• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ … شہزادعلی
امریکہ کے نو منتخب صدر بائیڈن تاریخ کے ایک ایسے وقت میں اس عہدہ جلیلہ پر فائز ہوئے ہیں کہ جب امریکہ اندرونی طور پر سیاسی خلفشار کا شکار ہے، اور بیرونی کے علاوہ کئی اندرونی چیلنجز درپیش ہیں _ہمارے لئے بطور پاکستانی امریکی معاملات سے کماحقہ آگاہی ازحد ضروری ہے، جبکہ ایک سپریم پاور کے معاملات سے واقفیت ویسے بھی اور بطور اخبار نویس ان سے کماحقہ واقفیت بھی اس پیشے کا حصہ ہے _ ٹائم میگزین نے ایک فکر انگیز مواد شائع کیا ہے کہ دنیا میں آج امریکہ سے زیادہ سیاسی طور پر منقسم یا سیاسی طور پر غیر فعال کوئی جدید صنعتی جمہوریت نہیں ہے۔ دنیا کا طاقت ور ترین ملک اس مقام پر کیسے پہنچا؟ دارالحکومت کی ہنگامہ آرائی کے اسباب میں صرف سال نہیں بلکہ کئی دہائیاں لگی ہیں۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
اس کی وجہ امریکی معاشرے کی تین منفرد خصوصیات ہیں جنھیں امریکی سیاستدان بہت زیادہ عرصے سے نظرانداز کرتے رہے ہیں یعنی پائیدار نسلی ورثہ، کیپیٹل ازم کی بدلتی نوعیت، اور امریکی ذرائع ابلاغ کی اجتماعی لینڈ سکیپ کی تحلیل۔نسل، نسلی تعلقات کار کے حوالے سےامریکی پریشان کن تاریخ رکھتے ہیں۔ نسل پرستی کے عوامل کی نشاندہی کرنے میں اور اس کے تدارک کیلئے خاصی سست روی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ امتیازی سلوک کے قوانین سے لے کر مثبت کارروائیوں کی کوششوں تک پہنچنے میں دہائیاں گزر گئیں پچھلے عرصے میں پیش رفت ہوئی جس کے نتیجے میں سیاہ فام امریکیوں کو قدم بڑھانے کے مواقع ملے یہاں تک کہ امریکیوں کے لئے اپنا پہلا سیاہ فام صدر منتخب کرنے کی راہ ہموار کی گئی لیکن اس گذشتہ موسم گرما میں بلیک لائیوز میٹرز کے مظاہروں نے سب پر واضح کردیا ہے کہ ابھی بھی بہت کام باقی ہے۔ سفید فام امریکیوں کا ایک حصہ آبادکاری اور حالیہ نسلی حساب کتاب کے نتیجے میں معاشرے میں اپنی حیثیت کو خطرے میں دیکھ رہا ہے اس نے سیاست میں بھی خود کو ظاہر کیا ہے۔ اس اضطراب میں معاشی عنصر موجود ہیں جس کا نتیجہ گذشتہ دنوں کے مہلک فساد کا نتیجہ تھا نسل پرستی کے اس بنیادی ڈھانچے کو دیکھتے ہوئے کہ اس مسئلے کو برسوں نظرانداز کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے تانے بانے میں بھی بن دیا گیا ہے نسلی تعلقات نے امریکی سیاسی امور کی موجودہ صورتحال میں بھر پور منفی کردار ادا کیا ہے۔کیپٹل ازم، سرمایہ داری کی فطرت ارتقا پزیر ہے۔ سرمایہ داری اور اس نے جو معاشی نمو ڈالی اس نے ہی 20 ویں صدی کے آخر میں امریکہ کو دنیا کی اولین سپر پاور بنایا امریکہ کا سرمایہ داری پر مستقل اعتماد اور خاص طور پر کاروباری اعتبار سے فرد کی طاقت، یہی وجہ ہے کہ تارکین وطن کی نسلوں نے اپنے خوابوں کو کامیاب ہونے کا بہترین موقع فراہم کرنے کے لئے امریکہ جانے کا فیصلہ کیا اسی باعث آج امریکہ خاص طور پر ٹکنالوجی کمپنیوں کا گھر بھی ہے جو جدید دنیا کی طاقت رکھتے ہیں لیکن امریکی طرز کے سرمایہ دارانہ نظام کا رخ پلٹ رہا ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہرچند کہ انفرادیت پسند معاشی نظام بہت زیادہ دولت پیدا کرتا ہے لیکن نتیجتاً اوسط امریکی کارکن کے پاس اپنے یورپی ہم عصر افراد سے مقابلتا" سوشل سیفٹی نیٹ کم ہے ایسے سیاسی نظام کا ذکر کریں۔ کیپٹل ازم نے گذشتہ 30 سالوں میں امریکی سوسائیٹی میں معاشی عدم مساوات اور مواقع کے فرق کو بہت بڑھا دیا۔ میڈیا، بالخصوص سوشل میڈیا کے امریکہ میں مسائل کی اپنی الگ نوعیت ہے جو سیاست پر بھی اثر انداز ہوتی ہے _ ۔
آج کے امریکی سیاسی عمل میں اہم کردار ادا کرنے والے اور عوامل بھی بہت ہیں لیکن ٹائم میگزین نے یہ تینوں انتہائی ساختی اور انتہائی اہم بیان کیے ہیں پھر اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ٹرمپ کا مواخذہ کیا رخ اختیار کرتا ہے۔ ٹائم میگزین نے کیا ہی خوبصورت طریقے سے اختتامیہ تحریر کیا ہے:جو بائیڈن کو اقتدار سنبھالنے کے بعد متعدد چیلنجز کا سامنا ہوگا اور کرونا وبائی مرض سے نپٹنا ان کا سب سے فوری چیلنج ہوسکتا ہے لیکن یہ امر اس کیلئے زیادہ مشکل نہیں ہے _ ویکسین وبائی بیماری کا خاتمہ کرسکتی ہیں لیکن ہمارے پاس اپنی سیاسی تقسیم کے لئے کوئی ویکسین نہیں ہے۔
Vaccines can end pandemics after all, but we don’t have a vaccine for our political divisions.
(اور ہمارے حساب سے یہی بات پاکستان کی صورت حال پر بھی منطبق ہوتی ہے جہاں پر ملک سیاسی طور پر وائرس زدہ ہو چکا ہے) ۔ادھر نیویارک ٹائمز کے مطابق نئے صدر کی انتظامیہ کو ایک ہی معاشی گول کی طرف نشاندہی کی گئی ہے کہ جاب مارکیٹ کو وبائی امراض سے پہلے کی سطح پر لایا جائے۔مسٹر بائیڈن نے واضح کیا ہے کہ ان کی انتظامیہ کارکنوں پر توجہ مرکوز کرے گی اور انہوں نے اعلی عہدیداروں کا انتخاب جاب مارکیٹ فوکس کے ساتھ کیا ہے۔ یہ تو ہوگئے امریکہ کے چند اندرونی چیلنجز، جبکہ ایک بڑی طاقت کے صدر کے طور پر ان سے نہایت باوقار، زمہ دارانہ اور جاندار کردار کی دنیا کو امید ہے۔ ایک تو یہ کہ وہ دنیا میں امن اور استحکام کیلئے عالمی کردار ادا کریں گے، کوئی نئی جنگ دنیا پر مسلط نہیں کریں گے _ اقوام متحدہ کے کردار کو فعال بنانے کے لئے توانائیاں بروئے کار لائیں گے _ افغانستان میں حالات معمول پر لانے کے لئے کاوشوں کو تیز تر کریں گے، فلسطین عوام کو ان کے جینے کا حق مہیا کریں گے _ بھارت کے اندر اقلیتوں کی نسل کشی کو رکوائے کے لئے متحرک ہوں گے۔ پاکستانی اور کشمیری عوام کو ان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں ان کی خواہش ہے کہ نومنتخب صدر اپنی بین الاقوامی ترجیحات میں پاکستان اور کشمیر کو متاثر کرنے والے معاملات کو اولیت دیں گے _ سب سے بڑھ کر یہ کہ مسئلہ کشمیر، پاکستان اور کشمیری عوام کی خواہشات اور احساسات کے مطابق حل کرانے کے لئے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے۔ ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ انسانی حقوق پر تجارتی مفادات کو ترجیح نہیں دیں گے _ صدر بائیڈن کی صلاحیتوں کا اصل امتحان ہی یہی ہوگا کہ وہ اس دنیا کو پرامن بنانے کے لئے اپنا کردار کس طرح ادا کرتے ہیں۔
تازہ ترین