ایڈزکے وائرس کو طبّی اصطلاح میں ہیومن ایمینو ڈیفی شینسی وائرس (HIV:Human Immunodeficiency Virus)کہا جاتا ہے۔ جب یہ وائرس ایک بار جسم میں داخل ہوجائے تو اس سے چھٹکارا ممکن نہیں کہ یہ بتدریج اپنی تعداد اور تخریب کاری میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ یہ سب سے زیادہ خون کے سفید خلیات کو نقصان پہنچاتا ہے، جس کے نتیجے میں جسم کا دفاعی نظام بے اثر ہوجاتا ہے۔
اصل میں خون میں شامل سفید خلیات، جسم میں داخل ہونے والی کسی بھی مضرِصحت شئے کے خلاف محاذ بناکر اُسے ناکارہ بناتے ہیں، لہٰذا اگر یہ سفید خلیات ختم یا ناکارہ ہوجائیں، تو جسم کی قوّتِ مدافعت بھی ختم ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس خطرناک وائرس کے جسم میں داخل ہونے کے بعد پھر جو بھی بیماری حملہ آور ہو، نہایت سنگین اور مُہلک ثابت ہوتی ہے۔ یوں تو ایڈز کا وائرس خون، جنسی رطوبتوں، تھوک، آنسو، پیشاب اور پسینے میں پایا جاتا ہے، مگر عام طور پر یہ عارضہ جنسی تعلقات اور منتقلیٔ خون کے ذریعے ہی پھیلتا ہے۔
علاوہ ازیں، ایڈز کے وائرس سے متاثرہ سرنجز، بلیڈز، ناک ،کان چھدوانے کے دوران ایسی سوئی یا اوزار کا استعمال،جو جراثیم سے پاک نہ ہو اور دانت نکلوانے یا کسی اور سرجری کے دوران غیر مطہر آلاتِ جرّاحی کا استعمال بھی مرض کے پھیلاؤ کی وجہ بن سکتے ہیں۔ نیز، ایڈز کا وائرس متاثرہ ماں سے بچّے میں بھی حمل کے دوران، زچگی کے وقت یا پیدایش کے بعد منتقل ہو سکتا ہے۔ علامات ظاہر ہونے سے قبل وائرس انسانی جسم میں کئی مہینوں یا برسوں تک خاموشی سے رہ سکتا ہے۔
تشخیص کے لیے خون میں اینٹی باڈیز جانچی جاتی ہیں، لیکن یہ اینٹی باڈیز کسی کو اس مرض میں مبتلا ہونے سے نہیں بچا سکتیں۔ جو فرد ایک بار اس مرض کا شکار ہوجائے، وہ کسی دوسرے صحت مند فرد میں یہ وائرس منتقل کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ واضح رہے، بیماری کے آغاز یا آخری ایّام میں وائرس زیادہ تیزی سے منتقل ہو سکتا ہے۔
ایڈز کی علامات میں مختصر عرصے میں جسم کا وزن دس فی صد سے کم ہونا، ایک ماہ سے زائد عرصے تک اسہال،کھانسی اوربخار رہنا ، ایسا فُلو یا انفلوئنزا ہونا، جو مہینوں تک ٹھیک نہ ہو، شامل ہیں۔
ایچ آئی وی انفیکشن تین مراحل میں منقسم ہے۔ پہلا مرحلہ شدید انفیکشن، دوسرا طبّی تاخیر اور تیسرا ایڈز کاہے۔ ابتدائی مرحلے کو طبّی اصطلاح میں شدید ایچ آئی وی، پرائمری ایچ آئی وی یا ریٹر وائرل سینڈروم کہا جاتا ہے۔اس مرحلے میں بعض مریضوں میں انفلوئنزا جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں،جب کہ بعض میں کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی ۔ لیکن عمومی طور پر بخار، ٹینڈر لمف نوڈز، گلے کی سوزش، خارش، سَر درد، تھکاوٹ اور منہ میں زخم وغیرہ جیسی علامات چوبیس ہفتوں میں ظاہر ہو سکتی ہیں۔
ضروری نہیں کہ تمام مریضوں میں ایک ہی جیسی علامات ظاہر ہوں۔ بعض مریض مختلف انفیکشنز کا شکار ہوجاتے ہیں، تو بعض کو صرف اسہال یا اُلٹیوں کی شکایت ہوتی ہے۔ بعض کیسز میں اعصاب بھی متاثر ہو جاتے ہیں۔ یوں تو مریضوں میں جسم میں وائرس داخل ہونے کے بعد علامات ظاہر ہونے کی مدّت مختلف ہوتی ہے، لیکن عام طور پر ایک یا دو ہفتے بعد علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ زیادہ تر کیسز میں ان علامات کو متعدّی بیماریوں کے طور پر غلط تشخیص کیا جاتا ہے، لہٰذا جب عام علاج سے افاقہ نہ ہو ،تو بہتر ہوگا کہ معالج کے مشورے سے ایچ آئی وی ٹیسٹ کروالیا جائے۔
ایڈز کا دوسرا مرحلہ طبّی تاخیر، کلینکل لیٹینسی(Clinical latency)، اے سیمپٹومیٹک ایچ آئی وی (Asymptomatic HIV) یا دائمی ایچ آئی وی کہلاتا ہے،جو تین سے بیس سال پر(اوسطا آٹھ سال) مشتمل ہوتاہے۔ویسے تو جب مرض ابتدائی مرحلے میں ہو تو چند علامات ظاہر ہوتی ہیں اور بعض کیسز میں نہیں بھی ہوتیں، لیکن اس مرحلے کے اختتام کے قریب کئی مریض بخار، وزن میں کمی، معدے کی تکالیف اور پٹّھوں میں درد کی تکلیف میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ستّر فی صد مریضوں میں لمف نوڈزکی علامات ظاہر ہوتی ہیں اور لمف نوڈزکے ایک سے زیادہ گروہوں میں تین سے چھے ماہ کے دوران غیر واضح اور بغیرکسی تکلیف کےسُوجن ہوجاتی ہے۔
تیسرا مرحلہ ایڈز کا ہے ۔اگر دوسرے مرحلے میں بروقت اور مناسب علاج نہ کیا جائے، تو اگلے دس سال کے دوران لگ بھگ پچاس فی صد مریض ایڈز میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ایڈز کی ابتدائی علامات میں نمونیا اہم ترین علامت مانی جاتی ہےکہ اس وجہ سے مریض بار بار پھیپھڑوں کے انفیکشن کا شکار ہوتے ہیں۔پھر جسم کادفاعی نظام غیر فعال ہوجانے کے باعث مختلف بیکٹریا، وائرس، فنگس اور پیراسائٹس بھی اپنا نشانہ بنا لیتے ہیں۔ایڈز کا عارضہ مریض کو بیک وقت کئی ایسی بیماریوں میں مبتلا کردیتا ہے،جو علاج کے باوجود پیچھا نہیں چھوڑتیں۔
ایچ آئی وی سے متاثرہ مریضوں میں سب سے عام جِلدکا سرطان ہے، جسے طبّی اصطلاح میں Kaposi Sarcoma کہا جاتا ہے،جو دس تا پندرہ فی صد مریضوںمیں پایا جاتا ہے،جب کہ16فی صد مریضوں میں Non-Hodgkin lymphoma سرطان موت کا سبب بنتا ہے۔ خواتین میں رحم کے سرطان (Cervical cancer)کے امکانات بڑھ جاتے ہیں،جس کا سبب عام طور پرPapilloma Virusبنتاہے۔
نیز، پلکوں اور آنکھوں کے سفید حصّےSclera کا سرطان بھی عام ہے۔ مزید برآں، ایڈز کی کئی اور بھی اضافی علامات ہیں۔ جیسے طویل مدّت کا بخار، زائد پسینہ آنا، خاص طور پر رات کے وقت، لمف نوڈز کی سُوجن، سردی لگنا، کم زوری اور وزن میں کمی وغیرہ۔اسہال ایک عام علامت ہے، جب کہ مختلف نفسیاتی اور اعصابی علامات بھی ظاہر ہو سکتی ہیں۔
زندگی اللہ تعالیٰ کی اَن مول نعمت ہے،جس کی بہت قدرکرنی چاہیے۔ ایڈز جیسے مہلک مرض سے محفوظ رہنے کے لیے جنسی تعلقات میں احتیاط برتیں۔ اگر انجیکشن لگوانا ضروری ہو، تو ہمیشہ نئی سرنج کے استعمال پر اصرار کریں۔ خون کا عطیہ لینے سے پہلے ایچ آئی وی اسکریننگ کروائیں۔ ناک، کان چھدواتے ہوئے اچھی طرح تسلی کرلیں کہ اوزار ڈسپوزایبل اور جراثیم سے پاک ہوں۔
اِسی طرح حجّام کو ہمیشہ نیا بلیڈ استعمال کرنے کا کہا جائے۔ ایک مریض کے لیے استعمال کی جانے والی کٹ دوبارہ استعمال کرنے سے قبل اسے جراثیم سے پاک کیا جاتا ہے، لہٰذا آلاتِ جرّاحی کے صاف ستھرا ہونے کی تسلّی بھی ضروری ہے۔ ایڈز سے متاثرہ مریضوں کے علاج معالجے میں سب سے بڑی رکاوٹ معاشرتی رویّے ہیں، جن کی اصلاح ناگزیر ہے،کیوں کہ اس مرض سے متعلق جو تصوّرات و توہمات عام ہیں، اُن کی وجہ سے مریض اپنا مرض چُھپاتے ہیں، جو نہ صرف ان کے لیے، بلکہ دیگر افراد کے لیے بھی خطرے کا باعث بن جاتا ہے۔
اگرچہ آج سے دو ڈھائی عشرے قبل تک ایڈز ایک لاعلاج مرض تھا، لیکن اب اتنی بہتری ضرور آئی ہے کہ اس کی پیچیدگیاں کنٹرول کرنے کے لیے ادویہ دستیاب ہیں اور ایچ آئی وی سے متاثرہ مریض بھی بلڈپریشر اور ذیابطیس کے مریضوں کی طرح ادویہ کے مسلسل استعمال سے ایک بہتر زندگی گزار سکتے ہیں، لیکن اس مرض کا تاحال کوئی مستقل علاج دریافت نہیں ہوسکا ہے۔
حالاں کہ ویکسین کی آزمایش خاصی حد تک کام یاب رہی ہے، مگر یہ ابھی تحقیقی اور تجرباتی مراحل میں ہے۔ مریضوں کے لیے وٹامن اے، زنک اور آئرن کا استعمال خطرناک ثابت ہوسکتا ہے، لہٰذا ان کا استعمال شدید ضرورت کے علاوہ نہ کریں۔ اَلبتہ فوڈ سیپلیمنٹس فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں کہ ان کے استعمال سے قوّتِ مدافعت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
مضمون نویس معالجین توجّہ فرمائیں!!
سنڈے میگزین کے سلسلے’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں لکھنے کے شائق معالجین سے درخواست ہے کہ اپنے مضامین کے ساتھ، اپنی پاسپورٹ سائز واضح تصاویر بھیجیں اور مکمل تعارف اور رابطہ نمبر بھی لازماً تحریر کریں۔ ہماری پوری کوشش ہے کہ اس سلسلے کے ذریعےقارئین کو مختلف امراض اور عوارض سے متعلق جس قدر بہترین، جامع اور درست معلومات فراہم کرسکتے ہیں، ضرور کریں،مگر بعض اوقات ڈاک سے موصول ہونے والی کچھ تحریروں میں لکھی جانے والی مخصوص طبّی معلومات یا کسی ابہام کی تصحیح یا درستی کے لیے مضمون نگار سے براہِ راست رابطہ ضروری ہوجاتا ہے، لہٰذا تمام مضمون نویس اپنی ہر تحریر کے ساتھ رابطہ نمبر ضرور درج کریں۔اپنی تحریریں اس پتے پر ارسال فرمائیں۔
…………………………………………
ایڈیٹر، سنڈے میگزین،صفحہ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘روزنامہ جنگ، شعبۂ میگزین،اخبار منزل، آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی۔
…………………………………………
ای میل: sundaymagazine@janggroup.com.pk