• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی گزارنے کے بھی اُصول ہوتے ہیں اگر ان کے مطابق بسرکی جائے ایک توازن قائم رہےگا۔ اگر توازن بگڑجائے گا تو زندگی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہے۔ فن یہ نہیں کہ زندگی بس گزار لی جائے، بلکہ فن تو یہ ہے کہ زندگی کو اس کی اصل حقیقت کے مطابق سمجھ کر گزارا جائے۔ نظم و ضبط کے بغیر زندگی غیر متوازن اور بے ترتیب ہوجاتی ہے۔اسلام میں بھی نظم و ضبط، اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ 

قوموں کی بقاء اور ارتقا کےلئے نظم و ضبط کا ہونا لازمی ہے۔یہ ایک ایسا عمل ہے جو انسان کی زندگی بااصول اور منظم بناتا ہے، صفائی و ستھرائی اور تزئین و آرائش سکھاتا ہے۔ زندگی کوپرسکون، کامیاب بنانے اور مطلوبہ نتائج کے حصول میں کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن ہماری نوجوان نسل اس کو اہمیت نہیںدیتے،اگر ہم اُن کی روزمرہ زندگی پر نظر ڈالیں تو ان میں منصوبہ بندی کا فقدان نظر آتا ہے۔

آج کے نوجوان وہ بے ترتیب اور غیر متوازن زندگی بسر کر رہے ہیں ،جس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ان کو سوشل میڈیا نے اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے۔ان کے دائرے میں ہی ان کی زندگی گھومتی ہے۔ فیس بک، واٹس ایپ، انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور دیگر دوسری چیزوں نے دن ، رات کی تفریق ختم کردی ہے۔رات کو دیر تک جاگتے اور صبح دیر تک سوتےرہتےہیں جس کی وجہ سے روزمرہ زندگی کے معمولات بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔

کورونا کے باعث تعلیمی اداروں کی طویل بندش نے نوجوانوں کو بالکل بے فکر اور غیر متوازن کردیا ہے۔ اب رات دیر تک جاگنا فیشن اور اسٹیٹس سمبل بن گیا ہے۔ اس کے منفی اثرات نہ صرف تعلیم بلکہ صحت، رویوں اور باہمی تعلقات پر بھی پڑ رہے ہیں۔ اسمارٹ موبائل فون کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے نوجوان نسل اپنے مستقبل سے غافل ہوگئی ہے۔ کسی بھی چیز کی زیادتی زندگی کو مفلوج کردیتی ہے ۔ جس کے منفی اثرات آہستہ آہستہ رونما ہوتے ہیں۔

نظم و ضبط پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے نوجوانوں میں عدم برداشت، عدم تحفظ ، غصہ اور جذباتی سوچ کا غلبہ طاری ہوتا جارہاہے۔ آئے دن میڈیا پر خبریں زیرگردش رہتی ہیں کہ اولاد کا بوڑھے والدین کے ساتھ بدسلوکی اور نافرمانی،طلبا کااستادپر تشدد ، منشیات کا استعمال، بڑوں کا ادب و احترام نہ کرنا وغیرہ اس کے علاوہ نوجوان ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب بھی ہورہےہیں۔ سائلنسر نکال کر تیز رفتاری سے موٹرسائیکل چلانے کو اپنا شعار بنا لیا ہے۔

ایم۔ار کوپ میئر نے کامیابی کے گروں پر کئی کتابیں لکھی ہیں۔ جس میں اس نے کامیابی کا سب سے بڑا اصول یہ درج کیا ہے کہ’’ جو کام کرنا ہے،وقت پر کرو، خواہ تمہارا دل کرنے کو چاہے یا نہ چاہے‘‘، اسے دوسرے الفاظ میں نظم و ضبط کہتے ہیں۔ زندگی ایک صداقت اور حقیقت ہے لیکن ہمارے نوجوان اس کے ساتھ انصاف نہیں کرتے۔ وہ بہت سے مسائل کو خود دعوت دیتے ہیں۔ غیر ضروری مصروفیات میں وقت ضائع کرتے اور محنت سے جی چراتے ہیں اور چاہتے ہیں کے بیٹھے بٹھائے ہر آسائش انہیں میسر ہوجائے۔ زندگی میں آگے بڑھنے کےلئے مقصد اور ارادہ انتہائی ضروری ہوتا ہے، اس کے بغیر زندگی میں کی جانے والی جدوجہد بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔اس کے حصول اور ارادوں کی تکمیل کےلئے نظم و ضبط اور منصوبہ بندی لازمی ہے۔اگر نوجوان نسل ان اصولوں پر سختی سے کاربند ہوجائے تو ان کی زندگی کی بیش تر مشکلات، پریشانیاں، محرومیاں اور ناکامیاں ختم ہوجائیں نیز منفی رویوں اور زندگی کے طور طریقوں کی خامیوں پر بھی قابو پایا جا سکتاہے۔ 

نئی نسل محنت کو شعار بنائے، شارٹ کٹ یا سستی سے پرہیز کرے۔ تعلیم کے حصول پر بھرپور توجہ دے۔ کسی بھی قوم کی ترقی کا راز تعلیم میں پوشیدہ ہوتا ہےلیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ نسل نو کی اکثریت پورا پورا سال کتابوں کی شکل نہیں دیکھتی اور کچھ رہی سہی کسر کورونا نے پوری کردی ،جس نےتعلیم کو بے حد متاثر کیا۔ آن لائن کلاسوں میں بھی نوجوانوں کی عدم دلچسپی صاف نظر آرہی ہے، جس کی بنیادی وجہ پانچ سالہ امتحانی پیپرز یا نقل کا تصور ہے، اسی لیےوہ سارا سال آرام سے رہتےہیں۔ والدین کا بھی یہ فرض ہے کہ اولاد کی پرورش منظم طریقے سے کریں اُنہیں وقت پر کام کرنے کا پابند بنائیں۔ 

اساتذہ نوجوان طلباء اور طالبات کی اصلاح کریں۔ بانی پاکستان قائداعظمؒ کا ویسے تو ایک ایک لفظ سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ ان کے فرمودات کی پاسداری اور ان کے بتائے گئے اصولوں اور دکھائے ہوئے راستے پر چل کر ہی ہم ایک پائیدار اور مستحکم مملکت بناسکتے ہیں۔ قائدنے نظم و ضبط سے متعلق فرمایا۔ ’’مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اتحاد، یقین محکم اور تنظیم ہی وہ بنیادی نکات ہیں جو نہ صرف یہ کہ ہمیں دنیا کی پانچویں بڑی قوم بنائے رکھیں گے بلکہ دنیا کی کسی بھی قوم سے بہتر قوم ہوں گے۔‘‘ نوجوان قائداعظمؒ کےاس قول کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی مشکلات پر قابو پاسکتے ہیں ۔

قائد اعظم نے کئی مواقع پر فرمایا۔ ’’کام، کام اور کام!‘‘ یہ انتہائی مختصر لیکن جامع ترین نصیحت تھی ۔ آج دنیا میں جو اقوام ترقی کی راہ پر گامزن ہیں، وہ اسی نصیحت کے مطابق ترقی کے آسمانوں کو چھو رہی ہیں۔ نوجوان اگر چاہیں تو وہ بھی ستاروں پر کمند ڈال سکتے ہیں اور اسی میں ان کی فلاح و کامیابی کا راز مضمر ہے۔ نظم و ضبط دراصل خود پر قابو پانے، شخصی عزائم و ارادہ اور اپنی فکروعمل کو درست سمت دینے کا نام ہے۔ منصوبہ بندی کے ذریعے تمام دستیاب مواقع اور وسائل سے زیادہ سے زیادہ اور بروقت فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ نوجوانی کا دور وہ دور ہوتا ہے جب انسان کے ارادے، جذبے اور توانائی اپنے عروج پر ہوتے ہیں۔

نوجوان نسل کتنی ہی محنت سے کوئی کام کرلے لیکن اگر اس میں ترتیب اور منصوبہ بندی نہیں ہوگی تو کوئی نتیجہ نہیںنکلے گا۔ پاکستان کے حصول کی جدوجہد میں نوجوان ہی تھے جو قائداعظمؒ اور ان کے ساتھیوں کے دست و بازو بنے تھے۔ آج بھی مملکت خداداد پاکستان کی تعمیر و ترقی میں نوجوانوں کے جوش و ولولے کی ضرورت ہے۔ 

مستقبل کے حوالے سے سوچنا، منصوبہ بندی کرنا اور خواب دیکھنا انتہائی مثبت عمل ہے لیکن صرف خواب دیکھنے پر ہی زندگی نہ گزار دیں بلکہ اسے حقیقت کا روپ دینے کےلئے دل و جان سے محنت کرنا بھی ضروری ہے۔ کسی بھی کام کو اس کے انجام تک پہنچانے کےلئے مستقل مزاجی انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ایک کامیاب نوجوان کی زندگی کا راز یہی ہے کہ وہ اپنے کام سے جنون کی حد تک پیار کرے۔ اس حوالے سے وہ اپنے بڑوں سے رہنمائی لے اور جدید علوم سے خود کو آراستہ کرےتب ہی وہ اپنے مستقبل کے خوابوں کی تعبیر پا سکتے ہیں۔

بقول علامہ اقبال

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

تازہ ترین