لاہور (وقائع نگار خصوصی) سول جج ساہیوال اور اسسٹنٹ کمشنر تنازع کیس میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس قاسم خان نے چیئرمین پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔عدالت نے آئندہ سماعت پر صوبہ بھر کے کمشنر اور چیف سیکریٹریز کو بھی عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا،عدالت کے روبرو سردار فرحت منظور خان چانڈیو اور ایڈووکیٹ محمد شبیر حسین نے دلائل دئیے، چیف جسٹس نے سرکاری وکیل سے استفسار عدلیہ کے بارے میں جو فقرہ لکھا گیا ہے کیا وہ درست ہے؟ پیمرا سے تصدیق کرکے رپورٹ دیں کہ احتجاج کرنے والے کون تھے اور بینرز اٹھانے والے ملازمین کی تصویریں درکار ہیں ، پیمرا نے غلط خبر چلانے پر چینلز کے خلاف کیا کارروائی ہے؟ جس کے جواب میں سرکاری وکیل نے بتایا کہ پیمرا نے ایسے چینلوں کو شوکاز نوٹس جاری کیے ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ اس کے باوجود اس معاملے پر چینلز پر پروگرام ہوئے ہیں، جس پر سرکاری وکیل نے کہا کہ نوٹس کے ذریعے چینلز کو ذاتی شنوائی کا موقع دیا ہے،چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ یہ جو چینلز پر بیٹھ کر تبصرے کرتے ہیں ان کو قانون کا پتا ہی نہیں ہوتا، تبصرہ کرنیوالوں کو پتہ ہی نہیں ہوتا کس نقطے پر اعلیٰ عدلیہ کے کون سے فیصلے آئے ہیں، پیمرا میں 2011 کے جاری کردہ نوٹس زیر التوا پڑے ہیں، جو سیاسی لیڈر چاہتا ہے وہ انٹرویوز میں عدلیہ بارے میں جو چاہے کہہ دیتا ہے، پتا کریں ایک چینل کے پروگرام میں کہا گیا کہ تھپڑ مارنے والے کو عدلیہ میں سزا نہیں ہوتی، ان مطلق العنان جاہلوں کو پتہ ہی نہیں کہ سزا قانون کے تحت دی جاتی ہے عدالت از خود نہیں دیتی، چیئرمین پیمرا کو طلب کر لیتے ہیں وہ ان سارے معاملات پر بتائیں گے،چیف جسٹس نے کہا کہ سرکاری ملازمین کے احتجاج بارے ٹرانسکرپٹ اور دیگر مواد مانگا تھا، جس پر سرکاری وکیل نے کہا کہ تمام افسران اور ملازمین نے جواب دیا کہ انہوں نے ہڑتال نہیں کی کام کیا ہے اور میڈیا پر غلط خبریں چلائی گئیں تھیں،چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے اسسٹنٹ کمشنر ساہیوال سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے کہا تھا کہ آپ عدالتوں کو بند کر دیں گے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں ایسی جرات نہیں کرسکتا اور نہ سوچ سکتا ہوں۔