نیویارک/کراچی (نیوز ڈیسک، عظیم ایم میاں) امریکا کے نئے صدر جو بائیڈن نے 46ویں صدر کا حلف اٹھالیا ،ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہائوس سے رخصت ہوگئے ، امریکی نائب صدر کملا ہیرس نے بھی اپنے عہدے کا حلف اٹھالیا ، 78 سالہ جوبائیڈن نے امریکا کے چیف جسٹس جان رابرٹس سے تقریب میں حلف اٹھایا جس میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شرکت نہیں کی تاہم ان کے نائب صدر مائیک پینس تقریب میں موجود تھے،بائیڈن نے کیتھولک عقیدے کے مطابق بائبل پر حلف لیا، کمالا ہیرس نہ صرف پہلی خاتون نائب صدربن گئیں بلکہ پہلی سیاہ فارم اور پہلی ایشیائی امریکی نائب صدر بھی بن گئی ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ 150برس میں نئے صدر کی تقریب میں شرکت نہ کرنے والے پہلے امریکی صدر بن گئے ، حلف برداری کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نومنتخب صدر جوبائیڈن نے کہا کہ جمہوریت ، آئین اور امریکا کا دفاع کروں گا ، امریکا کو بڑھتی سیاسی انتہا پسندی، سفید بالاتری، مقامی دہشت گردی کا سامنا ہے اور ہمیں اس کا مقابلہ کرنا ہے اور ہم اس کو شکست دیں گے، آزادی اور انصاف سب کیلئے ہوگا ، بیرونی دنیا کیلئے پیغام میں انہوں نے کہا کہ امریکا کو آزمایا جاچکا ہے اور ہم ہمیشہ طاقتور ثابت ہوئے ہیں ، ہم دنیا کیساتھ اپنے اتحادوں کو بحال کریں گے ، ہم دنیا کیساتھ رابطے میں رہیں گے ، ہم دنیا کی قیادت صرف اپنی طاقت کی بنیاد پر نہیں کریں گے بلکہ اپنی طاقت کی مثال قائم کریں گے ، ہم امن ، ترقی اور سلامتی کیلئے ایک قابل بھروسہ اتحادی ثابت ہوں گے ، انہوں نے اپنی جیت کو جمہوریت کی جیت قرار دیت ہوئے کہا کہ اس سے جمہوریت کی جیت ہوئی ہے، یہ دن امریکیوں کا ہے، یہ دن جمہوریت کا ہے، یہ تاریخی دن اپنے ساتھ امید لایا ہے،امریکا کو مشکلات درپیش ہوئیں لیکن شہریوں نے اس چیلنج کا مقابلہ کیا،امریکا ایک عظیم ملک ہے، آج ہم ایک امیدوار کی جیت نہیں بلکہ جمہوریت کی جیت منا رہے ہیں،آج بھی امریکا کو بیک وقت نسل پرستی اور کورونا کے چیلنجز کا سامنا ہے، مل کر کورونا وائرس کے بحران سے نکل آئیں گے،دنیا ہماری طرف دیکھ رہی ہے،ہمیں لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنا ہے، بہت کچھ بحال کرنا ہے ، بہت کچھ تعمیر کرنا ہے ، ہمیں ماضی کے مقابلے کئی زیادہ چیلنجز کا سامنا ہے ، مستقبل کے چیلنجز کیلئے الفاظ سے زیادہ اقدامات کی ضرورت ہے ،امریکا کے نئے صدرنے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ امریکا میں تمام افراد کومواقع، سکیورٹی، آزادی، عزت و احترام، وقار اور سچائی سے محبت ہے ، ڈونلڈ ٹرمپ نے بائیڈن کی صدارتی جیت کو انتخابی دھاندلی کا نتیجہ قرار دیا تھا، لیکن جوبائیڈن نے ٹرمپ کا نام لیکر ان پر تنقید نہیں کی اور کہا کہ ’سچ اور جھوٹ میں فرق ہوتا ہے، جھوٹ طاقت اور مفاد کے لیے بولے جاتے ہیں،ہمیں اس خانہ جنگی کو ختم کرنا ہوگا جو سرخ کو نیلے کے خلاف لڑواتی ہے،‘ یہاں سرخ سے مراد ریپبلکنز اور نیلے سے مراد ڈیموکریٹس ہیں، انہوں نے زور دیا کہ رائے کی بنیاد پر لوگوں کو ایک دوسرے سے لڑنا نہیں چاہیے، صدر کا حلف اٹھانے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں انہوں نے عالمی وبا، بے روزگاری، ماحولیاتی تبدیلی، تمام نسلوں کے لیے انصاف کی عدم فراہمی اور سیاست میں انتہا پسندی جیسے مسائل پر روشنی ڈالی ہے، لیکن انہوں نے اس خطاب میں اتحاد پر زور دیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ نسلی امتیاز کا خاتمہ اب صرف خواب نہیں رہے گا ،اتحاد کے بغیر صرف نفرت رہتی ہے، آج یہ ایک تاریخی لمحہ ہے،انہوں نے کہا کہ میں خدا کے سامنے حلف اٹھاتا ہوں کہ میں ہمیشہ امریکیوں کیساتھ یکساں برتاو کروں گا، انہوں نے کہا کہ جنہوں نے مجھے ووٹ دیا میں ان کا بھی صدر ہوں اور جنہوں نے مجھے ووٹ نہیں دیا ان کا بھی صدر ہوں ، ہماری تاریخ امید کی رہی ہے خوف پھیلانے کی نہیں ،ہم ہر رکاوٹ کو شکست دیں گے،ان کا کہنا تھا کہ ان کا کام امریکا کے مستقبل کو بچانا ہے، ’اس کے لیے محض الفاظ نہیں بلکہ اقدامات درکار ہوں گے،جمہوریت میں اس کے لیے سب سے ضروری اتحاد ہے،‘ان کا کہنا تھا کہ ’جو عناصر ہمیں تقسیم کرنا چاہتے ہیں وہ طاقتور ہیں لیکن وہ کوئی نئے نہیں،انہوں نے والے 4لاکھ امریکیوں کو خراج تحسین پیش کیا ، دوسری جنگ عظیم کے مقابلے میں امریکا میں کورونا سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں ، کروڑوں لوگ بے روزگار ہوئےاتحاد کے بغیر امن کا حصول ممکن نہیں، صدر بائیڈن نے اپنی تقریر کے دوران کورونا کے ہاتھوں موت کا شکار ہو نے والے امریکیوں کی یاد میں خاموشی بھی اختیار کی، انہوں نے کہا کہ اختلاف بغیر تشدد اور لڑائی کے بھی ہوسکتا ہے ، دریں اثناء جو بائیڈن نے صدر کا حلف اٹھانے کے بعد امریکی صدر کے باضابطہ ٹوئٹر اکاؤنٹ کا بھی کنٹرول سنبھال لیا ہے اور اپنی پہلی ٹویٹ میں انہوں نے عہد کیا ہے کہ وہ امریکی خاندانوں کی مشکلات آسان کرنے کے لیے فوری اقدامات اٹھائیں گے، انہوں نے مزید لکھا: ’ہم جس بحران کا سامنا کر رہے ہیں اس میں وقت ضائع کرنے کا بالکل گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے میں فوراً اوول آفس (صدارتی دفتر) جا رہا ہوں۔امریکی صدر جوبائیڈن کی حلف برداری کی تقریب میں دو لاکھ امریکیوں کی نمائندگی جھنڈوں سے کی گئی ،تقریب میں سابق امریکی صدور باراک اوباما، بل کلنٹن اور جارج بش نے تقریب میں شرکت کی ،سابق صدر جمی کارٹر ضعیف العمری اور علالت کے باعث شریک نہ ہوسکے البتہ ایک روز قبل فون پر صدر بائیڈن اور جمی کارٹر کے درمیان گفتگو اور مبارکباد کا تبادلہ ہوا، کیپٹل ہل میں تقریب حلف برداری کے موقع پر واشنگٹن میں 25ہزار فوجی بھی تعینات تھے اور وائٹ ہائوس سے لیکر امریکی کانگریس تک کے علاقے کو ریڈ زون قرار دیا گیا تھا، امریکا میں ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر سیتھ مولٹن نے واشنگٹن میں سخت سکیورٹی کے حوالے سے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’اس وقت واشنگٹن ڈی سی میں جتنے فوجی ہیں اتنے تو افغانستان میں بھی نہیں ہیں اور یہ یہاں ہمیں صدر سے تحفظ دلانے کے لیے ہیں۔ پہلے اسے ہضم کر لیں۔‘میساچوسیٹس سے تعلق رکھنے والے رکنِ کانگریس کا اشارہ اُن 25 ہزار سے زائد نیشنل گارڈز پر ہے جنھیں حلف برداری کی تقریب کی حفاظت پر مامور کیا گیا تھا۔دوسری جانب کیپیٹل ہل جانے والے راستوں پر آہنی باڑیں لگائی گئی تھیں اور ہزاروں سکیورٹی اہلکار گلیوں میں گشت کرتے رہے۔ شہر کے مرکز میں روڈ بلاکس لگا دیے گئے تھے۔چہرے ڈھانپے مسلح اہلکار گلیوں میں تعینات رہے جو گاڑیوں کو چیک کر تے رہے اور ٹریفک کی روانی کو یقینی بنانے میں مصروف نظر آئے۔ سڑکوں پر پولیس کی گاڑیاں موجود رہیں جبکہ شہر کی ہیلی کاپٹرز کی مدد سے بھی نگرانی کی جا رہی تھی۔ واشنگٹن میں بینک، ریستوران اور دکانیں نہ صرف بند رہیں بلکہ ان کے آگے بورڈ لگا دیے گئے تھے تاکہ کوئی وہاں توڑ پھوڑ نہ کر سکے۔ وائٹ ہاؤس کو جانے والی سڑک پر ایسی باڑ لگا دی گئی ہے جس کے نہ تو اوپر چڑھا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے آسانی سے پھلانگا جا سکتا ہے۔اس کے علاوہ اہم عمارات کے اطراف میں جگہ جگہ باڑیں لگی ہوئی ہیں، سکیورٹی احاطے ہیں اور بفر زون ہیں جہاں ہزاروں نیشنل گارڈز تعینات رہے اور دلچسپ بات یہ کہ سکیورٹی کرنے والے ان نوجوانوں پر بھی نظر رکھی جا رہی ہے کہ کہیں وہ تو شرپسندوں سے ملے ہوئے نہیں۔اسی لیے شاید افتتاحی تقریب کے تیاری کے حوالے سے نیشنل گارڈز کے سربراہ میجر جنرل ولیئم واکر نے کہا ہے کہ فوجیوں کے کوائف کو دوبارہ چیک کیا گیا ہے۔