کراچی (ٹی وی رپورٹ)وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کا کہنا تھا کہ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے وزیر اعظم کوئٹہ ضرور جائیں گے اور جلد ہی اپنے دورے کا اعلان کریں گے ،ہم نے ماضی کے مقابلے میں دہشتگردی پر کافی حد تک قابو پالیا ہے تاہم یہ کہنا کہ سو فیصد یہ حل ہوگیا ہے ایسا نہیں ہے،ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی بھرپور کوشش کررہے ہیں کہ ان واقعات پر قابو پایا جاسکے تاکہ اس قسم کے واقعات رونما نہ ہوں،یہ بڑا دلخراش واقعہ ہے اور ساری قوم کی ہمدردیاں ہزارہ کمیونٹی کے ساتھ ہیں،بد قسمتی سے وہ اس کی بہت بڑی قیمت ادا کرتے آئے ہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک انٹرویو میں کیا۔شبلی فراز نے کہا کہ اگر ہزارہ کمیونٹی سمجھتی ہے کہ وزیر اعظم کے آنے سے انکی داد رسی ہو تو وہ ضرور جائیں گے ،ممکنہ طور پر صبح ان کے دورہ کاپلان آجائے گا ،ہزارہ کمیونٹی کے مطالبات میں ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ حکومت بلوچستان مستعفی ہوجائے ،بلوچستان کے وزیر اعلیٰ وہاں پہنچے ہیں اور ان کے زخموں پر کسی حد تک مرہم رکھا ہے ،ماضی میں بھی اس کمیونٹی کے ساتھ یہ واقعات ہوئے ہیں ،اس وقت تمام سیاسی قوتوں کو ایک ہی پیج پر ہونا چاہئے نہ کہ ہم اس کو متنازع بنائیں کیونکہ دشمن کا مقصد ہی یہی ہے کیونکہ کان کنوں کے ساتھ کسی کی کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی ،اس قسم کی سازشیں کرنے والوں کا یہی مقصد ہوتا ہے کہ قوم کو تقسیم کیا جائے ،اگر ہم سیاسی طور پر ایک ہوں گے تو دشمن کے عزائم کو چوٹ پہنچے گی۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت عوام کے غم میں شامل ہے اس لئے کوشش ہے تدفین سے قبل وزیر اعظم کوئٹہ پہنچ جائیں ۔محمد علی درانی کی ملاقاتوں سے متعلق سوال پر شبلی فراز کا کہنا تھا کہ میں محمد علی درانی کو کافی عرصہ سے جانتا ہوں جب وہ پشاور میں زیر تعلیم تھے اور ہمارے سینئر تھے،ان کو فون بھی اس لئے نہیں کرتا کہ کہیں کوئی قیاس آرائی جنم نہ لے لے ،میں ان سے براہ راست پوچھنا چاہ رہا تھا کہ اچانک وہ سیاسی افق پر اتنے متحرک کیسے ہوگئے ،جو بات محمد علی درانی کررہے ہیں وہ بات ہم بھی کررہے ہیں تاہم فرق یہ ہے کہ ہم کیسز کی بات کے علاوہ تمام باتوں پر مذاکرات چاہتے ہیں ،انہوں نے ہم سے کوئی مشورہ نہیں کیا ،ہوسکتا ہے وہ یہ سمجھ رہے ہوں کہ گفت و شنید ہونی چاہئے اس لئے اگر کوئی یہ کام کررہا ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کا سیاسی وزن کتنا ہے ۔ انکا کہنا تھا کہ اہم سیاسی جماعتیں اگر اس کو سپورٹ نہیں کریں گی تو یہ ڈائیلاگ نہیں ہوسکتا تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی بات نہیں کرسکتا ۔ڈائیلاگ میں دیگر عناصر کے کردار سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ مجھے غیب کا علم نہیں ہوسکتا ہے کہ محمد علی درانی اپنے طور پر یہ کررہے ہوں،وہ اسمارٹ آدمی ہیں ہوسکتا ہے انہیں نے سوچا ہو کہ یہ ایک اچھا کام ہے ،اس کا بہتر طور پر شہباز شریف صاحب جواب دے سکتے ہیں یا جن لوگوں سے وہ ملے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ بے وقت کی راگنی ہے اس کی وجہ ہے کہ اپوزیشن اس وقت جو کاز لے کر چل رہی ہے یہ ہے کہ حکومت کو پریشر میں ڈالا جائے تاکہ ان کی غیر قانونی سرگرمیوں اور مقدمات میں کمی پیدا کی جاسکے،ہماری پارٹی کا بنیادی ستون احتساب ہے جس سے اپوزیشن کو ناراضگی ہے،ہم دیگر مسائل پر اپوزیشن سے بات کرنا چاہتے ہیں جو ملک کے مفاد میں ہوں۔پی ڈی ایم کی باقی جماعتوں کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہیں لیکن واحد پیپلز پارٹی ایسی جماعت ہے جس کے پاس سندھ کی حکومت ہے اور اس کے سسٹم میں اسٹیک ہیں اس لئے وہ خود کو سسٹم سے باہر نہیں کرے گی، حکومت پر پریشر ڈالنے کیلئے اس نے یہ پلیٹ فارم استعمال کیا تاہم ناداں گر گیا سجدے میں جب وقت قیام آیا۔اگر تمام جماعتوں نے استعفے دیئے بشمول پیپلز پارٹی تو یہ پی ٹی آئی کے مفاد میں ہوگا ،ہم خالی نشستوں پر ضمنی الیکشن کرائیں گے ،استعفے دینا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے،ہم سمجھتے ہیں کہ سسٹم کو چلتے رہنا چاہئے ،ہم استعفوں کے بعد تکلف نہیں کریں گے اور فوراً منظور کرلیں گے ،ماضی میں ہمارے استعفے ایک کاز کیلئے تھے لیکن ان کے استعفے کرپشن کو بچانے کیلئے ہیں ۔پیپلز پارٹی میں باقی جماعتوں کے مقابلے میں سیاسی بلوغت تھی تاہم وزیر اعلیٰ سند ھ نے جو زبان گزشتہ روز استعمال کی اس سے مجھے شک ہونے لگا ہے ،یہ اب وہ پارٹی نہیں رہی جو ماضی میں ہوا کرتی تھی۔ نواز شریف کی واپسی کے حوالے سے کیے گئے سوال پر شبلی فراز کا کہنا تھا کہ 15جنوری میں ابھی 9رو زباقی ہیں اور یہ کافی وقت ہوتا ہے تاہم ابھی اس پر کوئی حتمی رائے نہیں دے سکتے ،جب ڈیڈ لائن دی تھی تو اپنی کوشش کا اظہار کیا تھا اور ٹارگٹ سیٹ کیا تھا،ہم انہیں واپس لانے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔