بلوچستان میں ہر عام و خاص کی خواہش ہے کہ وہ یا اس کے خاندان کا کوئی فرد سرکاری ملازم ہو، یہی خواہش ہمیشہ اقتدار کے ایوانوں میں موجود لوگوں پر حاوی رہی اور یوں صوبے میں ہر حکومت نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی کسی اسکیم یا پھر کارخانوں کے قیام کے بجائے آسان کاروبار، سرکاری ملازمتوں کی پیدائش پر زیادہ سے زیادہ توجہ مرکوز رکھی اور صوبائی مفادات کے بجائے سابقہ حکومتوں میں جہاں ضرورت نہیں تھی وہاں پر ضرورت سے کئی گنا زیادہ اسامیاں پیدا کی گئیں۔ صوبہ اپنی کمزور ترین معیشت کے ساتھ 3لاکھ ملازمین کو پال رہا ہے۔ 1کروڑ 30لاکھ آبادی والا صوبہ اپنے بجٹ کا 80فیصد اپنے ملازمین جبکہ صرف 20فیصد باقی ماندہ 1کروڑ 27لاکھ لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کررہا ہے اور سالانہ ریٹائرڈ ملازمین کو 29ارب روپے سالانہ بطور پنشن ادا کررہا ہے۔ حکومتی سطح پر روزگار کے ذرائع پیدا نہ کرنے کی وجہ سے بلوچستان میں زیادہ تر لوگوں کا اپنے گھر کا چولہا جلانے کا دارومدار ہمسایہ ملک ایران سے پٹرول کی ترسیل اور افغانستان سے درآمد کی جانے والی اشیا پر ہے۔ وزیر داخلہ شیخ رشید نے مجھ سمیت بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں رہنے والے لاکھوں لوگوں کے گھروں میں سراسیمگی پھیلا دی جب اُنہوں نے میڈیا سے ہم کلام ہوتے ہوئے فرمایا کہ پٹرول کی اسمگلنگ سات یوم میں روک دی جائے گی۔ بظاہر تو یہ بات مناسب لگتی ہے کیونکہ حکومت وقت کو اپنی نیک نام انتظامیہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے، عوام کی فلاح کے منصوبوں کی تکمیل کے لئے پیسے درکار ہوتے ہیں جنہیں دیگر ذرائع آمدن کے علاوہ درآمدی اشیا پر ٹیکس عائد کرکے پورا کیا جاتا ہے۔ اگر باہر سے آنے والا سامان بغیر ڈیوٹی کے ملک میں آ جائے تو یہ اسمگلنگ کے زمرے میں آتا ہے جس سے ملک کی آمدنی پر برا اثر پڑتا ہے اور ملکی اخراجات کو پورا کرنے کے لئے قرض لینا پڑتا ہے جس سے بقول وزیراعظم، ملکی وقار دائو پر لگ جاتا ہے۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ انتہائی کرب ناک اور الم ناک ہے۔ بدقسمتی سے بلوچستان کے سرحدی علاقوں کے مکین پنجاب اور سندھ میں رہنے والوں کی طرح خوش قسمت نہیں کہ جہاں زمین کی کاشت کے لئے نہری پانی میسر ہو۔ یا روزگار کے لئے کارخانے لگے ہوں جہاں مزدوری کرکے لوگ اپنے اور اپنے بچوں کے پیٹ کا دوزخ ٹھنڈا کر سکتے ہوں۔ یہاں تو تفتان سے چمن کا بارڈر ہو یا گوادر سے ماشکیل کا، آپ کو سنگلاخ پہاڑ ملیں گے یا میدانوں میں ریت اڑتی دکھائی دے گی۔ سرحدی علاقوں میں رہنے والے لوگ چند ہزار نہیں بلکہ اُن کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ جن کا واحد ذریعہ معاش گورنمنٹ کی سروس یا ایرانی بارڈر سے ایک دو کین پٹرول لا کر شہر میں فروخت کرنا ہوتا ہے جبکہ افغانستان سے ملحقہ بارڈر کے مکین ایک آدھ گانٹھ یا ریڑھی سرحد کے آر پار لے جا کر اپنا اور اپنے بچوں کے لئے روٹی کا نوالہ پیدا کرتے ہیں۔ کیا ان کے لئے روزی روٹی کا بندوبست حکومت کی ذمہ داری نہیں؟ وفاقی وزیر داخلہ اِس بات کا ذکر کرنا بھول گئے ہیں کہ کیا یہ اسمگلنگ کروانے والوں کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جائے گی یا پھر صرف ایک دو کین پٹرول والے اُن کے نشانے پر ہیں؟ حکومت ان کے لئے رزق حاصل کرنے کے دوسرے ذرائع پیدا کرے۔ اِن بےزباں سرحدی مکینوں کے گھروں میں ایسی المناک داستانیں سننے کو ملیں گی کہ جن کو سن کر سینہ پھٹ جائے۔ کیا ارباب اقتدار نے کبھی اِس بارے میں سوچا ہے؟ خدا کے لئے حکومت سرحدی مکینوں کو بھی انسان سمجھے۔ یہ کیڑے مکوڑے نہیں جو پہاڑوں کے اندر رہ کر یا کریٹ میں سر چھپا کر جی لیں گے۔ انہیں بھی روزگار چاہئے۔ ان کا بھی اس مملکت خداداد پر اتنا ہی حق جتنا باقی صوبوں کے باسیوں کا ہے۔ صوبے میں جب تک روزگار پیدا کرنے کیلئے حکومتی سطح پر کوئی معقول انتظام نہیں ہوتا ہے، صرف سرکاری نوکریاں نہیں کیونکہ صوبہ میں سرکاری ملازمتوں کے مواقع کی مزید تخلیق سے حکومت کے اخراجات مزید بڑھ سکتے ہیں جو کہ بلوچستان حکومت کی مالی مشکلات میں مزید اضافے کی وجہ ہوگی۔ بلوچستان میں ایک استاد پورے صوبے کو چلانے کے ذمہ دار سیکرٹری کی طرح گریڈ 20میں ریٹائرڈ ہوتا ہے تو ٹائم اسکیل بنیاد پر وہی پنشن اور مراعات لیتا ہے جو گریڈ 20میں ریٹائر ہونے والے کو حاصل ہیں۔ آئندہ پانچ سال میں ان اساتذہ کی تنخواہوں میں جہاں بےپناہ اضافہ ہوگا وہیں صوبائی حکومت کیلئے اُن کی پنشن ادا کرنا کسی صورت ممکن نہ ہوگا، اُس کا بہترین حل پرائیویٹپبلک پارٹنرشپ کے تحت چھوٹی چھوٹی کاروبار ی اسکیمیں شروع کرنا ہے۔