• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکرفردا…راجہ اکبردادخان
سانحہ مچھ میں ہزارہ برادری کے بے گناہ لوگ شہید کردیئے گئے،یہ ملکی تاریخ کا ایک درد ناک واقعہ ہے جس کو پرنٹ اور ایکٹرانک میڈیا میں وسیع کوریج ملتی رہی، وزیراعظم پاکستان عمران خان اگر حالات معمول کے مطابق ہوتے تو یقیناً فوری طور پر کوئٹہ پہنچ جاتے اور شہداء کے لواحقین سے جلد اظہار تعزیت بھی کرتے ،گذشتہ دو ماہ میں دو درجن سے زیادہ سیکورٹی اہلکارملکی سلامتی محفوظ بناتے ہوئے جام شہادت نوش کرچکے ہیں اور ملک دشمن طاقتوں کی یہ حرکات جنہیں غیر ملکی امداد مل رہی ہے نئی نہیں ہیں اور بلوچستان میں ایسی پر تشدد کارروائیوں کے ذریعہ ملک بھر کو عدم استحکام کا شکار کیا جارہا ہے چند ہفتے قبل ہی وزیراعظم نے کہا تھاکہ بھارت پاکستان میں فرقہ واریت پھیلانے کیلئے اقدامات کرنے کا تہیہ کئے ہوئے ہے ،ہزارہ برادری کے شہداء کا قتل اسی بھیانک منصوبہ کا حصہ لگتا ہے، واضح ہوتا ہے کہ ہمارےپاس مستند اطلاعات موجود تھیں کہ ہمارے دشمنوں کے ارادے اچھے نہیں تاہم ہم حساس جگہوں اور کمیونٹیز کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے، یہ افسوسناک نااہلی ہے، بالخصوص جب ہر کسی کو علم تھا کہ ہماری کوئٹہ کی ہزارہ برادری پہلے بھی ایسے جان لیوا حملوں کا نشانہ بن چکی ہے، نیشنل ایکشن پلان موجود ہونے کے باوجود اس پرعمل نہیں ہورہا،اس افسوسناک واقعہ کے بعد اہم عہدوں پر بیٹھے افراد کو ہٹا دینامسئلہ کا حل نہیں ہے، بلوچستان کے انسداد ہشت گردی ڈھانچہ میں فرض شناس افراد کا تقرر اور مقامی ناراضگی کی وجوہات کم کرنا ایسےپہلو ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، یہاں کئی پی ڈی ایم رہنما اس میڈیا بیانیہ کا حصہ بنے دکھائی دیئے جو وزیراعظم کو کوئٹہ جاکر لواحقین سے اظہار ہمدردی کا درس دے رہا تھا، وزیراعظم اپنی روزانہ کی مصروفیات کس طرح طے کرتے ہیں اور ان کے پاس صلاح کاروں کی بھی کمی نہیں، ان پر ہی چھوڑ دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے، شہداء کی میتوں پر سیاست کرنے سے پی ڈی ایم کا نہ ہی قد کاٹھ بہتر ہوا اور نہ ہی ان کے بیانیہ کو تقویت ملی،اسلام میں مرحومین کیلئے جلد تدفین کے احکامات بھی ہیں جس پر عمل نہیں ہوا،کوئٹہ کا یہ واقعہ اپنےاندر کی پہلو سمائے بیٹھا ہے، یہ دہشت گردی کا معاملہ بھی ہے،سنی ، شیعہ فسادات کروانے کی ایک سازش بھی ہے، صوبہ کی امن و امان کی صورتحال سے جڑا معاملہ بھی ہے اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی ایک کوشش بھی ہے، غور کرنے سے مزید کئی پہلو سامنے آجائیں گے اور عمران خان کو ان تمام حوالوں سے مختلف بریفنگز لے کر ہی فیصلہ کرنا تھا کہ کوئٹہ جانے کیلئے کون سا وقت موزوں ہوگا، چند وزراء پہلے دو دنوں ہی میں کوئٹہ پہنچ چکے تھے اور ماسوائے صوبائی حکومت ختم کرنے کے ورثا کے تمام مطالبات تسلیم کرلئے گئے تھے،وزیر اعظم کا تمام صورتحال کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد کوئٹہ جانے کا فیصلہ جس میں مجبوریوں کی بنا پرکچھ وقت لگا،درست فیصلہ تھا، بلوچستان میں جہاں پاکستان دشمن قوتیں ملک کے خلاف کام کررہی ہیں، وہاں بلوچ عوام کی محرومیاں کم کرنے میں تمام متعلقہ اداروں کو اکٹھے ہوکر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان میں حکومت کرنے والے لوگوں کی اکثریت کا تعلق صوبہ کی نوجوان نسل سے ہے جو ایک مثبت تبدیلی ہے تاہم اہم سرداروں کے صوبہ کی سیاست میں عمل دخل کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، نیشنل ایکشن پلان جس کے تحت دہشت گردی سے نمٹنا مقصودہو، ان فورسز میں سرداروں کے تجربہ سے فائدہ اٹھانے میں بھی کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے، بلوچستان ایک بار پھر دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے،پی ڈی ایم قائدین کوئٹہ کے دورہ کے موقع پر اگر اس دہشت گردی کی مذمت کردیتے تو یہ پاکستان کیلئے سود مند ہوتا مگر ایسا نہیں ہوسکا، بلوچستان ایک حساس صوبہ ہے جہاں ملک دشمن عناصر منظم اور فعال ہیں، ذرائع کے مطابق پچھلے کئی برسوں سے مالی اعتبار سے صوبہ کو بھاری مالی امداد دی جارہی ہے تاکہ عوام کی نچلی ترین سطح پر لوگوں کی زندگیاں بہتر کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جاسکیں، جب لوگوں کو روزگار ملنا شروع ہوجائے گا، تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اپنی تعلیم کے مطابق ملازمتیں ملنی شروع ہوجائیں گی، جب ہسپتالوں اورتعلیم میں بہتریاں نظرآنا لگ جائیں گی تو ایسے حکومتی اقدامات کے نتیجہ میں مصروف نوجوان کیلئے ملک دشمن پروپیگنڈےسے متاثر ہونا ممکن نہیں رہ جائے گا، صوبائی حکومت کو عسکری قوتوں کے اشتراک سے نوجوانوں کو شامل کرنے کے منصوبہ جات شروع کرنے چاہئیں، ہماری حکومت اور اپوزیشن اگر متحد شکل میں اس اندوہناک واقعہ پر بلوچستان میں سامنے آتیں تو ایک متحد پاکستان کا پیغام ہمارے مخالفین کیلئے اچھی خبر نہ ہوتی، برطانیہ میں سنگین کورونا صورتحال کے پیش نظر وزیراعظم کی طرح قائد حزب اختلاف سرکیئر سٹارمر نے بھی برطانوی ٹی وی پر جاکر لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ قوانین پر عمل کریں تاکہ اموات کی تعداد میں کمی آسکے، یہی فرق ہے سیاست کو عوامی خدمت کا ذریعہ سمجھنے اور سیاست کے نام پرذاتی نمود کی کاوشوں میں اللہ پاکستانی قیادت کے تمام اہم کرداروں کو بہتراور مستحکم پاکستان کیلئےمل کر کام کرنے کی توفیق دے۔
تازہ ترین