• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حذیفہ احمد

دنیا کی آبادی میں تیزی سے ہونے والے اضافے نے زرعی سائنس دانوں کو کاشت کاری کے ایسے طریقوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیا ہے جنہیں استعمال کر کے نہ صرف پیداواری صلاحیت میں اضافہ کیا جاسکے بلکہ زرعی مقاصد کے لیےمخصوص اراضی کو کسی اور مقصد کے لیےبھی استعمال کیا جا سکے۔اس وقت دنیا کی آبادی سات ارب نفوس سے تجاوز کرچکی ہے۔اس آبادی کی غذائی ضروریات پوری کر نے کے لیے ہم سطح زمین کا چالیس فی صد حصہ باغات، کھیت، کھلیان اور مویشیوں کی گلہ بانی کے لیے مخصوص کرچکے ہیں۔ 

اگر اجناس حاصل کرنےکے لیےہم اسی طرح زمین استعمال کرتے رہے تو مستقبل میں انسانوں کی رہائش کے لیے جگہ کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ اقوام متحدہ کے محکمہ اقتصادی اور سماجی امور کے مطابق 2050تک دنیا کی آبادی 9ارب60 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔دوسری جانب اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے برائے خوراک و زراعت کے مطابق مستقبل میں غذائی قلت سے بچنے کے لیے ہمیں خوراک کی پیداوار بڑھا کر 70فی صد تک لے کرنی ہوگی۔ لیکن اجناس کی پیداوار بڑھانے کے لیے زمین درکارہے اور ہم پہاڑوں کی چوٹیوں، برفانی علاقوں اور صحراؤں کو چھوڑ کر زمین کا ممکنہ حد تک رقبہ استعمال کر چکے ہیں۔

ماہرینِ زراعت کا کہنا ہےکہ اگر آج کے انسان نےابھی سے خود کو مستقبل کے لیے تیار نہیں کیا تو خدشہ ہے کہ دوتین دہائیوں بعد بہت سے ممالک میں اشیائے خورنی کی شدید قلت ہوجائے گی۔وہ کہتے ہیں کہ اب ہمارے پاس صرف جنگلات ہی باقی بچے ہیں۔ لہٰذا ہمیں کاشت کاری کے طریقوںمیں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے۔

زرعی شعبے پر بڑھتے ہوئے دباؤکے مرحلے پر امریکا کے ایک سرکردہ زرعی تحقیقی مرکز کی جانب سےیہ کہا گیا ہے کہ اس کی دریافت کردہ ایک یا زائد بہتر تدابیر اپنانے سے، مکئی، گندم اور چاول اُگانےوالے کسان غلے کی پیداوار میں نمایاں اضافہ اور زیادہ لوگوں کو خوراک مہیا کر سکتے ہیں۔واشنگٹن میں بین الاقوامی غذائی پالیسی کے تحقیقی ادارے (آئی ایف پی آر آئی) کی ایک رپورٹ کے مصنف، مارک روزگرانٹ کا کہنا ہے کہ 2050 ءمیں زرعی ٹیکنالوجی یا کاشت کاری کا کوئی ایک طریقہ دنیا کے لیے خاطر خواہ مقدار میں خوراک مہیا نہیں کر سکے گا۔ 

واضح رہے کہ روزگرانٹ نے زرعی پیداوار، نرخوں اور بھوک کے حوالے سے زرعی جِدّتوں کے اثرات کی پیمائش کی ہے۔ ان کے مطابق ایک طریقہ یا ٹیکنا لو جی اپنانے کےبجائےہمیں پیداوارمیں زیادہ سے زیادہ اضافہ کر نے کے لیے ان ٹیکنالوجیز کی مختلف انواع کی وکالت کرنی اور انہیں استعمال کرنا چاہیے۔

’’قدرتی وسائل کی بڑھتی ہوئی قلت والی دنیا میں غذائی تحفظ: ’’زرعی ٹیکنالوجیز کا کردار‘‘، کے عنوان سے جاری کی جانے والی رپورٹ میں روزگرانٹ کا کہنا ہےکہ زمین پر روایتی طریقے سے ہل چلائے بغیر مکئی کی پیداوار 20 فی صد تک بڑھا ئی جا سکتی ہے اوران ہی کھیتوں میں آب پاشی سے پیداوار میں 67 فی صد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ اگر ترقی یافتہ طریقے نہیں اپنائے گئے تو 2050 تک مکئی کی پیداوار میں 18 فی صد تک کمی آ سکتی ہے، جس سے بڑھتی ہوئی آبادی کو خوراک مہیا کرنا زیادہ مشکل ہو جائے گا۔ 

خاص طور پر ترقی پذیر مما لک میں بھوک اور ناقص غذائیت کے خطرے سے دو چار افراد کے لیے ٹیکنالوجیز خوراک کے نرخ کم رکھ سکتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک جانب دنیا کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور دوسری جانب 'کسانوں کو موسمیاتی تبدیلی اور کم ہوتی قابلِ کاشت اراضی اور پانی کی کمی کا سامنا ہے ۔ ایسے میں مستقبل کی ٹیکنالوجیز کے ملاپ سے، ترقی پذیر مما لک میں زرعی پیداوار، خوراک کی کھپت، غذائی تحفظ، تجا رت اور ماحولیاتی معیارپر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

اس رپورٹ میں زرعی تحقیق کی مزید حمایت کرنے اور کسانوں کو ترقی یافتہ ٹیکنالوجیز،مثلا زمین پر روایتی طریقے سے ہل چلائے بغیر کھیتی باڑی کرنے اور پانی کے رساؤ اور چھڑکاؤ جیسے طریقوں کا استعمال سکھانے میں مدد دینے پر زور دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ آب پاشی کی رساؤ والی تیکنیک میں ہر پودے کے اردگرد بہ راہ راست تھوڑی مقدار میں پانی دیا جاتا ہے اور چھڑکاؤ والی تیکنیک میں فصلوں کو دباؤ والے پائپس کے ذریعے پانی فراہم کیا جاتاہے۔

یہ رپورٹ خشک سالی اور حِدّت برداشت کرنے والے اور کھاد کے استعمال پر اچھا ردعمل ظاہر کرنے والے بیجوں، زراعت کے لیے پانی کا بندوبست کرنے اور کیڑوں مکوڑوں، بیماریوں اور جڑی بوٹیوں سے بہتر طور پر نمٹنےکی ترقی یافتہ ٹیکنالوجیز پر بھی توجہ مرکوز کرتی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پانی کا استعمال اور نائٹروجن کا بہاؤ کم کرنے والی ٹیکنالوجیز ماحول پر زراعت کے اثرات کم سے کم کرنے کے لیے اہم ہیں۔

ماہرین زراعت کے مطابق زرعی زمین کی زرخیزی کا تجزیہ کرانا ضروری اور کاشت کاروں کے لیے فا ئدہ مند ہے۔ پودوں کی نشوونما کے لیے 16مختلف عناصر کی ضر و ر ت ہوتی ہے۔ان میں سے بعض عناصر پودے ہواسے حا صل کرتے ہیں،لیکن زیادہ تک عناصر جڑوں کے ذریعے زمین سے پودوںتک پہنچتے ہیں۔ ان عناصر کی عدم مو جو د گی کی وجہ سےپودے کی مناسب نشوو نما نہیں ہوپاتی ۔ ما ہرین کا کہنا ہے کہ زمین کی زرخیزی کا طبعی اور کیمیاوی تجز یہ کرانا بہت ضروری ہے تاکہ مٹی میں موجود عناصر کی شرح کا علم ہوسکے اور اس کے مطابق کھاداستعمال کی جاسکے۔

بعض ماہرین زراعت کے مطابق بایو کھادکے استعما ل سے زرعی اجناس کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کیا جاسکتا ہے۔اس کے ذریعے پھلی والی فصلوں کی پیدا وار میںسو فی صد تک اضافہ ممکن ہے۔ماہرین کے مطابق بایو کھاد ایسے جرثوموں پر مشتمل ہوتی ہے جن کی زمین میں موجودگی نہ صرف اس کی قدرتی زرخیزی برقرار رکھتی ہے بلکہ اس میںاضافے کا بھی سبب بنتی ہے۔

پاکستان کے بعض زرعی ماہرین کا موقف ہے کہ ملک میں ٹنل فارمنگ کے رجحان کو فروغ دے کر بے موسم کی سبزیاں کاشت کر کے بہتر پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔ ان کے مطابق پختہ کھالوں، ڈرپ اریگیشن اور اسپرنکلر سسٹم سے پانی کی بچت یقینی بنانے کے علاوہ بہتر اندا ز اور آسان طریقے سے فصل کو پانی دے کر عام سبز یوں اور نقد آور فصلوں کی کاشت سے اخراجات اور محنت کو کم اور آمدن کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ان کے مطابق ٹنل کلچر کے ذریعے بے موسم کی سبزیوں کے مقابلے میں عام سبز یوں کی کاشت سے کاشت کار کم مالی فائدہ حاصل کرتے ہیں۔

ان ماہرین کےبہ قول ٹنل فارمنگ کا گرین سسٹم فصل کو شدید گرمی اور سردی میں مضر موسمی اثرات سے محفو ظ رکھتا ہے جس سے پھل دار پودے جہاں زمین کے حسن میں اضافے کا باعث بنتے ہیں وہیں پھلوں کی مقامی ضروریات کو بھی پورا کیا جا سکتا ہے۔ان کے بہ قول ٹنل فارمنگ اپنانے کے خواہش مند کاشت کار محکمہ زراعت اور زرعی ماہرین سے مشاورت کرسکتے ہیں۔

ماہرین زراعت کا کہنا ہے کہ ملک میں ٹنل فارمنگ کے فروغ کے لیے کاشت کاروں کو زرعی تعلیم و تربیت دینے کی اشد ضرورت ہے، کیوں کہ اس کے بغیرسو فی صد ہدف حاصل نہیں کیا جاسکتا۔اگر ایسا ہوجائے تو کسان پیداوار میںدو گنا تک اضافہ کر سکتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے کم سے کم پانی استعمال کر کے بے موسم کی سبز یا ں بھی اگائی جا سکتی ہیں۔واضح رہے کہ ہمارے کاشت کاروں کو موسمِ سرما کے دوران درجۂ حرارت کم ہونے کی وجہ سے دسمبر سے فروری کے مہینوں تک سبزیوں کی کا شت میں مسائل کا سامنا رہتا ہے۔

ان ہی مسائل کو دیکھتے ہوئے ملک میں ٹنل فارمنگ کا طریقہ کار متعارف کرایا گیا تھا، جس سے بہت کم درجۂ حرارت میں بھی سبزیوں کی کاشت ہو سکتی ہے، تاہم مناسب رہنمائی اور آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر کسان روایتی طر یقو ں ہی کوترجیح دیتے رہے۔ لیکن اب بڑے اور درمیانے درجے کےبعض ترقی پسند کاشت کاروں میں ٹنل فارمنگ مقبول ہو رہی ہے۔

ٹنل فارمنگ کو تین اقسام ،یعنی اونچی، درمیانی یا واک اِن اور چھوٹی ٹنل میں تقسیم کیا جاتا ہے۔اونچی ٹنل زمین سےچار تاپانچ میٹرتک ،درمیانی ٹنل دو میٹر تک اور چھوٹی ٹنل زمین سے بہ مشکل آدھا میٹر بلند ہوتی ہے ۔ماہرین کے مطابق ٹنل فارمنگ سے عام فصل کی نسبت تین سے چار گنا زیادہ پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔اس میں کھاد اور پانی کا استعمال بھی مناسب ہوتا ہے۔ یہ ایک طرح سے کسان کے لیے بہت نفع بخش طریقہ ہے ۔ بہ ظاہر یہ منہگالگتا ہے،اسی لیےہمارےاکثر کسان ہچکچا ہٹ کا شکار رہتے ہیں۔ لیکن اس طریقہ کاشت کاری کے ذریعے ایک بار پیسے لگا کر تین سے چار سال تک فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

ہمارے بعض کا شت کاروں نے وقت کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے کاشت کاری کے اس نئے طریقے کو اختیار کیا ہے۔ان کے بہ قول 'لوگ غیر موسمی سبزیاں کھانا پسند کرتے ہیںاور ٹنل سے حاصل کی گئیں سبزیاں بیرون ملک فروخت کرکے بھی اچھا منافع کمایا جا سکتا ہے۔کاشت کاروں کے مطابق ٹنل فارمنگ کے دوران سبزیوں کو نگہداشت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے لیکن اس میں نفع کا تناسب کافی ہے۔

ٹنل کا رُخ ہمیشہ مشرق سے مغرب کی جانب رکھا جاتا ہے، تاکہ اس پر سورج کی روشنی زیادہ سے زیادہ پڑے اور اندر گرمی پیدا ہو سکے۔ ایک ایکڑ رقبے پر اونچی ٹنل بنانےپر بارہ لاکھ روپے کے قریب رقم خرچ ہوتی ہے۔ درمیانی ٹنل پر چار لاکھ روپے فی ایکڑ خرچ آتا ہے۔دونوں ٹنلز کی تیاری میں لوہا یا سفیدے، بانس اور شہتوت کی لکڑی استعمال کی جاتی ہے۔ ہر ٹنل میں سبزیوں کی بیلیں چڑھانے کے لیے نائیلون کے جال استعمال ہوتے ہیں جن پر اضافی خرچ آتا ہے۔ ان دونوں اقسام کی ٹنلز میں کھیرے، ٹینڈے، کریلے، ٹماٹر، شملہ مرچ، سبز مرچ، بینگن اور تربوز وغیرہ باآسانی کاشت ہو سکتے ہیں اور چھوٹی ٹنل کی نسبت فصل جلدی حاصل کی جا سکتی ہے۔

ٹنلز کو بارش یا تیز ہوا سے ہونے والے نقصان سے بچانے کے لئے انگریزی حرف یو یا اُلٹے وی کی شکل میں بنایا جاتا ہے اور انہیں پلاسٹک کی شیٹ سے ڈھانپا جاتا ہے۔درمیانی ٹنل کے لیے تقریباً 170 کلو اور بڑ ی ٹنل کے لیے تین سو کلو پلاسٹک شیٹ استعمال ہوتی ہے، جس پر بالترتیب پچپن ہزار اور ایک لاکھ روپے خرچ آتا ہے۔ زیادہ لاگت کی وجہ سے مقامی کاشت کاروں کے لیے چھوٹی ٹنل زیادہ موزوں اور فائدہ مند ہوتی ہے۔ اس پر بڑی ٹنل کی نسبت ہوا کا دباؤ قدرے کم ہوتا ہے اور اسے بنانے کے لیے زیادہ رقم کی ضر ور ت نہیں ہوتی۔

زرعی ماہرین کے مطابق اگر ہمارےکاشت کار چاہیں تو ایک ہی وقت میں ایک ایکڑ زمین پر تین سے چار فصلیں اُگائی جاسکتی ہیں۔ زرعی ماہرین نے شب و روز کی کوششوں سے چند فصلوں کی ایسی اقسام متعارف کرائی ہیں جن کی اوسط پیداوار بہت بہتر ہے۔ 

ماہرین کا کہنا ہے کہ سورج مکھی اور بی ٹی کاٹن کی مخلوط کاشت سے کسان تقریباًایک لاکھ پچاس ہزار روپے فی ایکڑ آمدن با آ سا نی حاصل کرسکتے ہیں۔بعض مثالی کاشت کار اس طریقے سے فی ایکڑتیس من سورج مکھی اور کم از کم چالیس من کپا س کی پیداوار حاصل کر رہے ہیں۔زرعی ماہرین کے مطابق اگر بی ٹی فصلوں پر مزید توجہ دی جائے تو زرعی پیداوار میں بہتری کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین