• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ٹی اے توہین آمیز مواد کیخلاف موثر کارروائی میں ناکام، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

ملتان(نمائندہ جنگ) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس محمد قاسم خان نےکہا ہے کہ پی ٹی اے توہین آمیز مواد کیخلاف موثر کارروائی میں ناکام ہے ۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے انٹرنیٹ سے توہین آمیز مواد ہٹانے سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔ عدالت عالیہ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کی استدعا پر کیس کی سماعت 20جنوری تک ملتوی کردی۔ اس موقع پر سرکاری وکلاء نے بتایا کہ اس سے متعلق مکمل میکنزم بنانے کے لیے گزشتہ روز اٹارنی جنرل آف پاکستان کے دفتر میں اجلاس ہوچکا۔ جس میں معاملے سے نمٹنے کے لیے بریفنگ دی گئی۔ اٹارنی جنرل پاکستان عدالت عالیہ کی معاونت کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے مہلت دی جائے۔ قبل ازیں عدالت عالیہ میں پٹشنر لقمان حبیب نے اپنے کونسل بلال ریاض شیخ، محمد فیضان مقصود، وقاص ابرار ، میاں محمد شکیل ، شہزاد بریال اور ساجد اقبال لاشاری سمیت دیگر کے ذریعے درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ گوگل پر اسلامی شعائر کے حوالے سے قابل اعتراض اور گمراہ کن مواد اپ لوڈ کیا گیا ہے۔ پی ٹی اے کے چیئرمین عامر عظیم باجوہ نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ اب تک لاکھوں قابل اعتراض ویب سائٹ بند کرچکے ہیں جبکہ قادیانی کمیونٹی کی 19 ویب سائٹس بند کی گئی ہیں۔ اس پر فاضل عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ویب سائٹ بند کرنے سے معاملہ حل ہوگیا؟ وہ لوگ نئی بنا لیں گے، اور ایسے علاقوں سے چلائیں گے جو پاکستان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی،اس پر سیکرٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر نے فاضل عدالت کو بتایا کہ ہم ایک مضبوط میکنزم بنا رہے ہیں اس سلسے میں عدالت اور وکلاء ہماری رہنمائی کریں، گوگل انتظامیہ سے بھی رجوع کیا جارہا ہے، توقع ہے کہ جلد مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ عدالت نے کہا کہ رول 154 کے تحت اطلاع پر مقدمہ درج کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں اور ڈی جی ایف آئی اے کو باور کرایا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی شکایت پر مقدمہ درج کرلے ۔ چند ایک لوگوں کو اشتہاری قرار دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، تاہم ریاست مدینے والوں سے پوچھ لیں کہ انہیں کوئی اعتراض تو نہیں کیونکہ انکی سفارتی مجبوریاں بھی ہوتی ہیں، مملکت پاکستان کے خلاف سازش کرنیوالوں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو توہین کرنے والوں کے خلاف بھی ہونی چاہئے۔ پی ٹی اے موثر کارروائی کرنے میں ناکام ہے۔ جبکہ پرچے کے بعد ایف آئی اے بہتر نتائج دے سکتا ہے۔

تازہ ترین