• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ارشاد نامہ (معاون سے چیف جسٹس پاکستان بننے تک کی داستان)

مصنّف: ارشاد حسن خان( سابق چیف جسٹس پاکستان)

صفحات: 310

قیمت: 1395

ناشر فیروز سنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ

ایک یتیم بچّے نے سائیکل سے سفر شروع کیا اور پھر اپنی اَن تھک محنت، لگن اور جدوجہد سے کسی بیساکھی کے بغیر چیف جسٹس آف پاکستان کے عُہدے تک جا پہنچا۔اُس بچّے کو دنیا آج ارشاد حسن خان کے نام سے جانتی ہے۔ وکالت سے عملی زندگی کا آغاز کیا، سینئر وکلاء میں جگہ بنائی، لاء کالج میں پڑھاتے رہے، لاہور ہائی کورٹ کے جج اور قائم مقام چیف جسٹس مقرّر ہوئے۔ وفاقی سیکریٹری قانون بنائے گئے اور پھر عدالتِ عظمیٰ کے جج بنے۔ قدم مزید آگے بڑھے اور چیف جسٹس آف پاکستان کے منصبِ جلیلہ پر فائز ہوگئے۔بعدازاں، چیف الیکشن کمشنر کے طور پر بھی خدمات انجام دیتے رہے۔ اُنھیں فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے بانی ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔یوں اُن کی سرگزشتِ حیات مُلکی تاریخ کا ایک اہم جزو بن گئی۔’’ ارشاد نامہ‘‘ میں بچپن کی

شرارتوں، جوانی کے قصّوں، گھریلو زندگی کے کئی دل چسپ پہلوؤں، بطور وکیل لڑے جانے والے مقدمات اور مختلف عُہدوں پر خدمات انجام دینے کے دَوران حاصل ہونے والے تجربات بیان کیے گئے ہیں، تاہم کتاب تحریر کرنے کا اصل مقصد کچھ اور ہے۔ مصنّف کے بقول’’ ایک تاریخ ساز فیصلے کے، جسے مفاد پرستوں اور خوفِ خدا سے عاری لوگوں نے متنازع بنا دیا، تمام پہلوؤں کو واضح کرنے کے لیے آٹو بائیو گرافی کا سہارا لیا گیا ہے۔‘‘فوجی سربراہ، جنرل پرویز مشرف نے 1999ء میں وزیرِ اعظم، میاں نواز شریف کی حکومت ختم کرکے اقتدار پر قبضہ کیا، تو اُس اقدام کے خلاف عدالتِ عظمیٰ سے رجوع کیا گیا۔ یہ کیس مُلکی تاریخ میں’’ ظفر علی شاہ کیس‘‘ کے نام سے معروف ہے۔

تین ماہ کی سماعت کے بعد عدالت نے نہ صرف یہ کہ جنرل پرویز مشرف کے تمام اقدامات تسلیم کرلیے، بلکہ اُنھیں آئین میں ترامیم کا بھی اختیار دے دیا۔ البتہ، یہ شرط بھی رکھی گئی کہ 12 اکتوبر 2002ء سے قبل عام انتخابات کروا کر اقتدار عوام کے منتخب نمایندوں کو منتقل کیا جائے۔ یہ فیصلہ چیف جسٹس، ارشاد حسن خان نے تحریر کیا تھا، تاہم لارجر بینچ میں شامل تمام ججز اس سے متفّق تھے۔اُنھوں نے اِس کتاب میں اپنے اُسی فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے اُن وجوہ کا تفصیل سے ذکر کیا ہے، جو اس فیصلے کا سبب بنیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان، جناب جسٹس گلزار احمد نے کتاب کے پیش لفظ میں اس فیصلے پر کوئی واضح رائے دینے سے تو گریز کیا ہے، تاہم اُسے اُن حالات میں ایک جرأت مندانہ فیصلہ قرار دیا ہے۔ 

ایس ایم ظفر، وسیم سجّاد، اعتزاز احسن، مخدوم علی خان، قیوم نظامی اور حفیظ الرحمٰن قریشی نے اپنے تاثرات میں پاکستان کی عدالتی تاریخ پر انتہائی وقیع مواد فراہم کیا ہے، جس نے کتاب کی اہمیت دوچند کر دی ہے۔ خاص طور پر اعتزاز احسن نے ظفر علی شاہ کیس اور اُس سے متعلقہ معاملات کا بھرپور تجزیہ کیا ہے۔اگر دیکھا جائے، تو ارشاد حسن خان دو وجوہ کی بنا پر تنقید کی زَد میں رہے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اُنھوں نے مشرف حکومت کے تحت حلف اُٹھایا اور جب چیف جسٹس، سعید الزمان صدیقی نے ایسا کرنے سے انکار کیا، تو اُنھیں عُہدے سے الگ کرکے ارشاد حسن خان کو چیف جسٹس کے منصب پر فائز کیا گیا۔ 

تاہم، اِس ضمن میں یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ ارشاد حسن خان واحد جج تو نہیں تھے، جنھوں نے ایسا کیا اور پھر یہ کہ جن ججز نے پی سی او کے تحت حلف اُٹھانے سے انکار کیا، وہ ضیاء الحق کے دَور میں ایسا حلف اُٹھا چُکے تھے۔ اُن پر تنقید کا دوسرا سبب وہی فیصلہ ہے، جس میں مشرف مارشل لاء کو جائز قرار دینےکے ساتھ اُنھیں آئین میں ترامیم تک کا اختیار دیا گیا۔اِس حوالے سے بہت سی باتیں کہی

جاتی ہیں، لیکن مصنّف نے اعتراض کرنے والوں سے جو سوال پوچھا ہے،اُس سے بھی نظریں نہیں چُرائی جا سکتیں۔وہ پوچھتے ہیں’’ معترضین انصاف کریں کہ کیا کوئی ایسا تیس مار خان ہو سکتا تھا، جو بیک جنبشِ قلم مارشل لاء کو غیر قانونی قرار دے دیتا اور کیا یہ توقّع ہو سکتی تھی کہ جنرل پرویز مشرف سمیت جرنیل کسی بھی ایسے فیصلے کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے واپس لَوٹ جاتے۔‘‘مصنّف کے مطابق، ’’درخواست گزار خالد انور نے بھی یہ بات تسلیم کی تھی کہ اُن کی پٹیشن( یعنی نواز شریف حکومت کی بحالی) قبول کرنا ممکن نہیں۔‘‘ہمارے ہاں یہ چلن عام ہے کہ سیاسی قیادت کسی بھی غیر آئینی اقدام کے خلاف عدلیہ سے تو مزاحمت کی توقّع کرتی ہے، لیکن خود نئی چھتری تلے فوائد سمیٹنے کے مواقع کی تاک میں رہتی ہے۔مشرف دَور میں بھی سیاسی قیادت کا رویّہ ایسا ہی رہا، جس نے پارلیمان کے ذریعے اُن کے اقتدار کو تحفّظ بخشا۔پھر یہ کہ اِس طرح کے معاملات میں عدلیہ کی تاریخ بھی کوئی زیادہ مثالی نہیں رہی۔

بقول اعتزاز احسن’’ چیف جسٹس محمّد منیر کے 1958ء کے فیصلے میں اگر سپریم کورٹ آف پاکستان، ایّوب خان کی آئین سے بغاوت کو پہلے ہی روز جائز قرار نہ دیتی یا چیف جسٹس انوار الحق، ضیاء الحق کے ایسے ہی اقدام کو 1977ء میں آئینی جواز نہ بخشتے، تو چیف جسٹس ارشاد حسن خان کے لیے بھی جنرل مشرف کی بغاوت کو غیر آئینی قرار دینا اِس قدر مشکل نہ ہوتا، جس قدر وہ بیان کرتے ہیں۔‘‘شاید اِسی لیے مصنّف نے بھی طنزاً لکھا ہے کہ’’ ظفر علی شاہ کیس کی بدولت جمہوریت کو بحال ہوئے بے شمار سال ہوگئے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون پانچ پانچ سال حکومت کر چُکی ہیں۔ فیصلے پر اعتراض کرنے والے یہ تو بتا دیں کہ جنرل مشرف پر 12 اکتوبر والے واقعے کے حوالے سے غدّاری کا مقدمہ قائم کرنے کا کسی نے’’ کریڈٹ‘‘ کیوں نہیں لیا؟‘‘

اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ’’ کتاب کے مطالعے کے بعد کوئی شک نہیں رہ جائے گا کہ سپریم کورٹ کے ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے نے مُلک کو آمریت کی طوالت سے بچالیا اور ڈی ریل جمہوریت کی بحالی میں نہایت قابلِ قدر اور بنیادی کردار ادا کیا۔ اگر اُس وقت جنرل مشرف کو تین سال تک محدود نہ رکھا جاتا، تو کوئی بعید نہیں کہ وہ آج تک بیٹھے ہوتے یا پھر ماضی کے آمروں کی طرح اُن سے بھی جان چُھڑانے کے لیے قوم کو ایک بار پھر خاک و خون کے سمندر سے گزرنا پڑتا۔‘‘ بہرحال،اس فیصلے پر تنقید ہوئی اور آج بھی کی جا رہی ہے، البتہ ارشاد حسن خان کا موقف مضبوط، مدلّل اور زمینی حقائق سے مطابقت رکھتا ہے، جسے آسانی سے رَد کیا جانا ممکن نہیں۔اندازِ بیان سادہ، عام فہم اور تکلّفات سے پاک ہے۔ تحریر میں عاجزی اور بے ساختہ پن نمایاں ہے۔نیز، یادداشتوں کا قومی زبان میں لکھا جانا بھی ایک قابلِ تعریف اور قابلِ تقلید مثال ہے۔وکلاء اور ججز کے علاوہ سیاست سے شغف رکھنے والوں کے لیے بھی یہ ایک اہم کتاب ہے۔

تازہ ترین