پنجاب سے کئی سینئر افسروں کو اسلام آباد سے بلاوا آ چکا ہے بلکہ یہ کہنا بھی کسی حد تک مناسب ہو گا کہ بلاوا آئے بھی مدتیں ہو چکی ہیں لیکن پنجاب حکومت کے افسر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے احکامات پر عملدرآمد کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آ رہے ۔پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے گریڈ21کے ان افسروں کے بارے میں پنجاب حکومت کا خیال ہے کہ ابھی یہ افسر اتنے فالتو نہیں ہوئے کہ انہیں وفاقی سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے کہنے پر اسلام آباد بھیج دیا جائے۔اسٹیبلشمنٹ ڈویژن ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ پنجاب مومن علی آغا، ایڈیشنل چیف سیکرٹری جنوبی پنجاب زاہد اخترزمان اور صوبائی سیکرٹریوں ندیم محبوب، عنبرین رضا اور کیپٹن (ر) سیف انجم کے حوالے سے واضح کر چکا ہے کہ یہ افسر چوں کہ ایک طویل عرصے سے پنجاب میں تعینات ہیں لہٰذا جب تک یہ اب پنجاب سے ریلیو ہو کر اسلام آباد یا پھر جہاں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن چاہے تعیناتی نہیں کاٹیں گے‘ انہیں گریڈ21 سے 22 میں ترقی نہیں ملے گی۔پچھلے 10سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ کہہ لیں، افسر شاہی کے درمیان اس طرح کی سردجنگ نظر نہیں آئی ۔میری ان افسروں میں سے ایک دو سے بات بھی ہوئی جو بظاہر تو وفاق کے احکامات پر عملدرآمد کیلئے کمربستہ دکھائی دیتے ہیں لیکن عملی طور پر اس کا نمونہ پیش نہیں کر سکے۔کوئی شک نہیں کہ یہ سب بڑے اہل افسر ہیں لیکن اگر چاہیں تو وفاقی حکومت کے احکامات پر عملدرآمد کے 100طریقے ہو سکتے ہیں۔اگر پنجاب حکومت ریلیو نہیں بھی کر رہی تو دو تین ماہ کی چھٹی لے کر وہاں جوائننگ دے سکتے ہیں ۔سیاست دان ہوں، سول سرونٹس یا پھر دیگر اعلیٰ اداروں کے افسر، یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ ان کے علاوہ بھی ایسے لوگ معاشرے یا سروسز میں موجود ہیں جو ملک اور اداروں کو بہتر طریقے سے چلا سکتے ہیں بلکہ تاریخ کہتی ہے کہ نئے لوگوں نے کئی معاملات زیادہ اچھے طریقے سے چلائے۔سابق سیکرٹری خزانہ اور چیئرمین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ حامدیعقوب شیخ کو حال ہی میں پنجاب سے ریلیو کیا گیاہے اور وہ اسلام آباد چلے گئے ہیں۔ ہر ذی شعور حکومت کو یہ ادراک ہوتا ہے کہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ صوبے کا اہم ترین محکمہ ہوتا ہے جس کا عمل دخل ہر محکمے میں بہرحال ایک کلیدی کردار کا حامل ہوتا ہے۔اگر پی اینڈ ڈی بورڈ کے چیئرمین کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے یہ خیال کرکے ریلیو کیا گیا کہ اس اہم ترین محکمے کے معاملات چل سکتے ہیں تو پھر محکمۂ داخلہ اور دیگر محکمے بھی نئے افسروں کے ساتھ چل سکتے ہیں۔پنجاب میں کئی ایسے قابل افسرموجود ہیں جو وفاقی حکومت کی طرف سے بلائے گئے ان افسروں کی غیر موجودگی میں بھی انتظامی معاملات کو بخوبی چلانے کے اہل ہیں۔ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ بنایا جا چکا ہے لیکن وہاں تعینات افسروں کے پاس تاحال کوئی ایسا سیٹ اپ نہیں جس کے تحت وہ عوام کو ریلیف فراہم کر سکیں۔حکومت کے ایک اہم فیصلے پر سول سرونٹس اور عوام حیرت زدہ ہیں کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ تو ملتان میں سیاسی دبائو پر بنادیا گیا لیکن اب بہاولپور کو بھی خوش کرنا مقصود تھا جس کے لئے فوری طور پر یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ میں قائم کئے گئے محکموں کے 8سیکرٹریوں میں سے 4بہاولپور بیٹھیں گے۔سوال یہ بنتا ہے کہ اگر ملتان اور بہاولپور کے عوام نے 100کلو میٹر سے زائد فاصلہ طے کرکے اپنے کام کروانے جانا ہے تو پھر انہیں کیا ریلیف حاصل ہوگا؟عوام تو پھر خوار ہی رہے۔ جنوبی پنجاب میں تعینات سول بیوروکریسی بھی اس حکومتی فیصلے سے مطمئن نہیں بلکہ چند کا تو یہ خیال ہے کہ یہ سسٹم اس طرح سے نہیں چلنے والا ۔پنجاب کی سول بیوروکریسی انحطاط کا شکار ہو رہی ہے۔ اہم ترین فیصلوں میں ان سے رائے ضرور لی جاتی ہے لیکن حتمی رائےکون دیتا ہے، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کئی افسروں کو وزیراعظم سیکرٹریٹ سے کال آتی ہے کہ فلاں کام فوری طور پر کیا جائے، وزیراعظم کا حکم ہے لیکن وہ افسر یہ بات سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا واقعی ’’اس طرح‘‘ کا کام وزیراعظم نے کہا بھی ہے یا کوئی انتہائی بااثر شخص وہاں تک رسائی حاصل کر کے بالا بالا ہی وزیراعظم کا نام استعمال کر کے اپنا ’’کام‘‘ کروانے کی کوشش کر رہا ہے۔