• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بعداز انتخاب ، فقیر پاکستان کے اہل نظر کو پھریاد کرانا ضروری سمجھتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ کی پہلی نصف صدی میں فوجی آمریتوں اور انہیں سہارا دینے کے لیے ہر دم دستیاب یا گھڑے نااہل و خود غرض سیاست دانوں کی گٹھ جوڑ سے جو طاقتور اسٹیٹس کوء وجود میں آیا تھا وہ فقط چٹخا ہے ختم نہیں ہوا۔یا یوں سمجھ لیں کہ یہ میلٹ ہو تا گلیشیرہے جس کے نیچے وہ قیمتی خزانے دفن ہیں جن تک ہمار ی پہنچ پاکستان کو ایک نئے پاکستان میں تبدیل کر دے گی ۔ خاکسار نے جاری ملکی صورت حال کے تناظر میں ، اپنے تین حالیہ کالموں ”چٹختا نظام بد“ (7اپریل)،”’نئی سیاسی قوتوں کی تشکیل کے امکانات“(14اپریل) اور”سٹیٹس کوکی انتہااور تبدیلی کا آغاز۔ ساتھ ساتھ“ (18اپریل )میں مزید واضح کر نے کی کوشش کی ہے ۔ الیکشن13جتنے بھی شفاف یا متنازع ہیں،یہ واضح اشارہ کر گئے کہ پاکستان میں نئی سیاسی قوتوں کی تشکیل کا عمل شروع ہو چکا ہے ۔ انہی میں سے کوئی ملک کو اقبال اور قائد کے تصور پاکستان کی طرف لے جائے گی۔ اسی کی کامیابی نیا پاکستان ہو گا ، جسے پاکستان بنانے والی نسل نے دیکھا نہ آزادی کے بعد چھ نسلوں ( ہر عشرے پر محیط ایک ) نے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 11مئی کے انتخاب کا یہ بڑا فائدہ ہوا کہ سائنٹفک انداز میں یہ حقائق سامنے آ گئے کہ سٹیٹس کوء اپنے وجود کو قائم رکھنے کی کتنی صلاحیت رکھتا ہے اور تبدیلی کی قوت اپنے وجود کو منوانے کی کتنی سکت رکھتی ہے ؟ ماننا ہی ہو گا کہ سٹیٹس کو ء کی منفی قوت اب بھی آخر الذکر سے زیاد ہ ہے ، لیکن اتنی ہر گز نہیں ، جتنی پہلے تھی ، جب ملکی اسٹیبلشمنٹ اس کا حصہ ہو تی ۔ فرق یہ پڑا کہ اب چٹختے سٹیٹس کو ء کو اپنی عمر میں اضافے کے لیے ''انٹر نیشنل اسٹیبلشمنٹ ''کا سہارا لینا پڑا رہا ہے ۔ بیچارا پاکستان ، آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا ۔ یہ کیا نئی بلا ہے ؟ پاکستان کے اہل نظر پر تو واضح ہے ، وقت آنے کو ہے جب گلی محلوں اور گاؤ ں گنواروں پر بھی آشکار ہو جائے گا کہ یہ انٹر نیشنل اسٹیبلشمنٹ اصل میں کیا ہے ؟ پھر انہیں یہ بھی سمجھ آنے لگے گی کہ ہمارے منتخب نمائندوں کو حلقے کی ترقی کے کروڑوں روپے ملنے کے باوجود ، ہم بنیادی سہولتوں سے کیوں محروم رہے ؟ اورہمیں گنوار کا گنوار کیوں رکھا گیا ؟ یہ وہ وقت ہوگا جب سٹیٹس کو ء کی چٹخ، دراڑوں میں تبدیل ہونے لگے گی ۔ ایسے میں ”گنواروں “سے سٹیٹس کو ء کے سیاست دانوں کی مکارانہ محبت کا پردہ چا ک ہو جائے گا۔ ایک اوربڑا سوال یہ ہے کہ جمہوری جذبہ رکھنے والی جس قوم نے اپنی مقدس اسٹیبلشمنٹ کو قومی سیاست سے بالآخر دور کر دیا ، کیا وہ نئی بلا کو طویل عرصے کے لیے گلے لگائے گی ؟ ایک اور سوال یہ ہے کہ جس نئی بلا کا چرچا پاکستانی اہل نظر کی نجی محفلوں میں شروع ہوا ہے ، کیا ملکی اسٹیبلشمنٹ بھی اس کا حصہ ہے ؟ ہے تو کیوں ؟سٹیٹس کو ء کی تشکیل اور استحکام کے دانستہ و غیر دانستہ کارناموں کے باوجود ان کا ملکی مفاد کے تحفظ میں سنجیدہ ہونے کا تقدس تو اب بھی برقرار ہے ۔ پاکستانی عوام نے تو اقتدار کی پانچویں باری جیتنے والی سندھ کارڈ اور ماتمی طاقت کی حامل سابقہ حکمراں جماعت کو تو دھماچوکڑی مچانے کی کھلی چھٹی دی ، ملکی اسٹیبلشمنٹ نے بھی خود پر میڈیا کی تند و تیز تنقید سے بچنے اور امیج کی بحالی کے لیے، اور انٹر نیشنل اسٹیبلشمنٹ کے سرخیلوں کو تو فقط اپنے مفاد کی فکر تھی اور ہے۔ سو،جمہوریت کے علمبردار تقدس مآب ٹولے نے، آئین کی بحالی کی خوشی میں نائیجیریا و صومالیہ ماڈل کی حکومتی کرپشن ، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی متعارف کرادی ۔ لیکن دونوں افریقی ممالک میں گورننس کے یہ تباہ کن ماڈل ڈیڑھ دو عشرے پہلے اختیار کیے گئے تھے ۔ اسٹیٹس کو ء کی اس انتہائی شکل اور اس کے مقابلے قوم کے ایک حصے میں تبدیلی کے ایجنڈے کو سمجھنے کی صلاحیت نے کرپٹ نظام بد کو چٹخا دیا ، لیکن حواریوں کی مزاحمتی فوج نے آئین پاکستان کی جان و روح سے لڑتے بھڑتے اس کے آرٹیکلز کی بھد اڑاتے ایک بار پھر ان جعلی ڈگری ہولڈرز ،ٹیکس چوروں،قرض خوروں اور این آر او زدگان کو اسمبلیوں میں پہنچا ہی دیا ، جن کا تقدس بطور ”سیاست دان“بلا امتیاز جماعت ، یہ پانچ سال تک بڑی محنت سے باندھتے رہے اور انہی کو ایسی ارضی حقیقت ثابت کرتے رہے، جس میں ملک کا جکڑے رہنا جمہوریت کے کھیل کے لیے ناگزیر ہے ۔ جیسے ہماری عدالتیں فوجی ادوار کو نظریہ ضرورت کے تحت ۔اندھا کیا چاہے ،دو آنکھیں۔ اب انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ جو کھیل ہمارے میدان سیاست میں کھیل رہی ہے ، اس کے خلاف مزاحمت تو ہے لیکن اتنی بھی نہیں ۔سو ، اسے اپنا ہدف حاصل کرنا اتنا مشکل بھی نہ ہوا ۔ تبدیلی کی طاقت اتنی ہی ناپختہ ہے، جتنا گھاگ اور طاقتور اسٹیٹس کوء ۔ تبدیلی کی طاقت نے قائدین اور پارٹیوں سے نفرت ، گھروں میں بغاوت اورا سٹیٹس کو ء کے بڈھوں میں گھرے ،اپنی بھد اڑاتے ، سوشل میڈیا سے سیاست سیاست کھیلتے تازہ ذہن بچوں کے جذبے و جنون سے جنم لیا ہے ۔مقابل روایتی سیاست کے ایک سے بڑھ کر ایک حربے ہیں ۔ ناجائز دولت کے انبار اور سب سے بڑھ کر انٹر نیشنل اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی ۔ پھر بھی واشنگٹن کو پیارے ہونے والے ، میمو سکینڈل فیم ہمارے ایک سابق سفیر نے پاکستانی انتخابی نتائج کے تناظر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایک سانس میں دہشت گردی کے حوالے سے جناب میاں نوا ز شریف کے امکانی کردار کو مشکو ک بنا نے کی کوشش کی اور دوسرے سانس میں اس امکان کا اظہار بھی کہ وہ سابق حکمرانوں کے مقابلے میں بہتر ثابت ہوں گے ۔اصل میں میاں نواز شریف کے اور زرداری صاحب کے بھی سابقہ چہیتے نے دونوں آپشن رکھیں ہیں کہ وہ انہیں فیوچر میں اپنی سفارش سے کلیئرنس سرٹیفکیٹ بھی دلوا سکتا ہے اور پھنسا بھی سکتا ہے۔ فقیر کو تو حالیہ انتخابی مہم میں مسلم لیگ ن کا وہ اشتہا ر متاثر کن لگا جس میں پرجوش جلسے سے مخاطب میاں صاحب چند لمحے رک کر حاضرین جلسہ کو اقبال کا یہ شعر پڑھاتے ہیں
اے طائر لاہوتی ، اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
اور گزشتہ سال میاں شہباز شریف کی عوامی رابطہ جلسوں میں وہ تقریریں بھی جس میں وہ قوم کو مسلسل مسلم لیگ ن کے بر سر اقتدار آنے پر کشکول توڑنے کی نوید سناتے رہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ اب وہ قومی معیشت کو Documentedکر کے ، ٹیکس کے نظام کو حقیقی معنوں میں شفا ف بنا کر ، کرپشن کی بیخ کنی ، شاہانہ طرز حکومت ترک، سادگی اختیار کر کے اور قوم کا لوٹا گیا کھربوں روپیہ واپس نکلوا کر معیشت بحال کرتے ہیں یا بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے مفادات پورے کر کے پاکستان پر قرضوں کا بوجھ مزیدچڑھا کر یا زیرے کی سی امیدا کا طوق گلے میں لٹکا کر ، جو وقت کے ساتھ بوجھل بھی ہوتا جائے گا ۔ خدا خیر کرے خبر آئی ہے کہ آئی ایم ایف پھر حکومت پاکستان کو پانچ ارب ڈالر کے قرضے کی پیش کش کرنے کو ہے ۔امریکہ نے ببانگ دہل اعلان کیا ہے کہ وہ ضرورت کے مطابق ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری رکھے گا ۔ مسلم لیگ ن سے زیادہ یہ اور کس پر واضح ہے کہ ڈرون حملوں کے بند کر نے کا مطالبہ فقط عمران خان کا ایجنڈا نہیں، پاکستان کے منتخب ایوان کا متفقہ مطالبہ ہے جس میں نئی حکمراں جماعت نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ دیکھتے ہیں کہ امریکہ جمہوریت کی پٹڑی پرچڑھی پاکستانی قوم کے بنیادی انسانی حقوق کی روشنی میں کیے گئے قومی مطالبے کو کتنی اہمیت دیتا ہے اور ہماری جمہوری حکومت اسے منوانے کی کتنی صلاحیت رکھتی ہے ۔
ایک اورگزارش نئے وزیر اعظم سے کہ آپ اپنی انڈیا پالیسی کا آغاز ضرور کریں ، لیکن اس میں پاکستانی قوم کے وقار اور قومی خودی کا خیال ضرور رکھیں ۔ آپ کے حلف اٹھانے سے بھی پہلے بھارت جانے کی بے تابی کا اظہار پاکستانی عوام کے جذبات کا عکاس نہیں ۔ ہم یہ تو چاہتے ہیں کہ کشمیر اور پانی کے تنازعات بھارت سے جلد از جلد پرامن طریقہ سے حل ہو جائیں کہ خطے کے ڈیڑھ ارب سے زائد عوام یورپی یونین اور آسیان کی طرز پر ایک موثر اور نتیجہ خیز علاقائی تعاون سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے عرصے سے متمنی ہیں ، اس میں پاک بھارت تنازع ہی واحد رکاوٹ ہے ۔ اسے حل کرنے کے لیے میاں صاحب کو پوری قوم کا بھرپور اور فراخ دلانہ تعاون حاصل ہو گا،لیکن تنازعات کی موجودگی میں نئی دہلی کے سامنے بچھ بچھ جانے کا کوئی جواز نہیں کہ پاکستان بھوٹان ہے نہ نیپال۔
تازہ ترین