مچھ کے سانحہ نے گزشتہ ہفتہ پورے ملک کو ایک ایسے دکھ اور اضطراب میں مبتلا کئے رکھا کہ بظاہر یوں لگتا تھا کہ جیسے اس تاریک رات کی صبح جس میں گیارہ میتیں سٹرکوں پر رکھ کر ان کے ورثا احتجاج کررہے ہیں ،کبھی طلوع نہیں ہوگی،پھر جس طرح اس سانحہ کی وجہ سے شہرشہراحتجاجی دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوا،اس نے پورے ملک کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔
دوسرے بڑے شہروں کی طرح ملتان میں شہر کے تین اہم علاقوں میں مجلس وحدت مسلمین ،شیعہ علمائے کونسل کے زیر اہتمام دھرنے دیئے گئے ،سٹرکیں بند ہوگئیں ،زندگی رک گئی اور یہ سلسلہ ہر نئے دن کے ساتھ زیادہ شدت اختیار کرتا گیا ،مچھ کے سانحہ کی وجہ سے جو احتجاج شروع ہوا ،اس نے حکومتی حکمت عملی کا بھی بھانڈا پھوڑ کر رکھ دیا ،اتنے بڑے واقعہ پر حکومت نے آغاز میں جو بے تدبیری ،بے حسی اور غفلت اختیار کی ،اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کوئٹہ سے احتجاج نکل کر پورے ملک میں پھیل گیا ،ایک وقت تو ایسا آیا کہ جب حکومت کے بھی ہاتھ پاؤں پھول گئے اور اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس بڑھتے ہوئے انتشارکو اب کیسے روکنا ہے ،محاورہ ہے کہ وقت پر لگایا گیا ایک ٹانکہ،آنے والے وقت کے سو ٹانکوں سے بچا لیتا ہے۔
اگر سانحہ کے پہلے دن ہی حکومت فوری ردعمل کا اظہار کرتی اور وزیرداخلہ شیخ رشید احمد اسی دن کوئٹہ پہنچ جاتے ،تو یہ معاملہ شاید یہ رخ اختیار نہ کرتا ،کیونکہ پہلے دن جب شہداء کے ورثا نے ان کے جسد خاکی وصول کئے ،تو انہیں دفنانے کے لئے تمام تیاریاں مکمل تھیں ،مگر جب حکومت کی طرف سے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا گیا اور ورثا سے کسی ذمہ دار حکومتی شخصیت نے ملاقات نہیں کی اور ان دنوں بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال بھی بیرون ملک گئے ہوئے تھے ،جس کی وجہ سے صوبائی حکومت بھی زیادہ فعال نظر نہ آئی ، تو ردعمل کے طور پر شہداء کے ورثا اور ہزارہ برادری کے لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وزیراعظم کے آنے تک میتوں کی تدفین نہیں کی جائے گی۔
ملتان میں مخدوم جاوید ہاشمی نے سانحہ مچھ کے حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے حکومت پر کڑی تنقید کی ،ان کا کہناتھا کہ وزیراعظم عمران خان میں سیاسی سوجھ بوجھ کی انتہائی کمی ہے اور وہ معاملات کی نزاکت کو سمجھنے سے قاصر ہیں ،انہوں نے سانحہ مچھ کے شہداء کے ورثاکو بلیک میلرکہہ کرجس طرح ان کی دل آزاری کی ہے ،ایسے کوئی بھی سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص نہیں کرسکتا ،عمران خان کو پہلی فرصت میں کوئٹہ جاکرمظلوموں کے زخموں پر نمک رکھنا چاہئے تھا ،مگر اس کی بجائے انہوں نے اسے اپنی انا کامسئلہ بنایا ،جس کی وجہ سے ملک میں ایک اضطراب و انتشار کی صورتحال پیدا ہوئی ،معیشت کو نقصان پہنچا ،بازار ،مارکیٹیں بند ہوئیں ،فلائٹس نہ چل سکیں اور ایک معاملہ جو حکومت کی بروقت توجہ سے حل ہوسکتا تھا۔
اسے پیچیدہ بنادیا گیا ،مخدوم جاوید ہاشمی نے ملتان میں ہونے والے دھرنے میں بھی شرکت کی اور وہاں بھی انہوں نے دھرنے کے شرکاء سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہزارہ برادری کے افراد کے ساتھ ہونے والے ظلم پر پوری قوم ان کے ساتھ ہے ،حکومت کو بھی ان کی مدد کے لئے جانا چاہئے ،تاکہ آئندہ ایسے واقعات رونما نہ ہوسکیں ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ لاہور میں گورنر ہاؤس کے سامنے ہونے والے احتجاجی دھرنے میں گورنر پنجاب شرکت کے لئے پہنچ گئے تھے اور انہوں نے اظہار یک جہتی کرتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا تھا کہ حکومت مظلوموں کے ساتھ ہے اور اس سلسلہ میں کسی غفلت کا مظاہرہ نہیں کرے گی۔
مگر ملتان میں تین جگہوں پر دھرنے جاری رہے ،لیکن تحریک انصاف کے کسی رکن اسمبلی نے وہاں پہنچ کر یہ احساس نہیں دلایا کہ حکومت ان کے ساتھ کھڑی ہے ۔ دوسری طرف ملتان میں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو پوری طرح فعال کرنے کی نوید دی گئی ہے اور کہا جارہا ہے کہ علیحدہ سیکرٹریٹ کے لئے تمام تر انتظامات مکمل کرلئے گئے ہیں اور وزیراعظم عمران خان ،وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ہمراہ جلد ہی اس کا باقاعدہ افتتاح کریں گے ،ایڈیشنل چیف سیکرٹری نے گزشتہ دنوں ملتان کے اراکین اسمبلی کی مختلف محکموں کے تعینات ہونے والے سیکرٹریوں سے ایک جامع ملاقات بھی کرائی ،جس میں انہیں بتایا گیا کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ ایک فعال سیکرٹریٹ کے طور پر کام کرے گا اور جنوبی پنجاب کے مسائل یہیں حل ہوں گے۔
یہ ایک اہم پیشرفت ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ اگلے چنددنوں میں علیحدہ سیکرٹریٹ اپنے پورے اختیارات کے ساتھ کام شروع کردے گا ،ادھر یہ بھی کہا گیا ہے کہ جنوبی پنجاب میں اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبے اس سیکرٹریٹ کی نگرانی میں مکمل کئے جائیں گے ،صرف ڈیرہ غازی خان کے لئے 39 ارب 38 کروڑ روپے کی لاگت سے 1648 منصوبوں پر کام جاری ہے ،اس سلسلہ میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری نے ڈیرہ غازی خان کے ارکان اسمبلی سے بھی ملاقات کی اور انہیں اس کی تفصیل سے آگاہ کیا ،اگر یہ صورتحال واقعی ہی اس انداز سے آگے بڑھ رہی ہے ،تو لگتا ہے کہ معاملات درست سمت کی طرف جارہے ہیں کیونکہ ابھی تک یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو وسائل اور اختیارات نہیں دیئے جارہے ،جس کی وجہ سے یہ معاملہ مذاق بن کررہ گیا ہے۔
مگر اب لگتا ہے کہ حکومت نئے سال میں اس سیکرٹریٹ کو پورے طور پر فعال کرنا چاہتی ہے اور یہاں ہونے والے تمام تر ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی و منظوری کا اختیار بھی یہاں تعینات ہونے والے افسران کو دینے کی منظوری دے دی گئی ہے،یادرہے کہ تحریک انصاف نے اپنی انتخابی مہم میں جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کا اعلان کیا تھا اور اس سلسلہ میں ایک صوبہ محاذ بھی بنایا گیا تھا ،جس نے تحریک انصاف میں شامل ہونے کے بعد یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ 100 دن کے عرصہ میں علیحدہ صوبہ کے لئے تمام تر اقدامات مکمل کرلئے جائیں گے۔
مگر ایسا نہ ہوسکا اور تین سال گزرنے کو آئے ہیں ،صوبہ تو رہا ایک طرف جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی فعالیت بھی ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے مگر اب کچھ ایسے آثار نظرآرہے ہیں کہ جس سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کام کرنے جارہا ہے اور یہاں تعینات ہونے والے افسران کو بالآخر ان کے اختیارات سونپ دیئے گئے ہیں۔