تحریک انصاف حکومت اور مختلف اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے درمیاں آنکھ مچھولی کاسلسلہ جاری ہے ،وزیر اعظم اور حکومتی وزرائ سرکاری تقاریب اوراجتمامات میں پی ڈی ایم رہنمائوں پر شدید تنقیدکاموقع ہاتھ سےجانے نہیں دیتےتو پی ڈی ایم پر وگرام کے مطابق حکومت مخالف اجتجاجی تحریک میں حکومت کو کچا چھٹانکالنے سے گریز نہیں کرتا،تاہم اب یہ بات طے ہوچکی ہےکہ حکومت اور پی ڈی ایم کے درمیاں آنکھ مچولی کا یہ سلسلہ ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی بعض خالی نشستوں پر ہونےوالے ضمنی انتخابات اورخصوصاًسینٹ کے آنے والے انتخابات تک جاری رہے گا اور کم از کم مارچ تک پی ڈی ایم کی جانب سے حکومت کے خلاف کسی قسم کے فیصلہ کن اجتجاج کی کا کوئی امکان نہیں ،سینٹ انتخابات کے باعث پی ڈی ایم پارلیمنٹ سے استعفوں کو فیصلہ موخر کرچکی ہےجس کی وجہ سے پی ڈی ایم کو خاصی تنقید اور کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
مگر اس کے باوجود پی ڈی ایم کی جانب سے حکومت کے خلاف مرحلہ وار احتجاجی تحریک کا سلسلہ ہنوز جاری ہے جس کےپہلے مرحلے میں تمام صوبائی ہیڈکوارٹر میں احتجاجی جلسوں کے بعد اب احتجاجی تحریک دوسرے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے جس کے تحت ملک بھرمیں ڈویژنل سطح پرحکومت مخالف احتجاجی جلسوں کا آغاز کیا گیاہے،اس سلسلےمیںپاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ بنوں میں جلسہ منعقد کرکے بھرپور طاقت کا مظاہرہ کیا اور حکومت اور وزیراعظم کو آڑے ہاتھوں لیا، جلسے میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی ۔
پی ڈی ایم کے مرکزی رہنما اورجمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے جلسے سے اپنی خطاب میںکہا کہ بنوں کے عوام نے جلسے کوکامیاب بناکر نااہل اور نالائق حکومت کے خلاف فیصلہ دے دیاہے۔انہوں نے اعلان کیا کہ21 جنوری کو کراچی میں اسرائیل نامنظور ملین مارچ کریں گے۔کیونکہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور اب کسی طاقتور ملک کی کالونی بن کر نہیں رہ سکتے۔
جلسے سے (ن) لیگ سمیت عوامی نیشنل پارٹی،قومی وطن پارٹی اور پی ڈی ایم میں شامل دیگر اتحادی جماعتوں کے قائدین نے بھی خطاب کیا اور حکومتی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی ۔اسی قسم کی تنقید پختون تحفظ موومنٹ کے احتجاج کے دوران میں بھی دیکھنے میں آیا جس پر پی ٹی ایم کے متعدد کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا ان جن میں سرفہرست پی ٹی ایم کے متحرک رکن ڈاکٹر سید عالم محسود بھی شامل ہیں جنہیں پشاور میں انکی رہائش گاہ سے حراست میں لیا گیا ۔
ان گرفتاریوں کی وجہ سے اب پشاور میں آئے روز احتجاجی مظاہرے کئے جا رہے ہیں شہر کی واحد مرکزی شاہراہ کو بند کرکے عوام کو اذیت دی جارہی ہے۔ جبکہ دوسری جانب حکومتی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے روز بہ روز مہنگائی کی دلدل میں پھنستے جارہے ہیں ڈھائی سال سے حکومت ایک ہی نعرہ لگارہی ہے کہ لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے لیکن آج تک کسی ایک بھی سیاستدان یا بیوروکریٹ سے ایک پائی تک کی ریکوری نہ ہوسکی۔
الٹا ان مقدمات پر غریب عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والےکروڑوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں جبکہ انہی نعروں اور دعووں کی وجہ سے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری بھی رک گئی۔ بالخصوص خیبر پختونخوا میں سات سال سے جن صنعتی زونزکے قیام کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہےا بھی تک ان میں ایک فیصد بھی پیش رفت سامنے نہیں آئی البتہ ان زونز کے نام پر قائم اداروںمیں سینکڑوںکی تعداد میں منظور نظر افراد کو بھرتی کرکے انہیں سرکاری خزانے سے نوازا جارہا ہے بجلی ،گیس اور تیل کی پیداوار اور صوبے کی آمدنی میں اضافے کے دعووں کے باوجود صوبے کے عوام کی مشکلات میں کمی دیکھنے میں نہیں آئی اور نہ ہی ترقی کا پہیہ چل سکا ہے،جس کا اندازہ صوبے کے رواں مالی سال2020-21کے ترقی بجٹ پر ڈال کر کیا جاسکتا ہے جس میں چھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ گذرنے کے باوجود صوبے کے بنیادی مسائل جوں کے توں ہیں۔
اس عرصے میں جہاں امن و امان کی صورتحال میں کوئی نمایاں بہتری نظر نہیں آئی،بلکہ اس کے برعکس ٹارگٹ کلنگ اور باالخصوص بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا جارہا ہے، وہاں مہنگائی کا جن بھی ابھی تک بوتل میں بند نہیں کیاجاسکا، اس حوالے سے ضلعی انتظامیہ اور محکمہ خوراک کے حکام محض خانہ پوری کرنے اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے سے آگے نہ بڑھ سکے، یہی وجہ ہے رواں مالی سال کی پہلی ششہ ماہی گزرنے کے باوجود تاحال صوبے میںکوئی نئے میگا ترقیاتی منصوبے کی منظوری دی جاسکی ہے نہ کسی بڑے منصوبے کا آغاز کیا جاسکا ہے۔
نیب کی جانب سے متعد د بار وضاحت پیش کرنے اور افسران پر ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے ہاتھ نہ ڈا لنے کی یقین دہانیوں کے باوجود بیورو کریسی کسی بڑے منصوبے یا اس کے لئے بڑی رقم کی منظوری یاجاری کرنے کی ذمہ داری لینے کےلئے تیار نظر نہیں آتی جس کی وجہ صوبے میں ترقیاتی امور ٹھپ ہوکر رہ گئے ہیں ، صوبے میں ترقی کی رفتار کا یہ عالم ہے کہ رواںمالی سال کے ترقیاتی پروگرام کے تحت چھ ماہ جاری ہونے والے ترقیاتی فنڈز کاصرف چودہ فیصد رقم ہی خرچ کی جاسکی ہے،باالخصوص صوبے میں ضم ہونےوالے قبائلی اضلاع میں تو بعض ایسے محکمے بھی ہیں جنہوں نے چھ ماہ کے دوران ایک روپے بھی خرچ نہیں کیا ۔اسی طرح ضلعی سالانہ ترقیاتی پروگرام میں بندو بستی اضلاع کی انتظامیہ جاری ہونےوالے 44ارب روپے میں سے صرف چار ارب اور ضم شدہ قبائلی اضلاع کیلئے جاری ہونےوالے 10ارب روپے میں سے ایک روپے بھی خرچ نہ ہوسکا ۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبے کے 316ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ میں چھ ماہ کے دوران 128 ارب 53کروڑ روپے کے فنڈز جاری کئے گئے ہیں اس جاری کردہ رقم میں سے چھ ماہ کے دوران صرف46ارب 53کروڑ روپے خرچ کئے جاسکے یعنی کہ چھ ماہ کے دوران جاری کردہ رقم میں سے صرف 14فیصد رقم خرچ کئے جاسکے ، اسی طرح صوبائی اور وفاقی حکومت ضم شدہ قبائلی اضلاع کی تیز ترین ترقی کے دعوے بھی غلط ثابت ہورہے ہیں مالی سال2020-21کے سالانہ ترقیاتی بجٹ میں ضم شدہ قبائلی اضلاع کیلئے مختص 95ارب روپے میں سے40ارب 94 کروڑ روپے جاری کئے گئے ہیں جس میں صرف 10 ارب 53کروڑ روپے خرچ کئے جاسکے ۔ اس صورت حال کی وجہ سے جہاں ترقیاتی عمل سست روی کا شکار ہے وہاں عوامی مسائل کے حل کے حوالے سے حکومتی دعووں میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آتی جبکہ عوام کی مشکلات میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے ۔