتجاج کی رو ایوانِ اقتدار تک بھی پہنچی اور پارلیمان نے اس پر اقدام کا فیصلہ کیا۔اس سلسلے میں ایک ابتدائی بِل اپریل ۲۰۱۸ء میں اسد عمر نے پیش کیا جو بعد ازاں انسانی حقوق سے متعلق قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے زیر غور آیا۔
اس کمیٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری تھے۔کمیٹی نے اس بِل کے مختلف پہلوئوں پر طویل غوروخوض کے بعد اس کو اسمبلی کے سپرد کیا۔ قومی اسمبلی نے یہ بِل اکتوبر۲۰۱۹ء میں منظور کیا۔ بعد ازاں وزیرِ برائے انسانی حقوق ، شیریں مزاری نے ۱۱ مارچ ۲۰۲۰ء کو اس کو سینیٹ میں پیش کیا۔گو اس بل کی چند شقوں پر جماعت اسلامی کے ایک رکن کی طرف سے کچھ اعتراضات بھی کیے گئے۔ تاہم یہ بِل آسانی سے سینیٹ میں بھی منظور ہوگیا۔اس بِل کو ’زینب الرٹ، رسپانس اینڈ ریکوری ایکٹ‘کا نام دیا گیا ہے ۔
انگریزی کے ان الفاظ کا مخفف ’زرّا‘(ZARRA) بنتا ہے۔اس قانون کی رو سے یہ قرار پایا ہے کہ ایسی ہیلپ لائن قائم کی جائیں جو بچوں کے ساتھ ہونے والے کسی بھی مجرمانہ فعل پر رپورٹنگ کے لیے ہر وقت دستیاب ہوں ۔ متعلقہ سرکاری اہلکار دو گھنٹے کے اندر اندر اس پر کاروائی کریں گے۔ابتداً یہ کہا جارہا تھا کہ یہ ایکٹ اسلام آباد کی حدود تک موثر ہوگا۔ لیکن بعدازاں یہ طے پایا کہ اس کا دائرہ کار دوسرے صوبوں تک بھی پھیلایا جائے اور اس سلسلے میں صوبائی اسمبلیاں بھی اپنی سطح پر قانون سازی کریں۔
یہ قانون بن تو گیا ہے لیکن یہ کتنا مؤثر ثابت ہوتا ہے یہ صرف وقت بتائے گا۔اس سلسلے میں ماضی کے تجربات کوئی بہت حوصلہ افزا نہیں رہے ہیں ۔مثال کے طور پر ۲۰۱۷ء میں بچوں کے حقوق سے متعلق ایک قومی کمیشن قائم کیا گیا تھا لیکن ا س سے متعلق قانون بھی ابھی صرف کاغذوں ہی میں محدود ہے۔
۲۰۲۰ء میں پارلیمان نے کچھ معمول کی قانون سازی بھی کی ہے لیکن اگر یہ دیکھا جائے کہ پارلیمان دراصل ملک کو آگے لے جانے ، نئی پالیسیوں کو تیزی کے ساتھ آگے بڑھانے اور جمہوریت کو مستحکم کرنے کا ایوان ہے ، تو بصد افسوس کہنا پڑتا ہے کہ ہماری پارلیمان اس ضمن میں کسی بہت قابل اطمینان کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکی۔
یہ ضرور ہے کہ ریاست کے مجموعی دروبست میں پارلیمان ایک مکمل خود مختار ادارہ نہیں ہے اور اسے بعض اَن دیکھی اور اَن کہی پابندیوں کے دائرے میں کام کرنا پڑرہا ہے لیکن زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ جتنی آزادی اور مختاری اس کو حاصل ہے وہ اس کا بھی بہترین استعمال نہیں کرپائی ہے ۔کچھ ’تغافل‘ یا غیر معمولی توجہ اوپر کی ہے لیکن ، کچھ خاک بسر رہنا پارلیمان کو خود بھی گوارا ہے۔