• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیشنل ہیلتھ سروسز، ماہرِ ادویہ اور شوقِ چارہ گری !

جب پہلی ملاقات ٹیلی فون اور دوسری شہرِ اقتدار میں ہوئی تو آنکھوں میں امید کے دیپ تو اُس وقت بھی جلے تھے مگر محترمہ نے زیادہ وقت کمپنی کی مشہوری ہی میں لگا دیا کہ ’’ہیلتھ کارڈ یہ اور ہیلتھ کارڈ وہ۔‘‘ محترمہ سائرہ افضل تارڑ وزیر مملکت سے وفاقی وزیر ضرور ہوگئیں مگر درد کی دوا نہ مل سکی۔ اگر میں بھول نہیں رہا تو مریم نواز شریف کی سیاست میں بڑی انٹری کا آغاز صحت کارڈ ہی تھا یا پھر پی آئی اے کو پریمیر طیارے دینے کا۔ وہ یاد آیا کہ یہ صحت کارڈ بڑا ہو کر اب ’’انصاف صحت کارڈ‘‘ بن چکا۔ جیسے بے نظیر انکم سپورٹ کی بڑھتی ہوئی سپورٹ نے اسے احساس پروگرام بنا دیا۔ یہ وقت بھی کیسی کیسی چیزوں کو کیا کیا بنا دیتا ہے؟ ہاں، وہ یاد آیا ہمارے ایک دوست کو فون آیا کہ اپنا انصاف صحت کارڈ لے جائیں، جب وہ بےچارہ اوکھے سوکھے وحدت کالونی لاہور پہنچا تو اس کی حالتِ زار دیکھ کر عملے نے فرمایا کہ اوپر سے آپ کے لئے حکم ہے کہ آپ چونکہ معذور ہیں چنانچہ اپنا انصاف کارڈ وزیراعلیٰ تقریب سے وصول فرمائیے گا فی الحال بغیر انصاف ہی کے لوٹ جائیے۔ سنا ہے ایک برس بیت گیا‘ وہ اپنی معذوری کے پرچار اور حکومتی وقار کیلئے وزیراعلیٰ ہاؤس بلوائے نہیں گئے۔ جان کی امان پاتے ہوئے یہاں عرض ہے کہ انصاف تو کہتا ہے کہ ایسے کارڈز ایسے افراد کی دہلیز تک پہنچانے کا اہتمام ہونا چاہئے‘ کمپنی کی مشہوری کے طریقے اور بھی بہت ہیں۔ 

باوجود ان کڑوی کسیلی باتوں کے چارہ گری کے حوالے سے امید نے پھر انگڑائی لی تھی جب منسٹری آف نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشن اینڈ کوآرڈنیشن کا قلم دان ڈاکٹر فیصل سلطان کے دستِ مبارک میں آیا۔ اس سے قبل ڈاکٹر ظفر مرزا والا معاملہ سیاسی و عالمی وبا نے بے مزا کردیا ورنہ ایک دفعہ تو اصلاحات کی ڈگر پر انہیں بھی دیکھا۔ اُن سے پہلے معاملہ کیانی و سائرہ افضل تارڑ کی طرح صریحاً سیاسی تھا یعنی وزراء اور عوام کی سمجھ بوجھ سے بالاتر۔ راقم کو نہیں بھولتا کہ ٹیلی فون کے بعد محترمہ کو اور اس وقت کے سیکرٹری نیشنل ہیلتھ سروسز کو ان کے دفاتر میں فارمیسی کونسل آف پاکستان کے حوالے سے بریفنگ دی گئی مگر نتیجہ صفر سے بھی نیچے گیا۔ ایک یہ، اور دوسرا چیئرمین بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام محترمہ ماروی میمن سے ملنے اور بات کرنے کے تجربات اس قدر جان لیوا تھے کہ پھر قسم ہی کھا لی کہ بہت بہتر ہے وزراء کی کلاکاری کو میڈیا ہی پر انجوائے کرلیا جائے۔ ماروی میمن دفتر میں بےنظیر کی تصویر کے نیچے بیٹھ کر بے نظیر اور اِس پروگرام کے خلاف تھیں جس پروگرام کو ایکسٹینشن ان کے وزیراعظم نواز شریف ہی نے دے رکھی تھی۔

راقم نے جب ساری باتیں ماضی کی وزیر کے سامنے رکھیں تو کونسل کا سیکرٹری انہوں نے ضرور بدل دیا مگر پھر بھی کونسل کو ماہر ادویہ (فارماسسٹ) صدر نہ مل سکا، زرداری دور میں قسمت نے گر کونسل کو فارماسسٹ صدر دیا بھی تو چار دن۔ اور جو کونسل کو دورِ شریف میں سیکرٹری ملا وہ آج کل نیب کو بھگت رہا ہے، یہ ہم نے سابق سیکرٹری اور سائرہ افضل تارڑ کو پیشگی عرض کی تھی بلکہ ٹاک شوز میں حقیقت بیان کرنے کی جسارت بھی کی تھی، یہ تو شکر ہے کہ سابق ڈی جی ہیلتھ کو تحریک انصاف نے ایکسٹینشن نہیں دی۔ سابق دور میں نیشنل سروسز کے ڈریپ (ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان)، پی ایم ڈی سی (پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل) اور نرسنگ کونسل کے معاملات مسلسل کھٹائی میں رہے جنہیں ہم نے قریب سے جاننے کی کوشش کی، اول تو کسی کو خرابیوں کے باوجود تبدیل نہ کیا گیا اگر کچھ ہوا بھی، تو مسیحائی کا معاملہ یہ رہا کہ:

آیا تھا شوقِ چارہ گری میں کوئی، مگر

کُچھ اور دِل کے زخْم کو گہرائی دے گیا

مگر نئے سرے سے ہم پرامید اس لئے ہیں کہ وزیراعظم کے حالیہ معاونِ خصوصی برائے امورِ صحت اپنے شعبے کا گہرائی سے علم رکھتے ہیں علاوہ بریں مریض اور مسیحا سے لے کر دواسازی اور نرسنگ تک کے معاملات سے بخوبی آشنا ہیں۔ پاکستان کا سب سے زیادہ کامیاب و کامران ٹرسٹ اور شوکت خانم ہسپتال اور لیبارٹریز چلانے کا سہرا ان کے سر ہے۔ امید ہے لگے ہاتھوں یہ پیرامیڈکس، ڈاکٹر آف فزیو تھراپی اور دیگر ہیلتھ پروفیشنلز کو بھی الائیڈ ہیلتھ کونسل میں منظم کرنے کے رُکے عمل کا بھی جائزہ لیں گے۔ لیکن اس چیز کے بھی فوری جائزے کی ضرورت ہے کہ فارمیسی کونسل آف پاکستان جو ماہرِ ادویہ کی سب سے بڑی نگران، رابطہ کار اور ریگولیٹری باڈی ہے‘ اسے تبدیلی کے دور میں بھی سیکرٹری کیوں نہیں مل رہا؟ گلگت بلتستان قابل ستائش ہے کہ وہ اپنی فارمیسی کونسل کو منظم کرنے کے لئے کوشاں ہے اور اس کا ممبر بھی کونسل میں رہا‘ آزاد کشمیر کے ڈاکٹر وزیر یا سیکرٹری نے کبھی ایسا کیوں نہیں سوچا؟ کے پی کی فارمیسی کونسل بلوچستان اور سندھ ہی کی طرح لولی لنگڑی ہے، آخر کیوں صوبائی حکومتیں 18 ویں ترمیم کے تحت اس حوالے سے استفادہ کرنے سے قاصر ہیں جب کہ مرکز اور پنجاب منظم کونسلوں کے باوجود دو تین سال سے مستقل سیکرٹریوں سے قاصر ہیں۔ ہم تو 18 ویں ترمیم کے سبب صوبے کی اپنی پی ایم ڈی سی (نیا نام پاکستان میڈیکل کمیشن) کے حامی ہیں اور سندھ یہ چاہتا بھی ہے اور پنجاب کی خواہش تھی لیکن جو پنجاب فارمیسی کونسل کو سیکرٹری اور سندھ منظم کونسل نہیں دے پا رہے تو اب ہم کیسے مان جائیں کہ وہ میڈیکل کمیشن چلا لیں گے؟

ہم نے مانا کہ نیشنل ہیلتھ سروسز اور زیرک اور باعمل ڈاکٹر فیصل سلطان کے لئے کورونا چیلنجز حد سے زیادہ ہیں تاہم یہ چیلنجز مستقبل کی پیش بندیوں کے حوالے سے استاد بھی ہوا کرتے ہیں سو مستقبل اس چیز کا متقاضی ہے کہ کمیونٹی میڈیسن اور پبلک ہیلتھ کے قومی پروگراموں کو اصلاحات سے تقویت بخشی جائے۔ مرکزی و صوبائی فارمیسی کونسلز مکمل تنظیم سازی میں فارمیسی ایجوکیشن، فارماسیوٹیکل افیئرز اور ادویہ کے کوالٹی کنٹرول میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) دواساز اداروں سے سازباز رکھنے کی بجائے عوام کیلئے ادویہ کو سستا کرنے میں مدد دے۔ پاکستان میڈیکل کمیشن سے بھی بےشمار توقعات ہیں اور یہ بھی کہ پرائیویٹ میڈیکل کالجز پر نظر رکھی جائے، لیکن یہ سب اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وزیراعظم کے معاونِ خصوصی، وزیراعظم کے وعدوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے شوقِ چارہ گری اور مسلسل جائزوں کو بروئے کار نہیں لاتے!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین