سانحہ مچھ میں گیارہ بے گناہ اور معصول مزدوروں کا قتل کر کے ملک دشمن بیرونی قوتوں نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ وہ سی پیک اور پاکستان کی ترقی سے خائف ہیں۔ بلوچستان کی ترقی میں پاکستان کی ترقی پوشیدہ ہے، یہی وجہ ہے کہ دہشت گردوں نے پچھلے کچھ عرصہ سے بلوچستان کو نشانہ بنایا ہوا ہے۔ کراچی اور قبائلی علاقوں میں تو کافی حد تک حالات بہتر ہو چکے ہیں، انشا ء اللہ اب بلوچستان میں بھی ملک دشمن بیرونی قوتیں منہ کی کھائیں گی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پہلے سے زیادہ چوکنا اور متحرک ہونا پڑے گا۔ بلوچستان میں ہونے والی حالیہ دہشت گردی نے ہر پاکستانی کو افسردہ کر دیا ہے۔ ہماری قوم کبھی بیرونی دہشت گردوں کے سامنے نہیں جھکے گی۔ بزدلانہ کارروائیوں کے خلاف اب عوام متحد ہو چکے ہیں۔ 2020 میں ملک میں دہشت گردی کے 146 واقعات ہوئے جن میں 503افراد شہید اور 851 زخمی ہوئے۔ گزشتہ چند برسوں سے بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات میں بھارت براہ راست ملوث ہے۔ اس بات کے ثبوت اب عالمی میڈیا میں بھی آچکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان، اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ مل کر پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری اس کا اصل ہدف ہے۔ ملک دشمن قوتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان میں امن قائم ہو اور وہ اقتصادی لحاظ سے مضبوط ہو۔ یہی وجہ ہے کہ روزِ اول سے بھارت اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لئے مختلف حربے استعمال کرتا رہا ہے۔ بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کے اصل مجرمان کو جلد از جلد گرفتار کیا جانا چاہئے۔ معصوم جانوں سے کھیلنے والے انسانیت اور سی پیک دونوں کے دشمن ہیں۔ ہندوستان مسلسل دہشت گردوں کی پشت پناہی کرکے پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ اقوا م متحدہ اور عالمی برادری کو اس کا نوٹس لینا چاہئے۔ حکومت پاکستان کو بلوچستان میں بھارتی تخریب کاری اور دہشت گردی بے نقاب کرنے کے لئے سفارت کاری کے عمل کو تیز کرنا ہو گا۔ ہندوستان نے اب اپنی تمام حدود کو عبور کر لیا ہے۔ بھارت افغانستان میں بیٹھ کر بلوچستان میں دہشت گردی کروا رہا ہے۔ گزشتہ بیس برسوں میں بلوچستان میں صرف ہزارہ برادری پر 80 حملو ں میں 1600 افراد جان بحق ہو چکے ہیں۔ دہشت گرد بلوچستان کے مختلف علاقو ں میں دہشت گردی کر کے واپس افغانستا ن بھاگ جاتے ہیں۔ ہماری سیکورٹی ایجنسیوں کو اس نیٹ ورک کو توڑنا ہو گا۔ اسلام آباد میں بھی نوجوان طالب علم کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کا واقعہ انتہائی افسوسناک اور لمحہ فکریہ ہے۔ پنجاب سمیت ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے، پولیس گردی کے نتیجہ میں سینکڑوں بے گناہ لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ سانحہ ساہیوال کے ذمہ داران کو قرار واقعی سزا مل جاتی تو ایسے واقعات رونما نہ ہوتے۔ حکومت اس سفاکی میں ملوث اہلکاروں کو کیفر کردار تک پہنچائے۔ 2020 میں غیرت کے نام پر 244خواتین کو قتل کردیا گیا جب کہ حکومتی رٹ کہیں نظر نہیں آئی۔ ایک طرف لاقانونیت کی انتہا ہوچکی ہے جبکہ دوسری طرف پولیس بے گناہوں کے قتلِ عام میں مصروف ہے۔
گزشتہ سال 2020 میں مہنگائی کا جن بے قابو ہونے سے عوام کو چینی کی قیمت میں 98 ارب اور آٹے کی قیمت میں 181 ارب روپے اضافی دینے پڑے۔ آٹے اور چینی کے مسلسل بحران کے باعث، غریب آدمی کےلئے دو وقت کی باعزت روٹی بھی کمانا مشکل ہو گیا ہے۔ مہنگائی نے عوام کا کچومر نکال دیا ہے۔ حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان گندم برآمد کرنے والے ملک سے گندم درآمد کرنے والا ملک بن گیا ہے۔ حکومت نے پیٹرولیم اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ کرکے اپنی عوام دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔ تعلیم، صحت، زراعت غرض ہر شعبہ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے تباہی کا شکار ہے۔ حکومت نے ناکامی اور بیڈ گورننس کی بدترین مثال قائم کی ہے۔ سابقہ حکمرانوں اورموجودہ حکومت کی پالیسیوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ آٹا اور چینی کی قیمتوں پر کچھ دن پہلے حکومت نے کنٹرول کیا تھا‘ اب وہ پھر عوام کی قوت خرید سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی، کرپشن، گیس کی قلت اور حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں کے خلاف پورے ملک میں لوگ سراپا احتجاج ہیں لیکن حکومت کو کوئی احساس نہیں ہے۔ موجودہ حکومت بھی، ماضی کی حکومتوں کا تسلسل ہے۔ حکو مت ابھی تک عوام کو کسی طرح کا ریلیف نہیں دے سکی۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ حکومتی کارکردگی میں نہ پہلے کوئی خاطر خواہ بہتری ہوئی اور نہ آئندہ اس کے آثار نظر آتے ہیں۔ بیوروکریسی میں تبادلوں کے باوجود عوام کا معیارِ زندگی بدتر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جس حکومت کو یہ بھی معلوم نہ ہو کہ عوام کے اصل مسائل کیا ہیں‘ وہ کیسے ملک چلا سکتی ہے؟ تعلیمی شعبے کے حالات بھی دن بدن دگرگوں ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ عوام کو درپیش مسائل بھی دن بدن بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور اس میں بھی شبہ نہیں کہ سیاسی عدم استحکام ملکی سلامتی کے لئے سنگین خطرہ ہے۔