• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر سید عرفان آصف

چین کے صوبہ ووہان میں جنم لینے والےوبائی مرض کے حوالے سے کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ وہ 2020 کے اوائل میں ایک عالمی وبا یعنی Pandemic کی صورت اختیار کر لےگا اور موجودہ صدی کے جدید دور میں دنیا اتنی بے بس ہو جائے گی ،جس کا تصور بھی کچھ عرصے قبل تک ناممکن تھا، مگر یہ سب کچھ ہوا۔ وباء کے شروع ایام میں بہت سارے نظریۂ سازش پر بھی بحث و مباحثے ہوئے۔ کبھی اسے امریکا اور چین کی شرارت قرار دیا گیا تو کبھی اسے ایک عالمی شیطانی سازش کا نام دیا گیا۔ کچھ بدلتے موسم کی اُمید میں آس لگائے رہے کہ جونہی موسم گرم ہوگا، وائرس اپنی موت آپ مر جائے گا۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا سازشی نظریات دم توڑتے گئے اور آہستہ آہستہ بے چینی، اضطراب، گھبراہٹ اور مایوسی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیتی گئی۔

کورونا کی اوّل لہر لاکھوں افراد کو اپنا نشانہ بنانے کے بعد بظاہر رخصت ہونے ہی لگی تھی کہ دوسری لہر مزید تباہ کاریاں لئے نسل انسانی پر دوبارہ حملہ آور ہوئی۔ اس دوران سائنسدان اور ماہرین اپنی کوششوں میں لگے رہے کہ اس مرض کا کیا توڑ نکالا جائے۔ رفتہ رفتہ ان کوششوں کا پھل نظر آنے لگا۔ گزشتہ دنوں فائزر( Pfizer )اور اس کی پارٹنر جرمن کمپنی بایواین ٹیک( BioNtech )اور موڈرنا ( Moderna )نامی امریکی کمپنی بالآخر اپنی اپنی ایجاد کردہ ویکسین دنیا کے سامنے لے آئے ۔ دنیا بھر میں ڈرگ اتھارٹیز نے ان ویکسینز کو منظور کر لیا ہے، جن میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) اور امریکی ادارہ FDA بھی شامل ہیں۔ ان دنوں دنیا کے کئی ممالک میں ہیلتھ کیئر سے وابستہ افراد کو یہ حفاظتی ٹیکے لگائے جا رہے ہیں اور اُمید ہے کہ بہت جلد یہ ٹیکےعام افراد کے لیے بھی دستیاب ہوں گے۔

اسی دوران چین کی ایک کمپنی بھی اپنی ویکسین ایجاد کرنے کا دعویٰ کرچکی ہے ، مگر ابھی وہ کلینیکل ٹرائلز( clinical trials )کے فیز میں ہے۔ سائنسی اور طبی نقطۂ نظر سے اولین دو ویکسینزکس طرح زیادہ فائدہ مند ثابت ہوگی اور ان ویکسینز کا میکنزم یا طریقۂ عمل کیا ہے۔ یہ عام ویکسینز نہیں ہیں۔ یہ اپنی نوعیت کے ایک بالکل نئی قسم کی ویکسینز ہیں۔ جنہیں عرفِ عام میں ہم mRNA vaccines کہہ سکتے ہیں۔ اب تک استعمال میں آنے والے ویکسینز جواب بھی استعمال میں ہیں، ان کا طریقۂ عمل تقریباً سبھی جانتے ہیں۔ بنیادی فلسفہ یہی تھا کہ غیر مؤثر کئے گئے Pathogens انسانی جسم میں داخل کئے جاتے ہیں ،تاکہ جسم میں موجود قوت ِمدافعت (immunity system )کو متحرک کرکے ان کے خلاف لڑائی میں استعمال کئے جائیں۔ 

یہ pathogens انسانی صحت کو نقصان نہیں پہنچا سکتے ہیں، کیوں کہ یہ زیادہ درجۂ حرارت یا کیمیائی عمل کے ذریعے غیر مؤثر بنا دیئے جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے جسم میں موجود قوت ِمدافعت ا نہیں بیرونی حملہ آور سمجھتے ہوئے ان کے خلاف عمل پذیر ہوتا ہے اور اس کی مدافعت کےلیے اینٹی باڈیز( antibodies )بناتا ہے جو ایک طرح سے اس مخصوص وائرس کے خلاف انسانی جسم کا ہتھیار ہوتا ہے۔ اس لڑائی سے ان کی میموری میں یہ بیرونی اجسام اس طرح محفوظ ہوجاتے ہیں کہ جونہی اصل بیماری کا وائرس جسم میں داخل ہوتا ہے، اینٹی باڈیز اسے پہچان کر حرکت میں آتےہیں اور جسم کو کوئی نقصان پہنچانے سے قبل ہی اس وائرس کو ختم کر دیتے ہیں۔ لیکن اس قسم کی روایتی ویکسینز کی تیاری ایک طویل اور پے چیدہ عمل سے گزر کر ہی ممکن ہو تی ہے۔اورفارماسوٹیکل انڈسٹریز کو ان کی بڑے پیمانے پر تیاری میں بہت سے دوسرے چیلنجز کا سامنابھی کرنا پڑتا ہے۔ انہی مشکلات پرقابو پانے اور انسانی صحت کی بقا کے لیےنئے اقسام کی ویکسینز کی تخلیق ایک انتہائی ضروری امر تھا۔ 

سائنسدان اس میدان میں پہلے ہی ڈی این اے کے ذریعے ویکسینز کی تیاری میں کامیابی حاصل کر چکے تھے اور مزید کام کر رہے تھے۔ فائزر/بائیو این ٹیک اور موڈرنا کے تیار کردہ ویکسین اسی عمل کے ذریعے تیار کئے گئے ہیں جنہیں ہم mRNA based vaccines کہتے ہیں۔ نئی تیکنیک کے ذریعے جو ویکسینز تیار کئے گئے ہیں ان میں بیماری سے متعلق pathogens انسانی جسم میں داخل کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ خود انسانی جسم اور خلیوں کے اندر ان اینٹی جنز(antigens)کو بنا کر بیماری کے خلاف مدافعت تیار کی گئی ہے۔اس پورے عمل کو سمجھنے کے لیے پہلے انسانی جسم اور اس میں موجود خلیاتی نظام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انسانی جسم کے اندر موجود خلیوں کی اساس ڈی این اے ہے۔ ڈی این اے دراصل وہ مالیکیول ہے، جس کی اندر انسان کی تمام تر جینیاتی خصوصیات محفوظ ہوتی ہیں۔ 

اس کے اندر وہ تمام اطلاعات موجود ہوتی ہیں جن کی بنیاد پر یہ آگے خلیوں کو پروٹینز کی تعمیر کے لیے پیغام بھیجتا ہے اور یوں انسانی خلیئے ان ہدایات پر عمل کرتے ہوئے پروٹین کے بڑے مالیکیولز کی تعمیر کرتے ہیں۔ ڈی این اے سے ان پیغامات کو آگے خلیوں تک پہنچانے کے لیےایک اور مالیکیول کی ضرورت ہوتی ہے جسے میسنجر آر این اے کہا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہییے کہ اینٹی جنز جنہیں ویکسین کی شکل میں انسانی جسم میں وائرس کے خلاف قوتِ مدافعت پیدا کرنے کی غرض سے داخل کیا جاتا ہے دراصل پروٹین ہی ہوتی ہیں جو وائرس کے سیل وال یا خلیاتی دیوار سے حاصل کیا جاتا ہے۔ 

ڈی این اے کی جینیاتی ترتیب کو سائنسی تحقیقات کے ذریعے بہت پہلے ہی ڈی کوڈ کر لیا گیا ہے اور اب یہ جاننا کوئی اسرار نہیں کہ جسم میں داخل کئے گئے اینٹی جنزکی جینیاتی ترتیب کون سے کیمیائی اجزاء پر مشتمل ہے۔ اب اصل ویکسین کی تیاری کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ کورونا وائرس کی جینیاتی ترتیب سائنسدانوں نے پہلے ہی ڈی کوڈ کرلیا تھا۔ ڈیکوڈنگ کرنے کے بعد سیل کے اندر اس کی تعمیر کے لیے اس مخصوص کیمیائی ترتیب پرمشتمل mRNA کو لیباریٹری میں تیار کیا گیا۔ اور پھر اس mRNA کو جسم میں ویکسین کی طرح داخل کیا گیا۔ 

یہ باہر سے ہدایات لے کرآتا ہے اور براہ راست انسانی مسلز کے اندر اس کے سیل تک پہنچ کر کورونا وائرس کے مساوی اینٹی جنز کی تعمیر کی ہدایات پہنچا رہا ہے۔ لہٰذا جب یہ اینٹی جنز تیار ہوئے تو انہوں نے جسم کے مدافعتی نظام (immunological system ) کو تحریک دی ،جس سے یہ نظام ان انٹی جنز پر حملہ آور ہوکر ان کی شکل اپنے میموری میں محفوظ کر لیتا ہے اور جونہی اصل وائرس کے مقابل آتا ہے اسے زیر کرنے میں دیر نہیں کرتا۔ ڈی این اے بیسڈ ویکسینز پہلے تیار کئے جا چکے ہیں لیکن آر این اے بیسڈ ویکسینز اس لحاظ سے مزید فائدہ مند ثابت ہوں گےکہ یہاں جسم میں موجود ڈی این اے کو چھیڑنےکی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ یا یوں کہیں کہ بجائے ڈی این اے کو ایک نئی ترکیب بنا کر mRNA کے ذریعے آگے پہچانے کا کام دینے کے بجائے باہر سے براہ راست تیار کردہ mRNA کو وہی پیغامات اور ہدایات فراہم کردی گئیں جو وہ اصل میں ڈی این اے سے حاصل کرتا اور خلیئے تک لی کر جاتا ہے۔

یہ طر یقہ زیادہ محفوظ ثابت ہوا ،جس میں انسانی جسم کے اندرونی نظام کے ساتھ کم سے کم چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے ۔اس بات سے دنیا میں پھیلے اس افواہ کی بھی تردید ہوجاتی ہے کہ اس ویکسین کے ذریعے انسانوں کے ڈی این اے میں اپنی مرضی کے مطابق ترامیم کی جا سکتی ہے ۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔ فائزر اور موڈرنا کی بنائے ہوئے اس ویکسین کا اہم جزو میسنجر آر این اے ہے جسے ایک ننھے سے بلبلے میں مقید کیا گیاہے۔ یہ بلبلہ Fatty acid سے تیار کردہ ہے جسے نینو پارٹیکل (Nanoparticle )کہا جاتا ہے۔ یہ بلبلے اس محلول میں معلق ہوتے ہیں جو دراصل سلائن (saline solution) ہوتا ہے۔ یہ سلائن مریض کے جسم میں ایسے ہی داخل کیا جاتا ہے جو کسی بھی مریض کو کمزوری دور کرنے کی خاطر ڈرپ کے ذریعے عام طور پردیا جاتاہے۔ اس ویکسین کی افادیت اور اس کا اثر کتنا طویل ہو سکتا ہے ابھی کمپنیاں اس نتیجے تک نہیں پہنچ سکی ہیں۔ عالمی صحت کے ادارے WHO کا کہنا ہے کہ فی الحال چھ ماہ کا اثر بھی قابل قبول ہوگا، تاہم موڈرنا کے سی ای او کا کہنا ہے کہ یہ اثر کئی سال بھی رہ سکتا ہے۔

وبا میں مبتلا دنیا کے لیے اس وقت یہی بڑی خبر ہے کہ نئے ویکسین کا نتیجہ 90 فی صدسے زیادہ ہے۔ خطرناک وبا سے خوفزدہ انسانیت کے لیے یہ کچھ دیر دم لینے کا وقت ہے۔ اگر یہ ویکسین چار سے چھ ماہ کے لیے بھی مؤثر رہتی ہے تو کم از کم اس وقت تک کے لیے جب تک مزید تحقیقات اور ترقیاتی کام جاری رہے، لوگ خوف و ہراس کے ماحول سے باہر آ سکیں گے۔جہاں تک اس طریقۂ علاج اور ویکسین کے میکنزم کا تعلق ہے، اس بات میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ یہ اثر طویل المعیاد ہی ہوگا اور اس دوران ہونے والی مزید پیش رفت کورونا وائرس کی کسی بھی قسم کی واپسی اور دوبارہ سر اُٹھانے کے امکان کو یکسر نہیں تو بہت حد تک ختم کرچکی ہوگی۔

خوشی آئند بات یہ ہے کہ اس دوران ڈاؤ یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کے ڈاکٹر شوکت علی اور ان کی ٹیم بھی صحت یاب ہوجانے والے مریضوں سے حاصل کئے گئے پلازمہ کی مدد سے ویکسین کی تیاری کا کام کر رہی ہے ۔ نیز چینی فارماسیوٹیکل کمپنی کے اشتراک سے بننے والی ویکسین بھی تب تک کلینیکل ٹرائلز سے آگے بڑھ کر ہیلتھ ریگولیٹرز کی منظوری حاصل کر چکی ہوگی۔ ان تمام اقدام کو دیکھتے ہوئے یہ توقع کرنا بے جا نہ ہوگا کہ سال 2021ءکے اوائل میں دنیا کووِڈ 19 کے خوف سے کچھ نہ کچھ حد تک نجات حاصل کرلے گی ۔

تازہ ترین
تازہ ترین