• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات بجلی کا جو اچانک بریک ڈاؤن ہوا اور جس کے نتیجے میں دو روز بعد بھی ملک کے کئی شہروں میں بجلی مکمل بحال نہیں ہوئی یا آتی ہے تو پھر چلی جاتی ہے۔ ایک ایسا واقعہ ہے جس کے اسباب و علل معلوم کرنے کے لئے سنجیدہ اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کی ضرورت ہے جو حکومتی سطح پر ہونی چاہئے تاہم یہ بھی ایک اچھی پیش رفت ہے کہ نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) نے جنرل منیجر نارتھ کی سربراہی میں ایک چار رکنی محکمانہ تحقیقاتی کمیٹی مقرر کردی ہے جو سات روز میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی اور ایسی تجاویز دے گی جن پر عملدرآمد سے آئندہ اس طرح کی صورتحال سے ممکنہ طور پر بچا جا سکے گا۔ بتایا گیا ہے کہ بریک ڈاؤن گدو پاور اسٹیشن کے پلانٹ میں فنی خرابی سے ہوا جس کے نتیجے میں منگلا اور تربیلا پاور ہاؤسز سے دس ہزار میگا واٹ بجلی ایک سیکنڈ میں سسٹم سے غائب ہو گئی۔ ابتدائی پوچھ گچھ کے بعد ملک بھر میں بجلی کی بندش کی ذمہ داری گدو پلانٹ کے سات ملازمین پر ڈالی گئی ہے جنہیں فرائض میں غفلت برتنے پر معطل کردیا گیا ہے۔ اصل حقائق کا پتا تو متذکرہ کمیٹی کی رپورٹ کے بعد چلے گا لیکن بادی النظر میں یہ افسوسناک واقعہ بجلی کے نیشنل گرڈ میں حفاظتی نظام کی ناکامی، ناقص مینٹی نینس اور بدانتظامی کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس سے حکومت کی غفلت بھی واضح ہوتی ہے جو پاور سیکٹر میں ایڈہاک بنیادوں پر کام چلارہی ہے۔ ایک جائزے کے مطابق بجلی کے شعبے کی نگران تینوں بڑی کمپنیوں، سنٹرل پاور جنریشن کمپنی، نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی اور نیشنل پاور کنٹرول سینٹر کے سربراہ کئی سال سے ایڈہاک یا قائم مقام کے طور پر کام کررہے ہیں۔ کوئی مستقل چیف ایگزیکٹو افسر مقرر نہیں کیا گیا۔ اس غفلت کے منفی نتائج سامنے آتے رہتے ہیں جن میں گزشتہ روز کا واقعہ بھی شامل ہے۔ ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات پیش آنے والا واقعہ 2015کے بعد ایسا تیسرا واقعہ ہے جس کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ پروٹیکشن سسٹم کو اپ گریڈ نہیں کیا گیا یا اپ گریڈیشن میں کوئی کمی رہ گئی ہے۔ واقعے کے بعد حکومتی اور اپوزیشن کے ترجمان حسب توقع ایک دوسرے کی خامیوں کی تلاش میں لگ گئے۔ حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ ماضی کی حکومتوں نے بجلی کی پیداوار بڑھانے اور ٹرانسمیشن لائنیں درست کرنے پر توجہ نہیں دی جبکہ اپوزیشن حکومت کی نااہلی اور نالائقی کا پردہ چاک کرتی رہی اس کی بجائے وہ اصلاح احوال کے لئے ایک دوسرے کو قابلِ عمل مشورے دیتے تو اچھا تھا۔ وفاقی وزراء عمرایوب اور شبلی فراز نے یقین دہانی کرائی ہے کہ معاملے کی غیرجانبدارماہرین سے انکوائری کرائی جائے گی جو حقائق سامنے لانے کے حوالے سے صحیح سوچ ہے۔ بجلی اور گیس صنعت وزراعت سمیت ملکی معیشت کا پہیہ چلانے کے علاوہ گھریلو صارفین کی ناگزیر ضرورت ہے۔ گیس کی قلت کے باعث عوام پہلے سے شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ سرد موسم میں بجلی کے بحران نے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ مستزاد یہ کہ حکومت بجلی کے نرخوں میں مسلسل اضافہ کرتی جارہی ہے۔ نیپرا نے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں ایک روپیہ 6پیسے فی یونٹ اضافے کی سمری حکومت کو بھیجی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ملک بھر کے بجلی گھروں اور برآمدی صنعتوں کو درآمدی گیس کی سپلائی بند کردی گئی ہے۔ بجلی کے شعبے میں آرایل این جی کی بندش کے بعد حکومت فرنس آئل اور ڈیزل پر بجلی پیدا کرے گی۔ جس سے اس کے نرخوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ ساتھ ہی ٹیکسٹائل اور دوسری مصنوعات کی پیداوار متاثر ہوگی جس سے ان کی برآمدات میں کمی ہوگی، حکومت کو اس ساری صورتحال پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا بجلی کے نظام میں نئی ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھانا ہوگا۔ٹرانسمیشن سسٹم کے نقائص کو دور کرنا ہوگا اور سستی بجلی پیدا کرنے پر توجہ دینا ہوگی ۔

تازہ ترین