جلال الدین اسلم
کہتے ہیں کہ جنگل میں جب مور ناچتا ہے تو اپنے رنگارنگ پَروں کو دیکھ کر جھوم اٹھتا ہے اور خود کو دنیا کا سب سے حسین اور خوبصورت پرندہ سمجھنے لگتا ہے، لیکن جب اس کی نظر اپنے پیروں پر پڑتی ہے تو وہ افسردہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح جب کسی ہال میں اردو کے نام پر کوئی پروگرام ہوتا ہے تو پروفیسر، ڈاکٹر، دانشور، صحافی، ادیب و شاعر سب ہی جمع ہوتے ہیں اور اردو کا گن گاتےہیں کہ یہ ایک مہذب، لطیف، میٹھی اور شگفتہ زبان ہے جو لوگوں کے دلوں کو موہ لیتی ہے اور اس کا چرچا اتنے زور و شور سے ہونے لگتا ہے کہ ہال کے در و دیوار گونج اٹھتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ’سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہی ہے‘۔
اردو کی قسمت کا حال عجیب و غریب ہے۔ پرانی پرانی اردو بستیاں اگر اُجڑ رہی ہیں تو نئی نئی بستیوں کے بسنے کی خبریں بھی ملتی رہتی ہیں لیکن یہ بستیاں ہیں کہاں؟ کم از کم ہمیں تو نہیں معلوم۔ ہمارے ارد گرد تو ویرانیوں نے ہی ڈیرےڈال رکھےہیں۔ چاروں طرف کھنڈر ہی کھنڈر نظر آرہا ہے۔ ہوسکتا ہے اردو کے بڑبولے دانشوروں نے کسی خاص علاقے میں اردو کی نئی نئی بستیاں بسائی ہوں ،جہاں عام لوگوں کی پہنچ ممکن نہ ہو اور شاید اس لیے بھی کہ بڑے لوگوں کی بستیاں زبان و تہذیب عام لوگوں کی زبان و تہذیب سے دور ہی ہوا کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ عوامی زبان اب خواص کی ہوکر رہ گئی ہے۔ اتنی خواص کہ اس کے دانشور جب کچھ کہتے ہیں، لکھتے ہیں تو اردو کے کم پڑھے لکھے لوگ ہونقوں کی طرح ایک دوسروں کو دیکھنے لگتے ہیں اور دلوں کو موہ لینے والی زبان لوگوں کے دلوں کو چھوئے بغیر ہی سروں سے گزر جاتی ہے۔
میرے ایک پڑوسی نے بھی مجھ سے ایک روز شکایت کی کہ آپ آسان زبان استعمال نہیں کرتے ،جس کی وجہ سے آپ کی بہت سی باتیں ہمارے سروں سے گزر جاتی ہیں، تو میں نے انہیں مجروح سلطان پوری کا ایک واقعہ سنایا کہ مجروح صاحب ایک مشاعرے میں مجروح صاحب بڑے لہک لہک کر شعر سنا رہے تھے کہ اچانک ان کے کانوں میں کچھ نوجوانوں کی آوازیں گونجیں۔ وہ آپس میں محو گفتگو تھے، کہ بڈھا شعر تو بہت اچھا پڑھتا ہے، مگر اتنی اونچائی سے پڑھتا ہے کہ ہمارے سروں سے گزر جاتا ہے۔ مجروح صاحب نے برجستہ جواب دیا کہ ’’بیٹے ہمیں اس اونچائی تک پہنچنے میں ساٹھ سال لگ گئے اور تم ساٹھ منٹ میں ہی اس اونچائی تک پہنچنا چاہتے ہو تو یہ کیسے ممکن ہے۔ ہاں کچھ تم ہم تک پہنچنے کے لیے کوشش کرو اور کچھ ہم تم تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
یہ سن کر ہمارے پڑوسی صاحب خاموش ہوگئے اور میں سوچ میں پڑگیا کہ زبان کے تعلق سے اہل زبان کب تک اور کہاں تک نیچے اترتے رہیں گے یا کہاں تک اتارے جاتے رہیں گے۔ ہمیں معلوم ہو کہ زبان کے بارے میں صرف ہم ہی نہیں ہمارے بڑے بھی شاکی رہے ہیں۔ جناب مولانا الطاف حسین حالیؔ کو بھی یہ شکوہ رہا ہے کہ:
کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں
مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں
مولانا الطاف حسین حالیؔ کی عربی، فارسی تو کیا، آج ہماری زبان اردو سمجھنے والے بھی خال خال ہی پائے جاتے ہیں۔ جب تک آپ اپنی زخمی زبان کی انگریزی الفاظ سے ’’ڈریسنگ‘‘ نہ کرلیں، لوگ ہونقوں کی طرح اپنا منہ کھولے حیرت سے آپ کا منہ تکتے رہتے ہیں کہ یہ شخص:
’’بک رہا ہے جنوں میں کیا کیا‘‘
شاید ایسی ہی صورت حال دیکھ کر مرزا غالبؔ خالق لفظ و بیان سے فقط یہ طعن آمیز دعا مانگ کر ایک کنارے ہوگئے تھے کہ ’’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘۔مگر ہمارے ایک شاعر کے لیے یہ صورت حال درد شکم بن گئی، انہیں کہیں سے افاقہ جب نہیں ہوا تو قبرستان جاکر اپنا شعر سنا آئے کہ:
اب تو زندوں میں نہیں کوئی سمجھنے والا
میں نے اے اہل قبور! ایک غزل لکھی ہے
ایک روز ہمارے ایک دوست نے ہمیں فون پر ہدایت فرمائی ’’آسان لکھا کیجیے‘‘ ۔جواباً پھر چچا غالبؔ کا ایک شعر پڑھنے کو جی چاہا مگر باز رہے کہ اب اس شعر کو بھی اہل قبور ہی سمجھیں گے کہ:
آسان کہنے کی کرتے ہیں فرمائش
گویم مشکل، وگرنہ گویم مشکل
بہرکیف، مولانا حالیؔ اور مرزا غالبؔ دونوں ہی زبان و ادب کے شہسوار تھے۔ انہوں نے اپنے اپنے دور میں جس طرح کی ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں اسے کوئی سمجھے یا نہ سمجھے وہ اب تو زبان و ادب کی تاریخ میں امر ہوچکی ہیں۔