• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:سردار پرویز محمود۔۔۔ناروے
جوش و جذبے، دیانت داری، موٹی ویشن اور جاب مورال کو مغرب والے ایک مختلف طریقے سے ناپ تول کرتے ہیں،مثال کے طور پر موٹی ویشن سیمینارز جاب ٹریننگ کورسس کا حصہ ہوتے ہیں۔ بونسز اور ترقی چانسز کا بڑھ جانا اعلیٰ کارکردگی کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ مواخذے اور احتساب کا چیک اور بیلنس بہت ہی قابل گرفت ہے۔ محکمے یا ادارے نے میرٹ پر پروموشن یا بھرتی نہیں کی تو گویا عمارت کی دیوار میں ناقص اینٹ لگا دی۔ ناقص اینٹیں بڑھتی جائیں گی۔ عمارت کمزور ہوتی جاے گی۔ محکمے یا ادارے کی عمارت خود سے سٹیٹ ایمپائیر کی ایک اکائی ہے۔ لمبے عرصے تک یہ روش اداروں اور محکموں کو کمزور کردیتی ہے اور سٹیٹ اپنے بل مقابل سٹیٹز کی صفوں میں لڑکھڑانے لگتی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کے ٹارگٹز اور اعداف کا ہونا عام سی بات ہے۔سرکاری محکموں اور اداروں کے احداف کے بارے میں زیادہ نہیں سنا گیا۔ ہوتے ہوں گے۔ اگر سرکاری محکمہ اپنے چھ ماہ کے ٹارگٹز پورے نہ کرپاے تو اس کا کیا مواخذہ ہوتا ہے؟ سیاسی قیادت زیادہ کس بات میں دلچسپی رکھتی ہوتی ہے؟ پارٹی سیاست کی زیادہ سے زیادہ پروموشن اور تابعداری یا محکمے یا ادارے کے پراجیکٹس اور ٹاسکس کی بروقت تکمیل اور عوام کی فلاح اور بہبود یہ سوال اگر ترقی پذیر معاشرے کے سیاستدان سے پوچھا جاے تو سیاستدان کہیں گے جمہوریت کو میچور ہونے میں وقت لگتا ہے۔ ہماری جمہوریت ترقی یافتہ معاشرے کی جمہوریت سے بہت پیچھے ہے۔ بعض کہتے ہیں جمہوریت کے تسلسل میں انٹرپشن ہوئی ہے۔ بار بار ہوئی ہے۔ اس لیے جمہوری قدروں اور سیاستدانوں پر سارا الزام دھرنا درست نہیں ہے۔ آپ سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں، تبھی توآپ براہ راست وقت کے وزیراعظم پر تنقید کررہے ہیں۔ آپ کے خیال میں وزیراعظم اپنی ٹیم کے ساتھ ملک کا بجٹ اور رسورسز درست سمت میں نہیں لگارہے۔ تبھی تو آپ وزیراعظم سے خوش نہیں ہیں۔آپ کے خیال میں پچھلے والے وزیراعظم بہتر تھے۔ روٹی سستی تھی۔فلاں فلاں معاملات درست چل رہے تھے۔ اور آپ کے خیال میں سیاست کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ویسا آپ کی راے درست ہو نہ ہو۔ خود اعتمادی اچھی چیز ہے۔ سیاسی توازن اور گڈ گورننس کی بات اصل میں مملکت کی تعمیر اور استحکام کی بات ہی تو ہے۔ہمیں مختلف ممالک کے باشندوں مختلف نسل کے لوگوں اور مختلف کلچرز اور زبان کے لوگوں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملا ہے۔ جمہوری ممالک اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ انکی جمہوریت پختہ ہے اور غیر جمہوری طاقتوں کے مقابلے میں انسانی حقوق کے تحفظ کی بہتر طور پر ضامن ہے۔ پختہ جمہوریت کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہاں پارٹی اور ملک کے چیف چند خاندانوں سے مستعار نہیں لیے جاتے۔مجھے نہیں لگتا کہ ڈانیسٹی سیاست جس کو چند خاندانوں کی سیاست کہتے ہیں ان ملکوں میں بھی چلتی ہے جہاں بقول مغرب والوں کے جمہوریت نہیں ہے۔ کیا چین کے صدر کا بیٹا بھی چین کا صدر بنے گا، اس کے مطلب یہ ہے کہ چین کی حکومتی پارٹی کے چیف یا صدر کے بیٹے کا اپنے باپ کے کرسی سنبھالنے کے چانسز نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہو بھی سکتاہے۔ لیکن ان کے ہاں یہ بادشاہت منتقل کرنے کا رواج نہیں ہے شاید ان کی پارٹی اور آرگنائزیشن پریکٹس مغرب کی جمہوریت نہ سہی ٹیلنٹ اور میرٹ بیسڈ ضرور ہے۔ تبھی تو سپر پاور بن گیے ہیں۔ ہم بچے کو سکول بھیجتے ہیں تو ہمارا خیال ہوتا ہے وہ کچھ بنے گا۔ اور اب تو مملکت کا باشندہ وہ ضرور ہے لیکن ساتھ ہی گلوبل ویلیج کا سیٹیزن بھی ہوتا ہے ہمارا بچہ۔ اب ہماری شہریت دو طرح کی ہے۔ ایک تو ہم ملک کے شہری ہیں۔ دوسرا ہم گلوبل ویلیج کے شہری بھی ہیں۔ آپ کے بچے کا مقابلہ پوری دنیا کی بچوں کے ساتھ بھی ہے۔صر ف آپ کے قصبے، گاوں اور شہر اور ملک تک محدود نہیں ہے۔ آپ کے ادارے یا محکمے کا مقابلہ آپ کے صوبے یا شہر یا ملک کے کسی ادارے اور محکمے سے بھی ہوگا لیکن آپ کے ہم پلہ اور آپ سے ترقی یافتہ ممالک کے اداروں اور محکموں سے بھی ہے۔ یہ گلوبل مقابلے کا رحجان ہم نے ترقی یافتہ ممالک کے اداروں اور محکموں میں دیکھا ہے۔ ناروے میں ادارے اور محکمے اپنی کارکردگی اور اہلیت اور تجربات کا موازنہ سویڈن اور ڈنمارک سے کرتے ہیں۔ پھر نارڈک ریجن سے باہر نکل کر بلجیم، جرمنی اور فرانس سے کرتے ہیں۔ یورپ سے نکل کہ برطانیہ سے کرتے ہیں۔ اور براعظم سے نکل کہ کینیڈا اور امریکہ سے کرتے ہیں۔ آپ پوچھیں گے کس بات کا موازنہ کرتے ہیں۔ ہاں جی اپنے محکموں اور اداروں کی کارکردگی کا موازنہ کرتے ہیں۔ یہ کہ ہمارے ادارے یا محکمے نے سال یا چھ ماہ میں کون کون سے احداف کا تعین کیا؟ پھر حکومت اور عوام کو اس بارے میں بتایا اور چھ ماہ یا سال بعد ان احداف سے بڑھ کر نتائج حاصل کیے یا چھ ماہ یا سال بعد احداف سے پیچھے رہ گیے۔کیا کمی رہ گئی۔ لیگل فریم ورک میں اصلاحات لانا ہونگی یا بیرونی عوامل نے رکاوٹ ڈالی۔ وجہ معلوم کرنا محکمے کی لیڈرشپ کی ذمہ داری ہے۔ اگر آپ حکومتی نمائیندے کو قائل نہیں کرسکے تو لیڈرشپ کو جانا ہوگا۔ ادار ے اور محکمے ایک دوسرے سے جڑے ہوے ہیں۔ ایک ادارے کی ناقص کارکردگی کی بازگشت اسٹیٹ کی پوری مشینری میں سنی جاتی ہے تو کیا ترقی پذیر ممالک کے کے ادارے اور محکمے اپنا موازنہ ایک دوسرے ترقی پذیر ملک کے محکمے یا ادارے سے کرتے ہیں، ایسا ہی ہوگا۔ یا کرتے ہی نہیں ہیں، سٹیٹ کو ایفی شینٹ نہیں بنانا، ملک کے قرضے نہیں اتارنے، پھر کیسے ہوگا کہ ملک اپنے بین الاقوامی مقدمے جیت جاے گا، یاد رہے کہ ہم محب وطن لوگ ہیں۔ اگرچہ ہم نے ایک دوسرے ملک کی شہریت بھی لے لی ہے لیکن ہماری پہچان ہمارے پیدائشی ملک سے ہی ہوتی ہے۔ایسے ہی جیسے امریکہ میں سب امریکی تو ہیں لیکن امریکی شہری اپنے پچھلے حسب نسب سے جانے جاتے ہیں۔ پولش امریکن۔ آئرش امریکن۔ افریکن امریکن، سکینڈے نیوین امریکن ایک دوسرے ملک کی شہریت لینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی ذمہ داریاں مزید بٖڑھ گئی ہیں۔ جب ہم باہر کی شہریت کی وجہ سے کسی امیگریشن کاونٹر پر نہیں روکے جاتے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ فلاں ملک نے اس باشندے پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اور اپنے ملک کا پاسپورٹ اس کو دے دیا ہے۔ یہ شخص فلاں ملک کا ایک ذمہ دار شہری ہے۔ ہم بھی اس پر اعتماد کرتے ہیں اور اس شخص کو ویزا ایشو کر کے یا بغیر ویزے کے اپنے ملک میں داخل ہونے کی اجازت دیتے ہیں۔ جس طرح حسب نسب ہر شخص کی عزت اور حرمت کا ایک ریفرنس مانا جاتا ہے۔ہم غیر ملکی شہریت رکھنے والوں کا تعارف اور حسب نسب ہمارا آبائی ملک ہوتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ موسم کے اعتبار سے بہت مشکل ممالک اتنے ترقی یافتہ اور خوشحال ہیں تو ہم سوچتے ہیں اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک کیا مختلف کرتے ہیں ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں۔ ان پر کوئی قرضہ نہیں ہے بلکہ وہ غریب ملکوں کو قرضے دیتے ہیں۔ ان کا ہر باشندہ دنیا یوں گھوم آتا ہے جیسے ہم قصبے کا چکر لگاتے ہیں۔ ہم اگر سیاست اور گورننس پر بات کرتے ہیں تو نیک نیتی اور ہمدردی اور وطن کی محبت میں کرتے ہیں۔ ہم اپنے دوست سیاستدانوں اور بیوروکریٹس اور صحافی دوستوں سب کی عزت کرتے ہیں اور ان سے محبت کرتے ہیں۔ 
تازہ ترین