مساوات اور اخوت کی ایک منفرد مثال قائم کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اگر آپ روشنیاں تقسیم نہیں کر سکتے تو اندھیرے ہی بانٹ لیں۔
موجودہ حکومت کو یہ کریڈٹ ضرور ملنا چاہئے کہ اُس نے روشنیوں کے شہر کراچی اور باغوں کے شہر لاہور کو ایک ساتھ لاکھڑا کرنے کے لئے بہت محنت کی ہے۔
کراچی میں کچرا اُٹھانے کے لئے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ سمیت کم از کم 19خودمختار ادارے موجود ہیں مگر پورا شہر کچرا کنڈی کا منظر پیش کرتا ہے کیونکہ یہ ادارے مل کر یومیہ تقریباً 7ہزار ٹن کچرا ٹھکانے لگا پاتے ہیں جبکہ اتنا ہی گھریلو کچرا گلیوں، چوراہوں اور سڑکوں کے کنارے پڑا رہتا ہے۔
جس شہر میں یومیہ 7ہزار ٹن کچرا جمع ہو رہا ہو، وہاں تعفن اور گندگی کا کیا عالم ہوگا؟ طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ برسہا برس سے یہ فیصلہ ہی نہیں ہو پا رہا کہ کراچی کے کچرے کو ٹھکانے لگانے کی ذمہ داری ہے کس کی؟
لاہور میں بھی کم و بیش یہی صورتحال درپیش تھی۔ لاہور کی ضلعی حکومت کا سالڈ ویسٹ مینجمنٹ ونگ کچرا جمع کرنے اور شہر کی صفائی کا اہتمام کرنے کا ذمہ دار تھا مگر دیگر سرکاری محکموں کی طرح یہاں بھی نااہلی اور کام چوری عروج پر تھی۔
اِس دوران 2011میں ایک قابل سول سرونٹ نورالامین مینگل جو اب بلوچستان میں سیکرٹری ورکس اینڈ کمیونیکیشن کے طور پر کام کر رہے ہیں اور تب لاہور کے ڈی سی او ہوا کرتے تھے، نے کمپنیز آرڈیننس 1984کے تحت لاہور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی بنائی اور کچرا ٹھکانے لگانے کا کام اس کے سپرد کردیا۔
اِس دوران شہباز شریف ترکی گئے تو استنبول اور انقرہ میں صفائی کے انتظام سے بےحد متاثر ہوئے۔ وہاں سے بعض ترک کمپنیوں کو پاکستان میں مدعو کیا گیا اور لاہور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی نے شہر کی 22دیہی یونین کونسلوں کے علاوہ باقی سارے شہر سے کوڑا کرکٹ اُٹھانے کا ٹھیکہ ایک ترک کمپنی کو دے دیا۔
ساری مشینری اور گاڑیاں اُس کمپنی کے حوالے کردی گئیں۔ طے کی گئی شرائط کے مطابق لاہور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی نے ترک کمپنی کو ایک ٹن کوڑا اُٹھانے پر 17ڈالر ادا کرنے تھے اور یہ معاہدہ 7سال کے لئے کیا گیا۔ کمپنی کی تشکیل اور پھر صفائی کا ٹھیکہ ایک غیرملکی کمپنی کو دینے پر پنجاب حکومت پر کڑی تنقید کی گئی۔
میں نے بھی کئی تنقیدی کالم لکھے۔ بعض صحافیوں نے تو یہ الزامات بھی عائد کئے کہ شریف خاندان کے ترکی میں مالی مفادات ہیں، انہوں نے وہاں سرمایہ کاری کر رکھی ہے اس لئے ترک کمپنیوں کو ٹھیکے دیے جا رہے ہیں۔
میرا مطمع نظر بھی یہی تھا کہ اگر صفائی نصف ایمان ہے تو پھر ہم ایمان کی اس دولت سے محروم کیوں ہو رہے ہیں اور کیا ہمارے ادارے اس قدر نااہل اور کام چور ہیں کہ شہر کا کوڑا کرکٹ اُٹھانے کے لئے بھی غیرملکی کمپنیوں کو ٹھیکہ دینا پڑتا ہے لیکن بعد ازاں اس ترک کمپنی نے جس طرح کام کیا اور کراچی میں سرکاری اداروں نے شہر کی جو حالت کردی، اسے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ پنجاب حکومت نے بالکل درست فیصلہ کیا اور شہباز شریف پر تنقید بلاجواز تھی۔
لاہور میں تقریباً 5500ٹن کچرا یومیہ جمع ہوتا ہے لیکن ترک کمپنی نے یہ ذمہ داری بہت احسن طریقے سے نبھائی۔
2018میں نیا پاکستان بنا تو ترک کمپنی کے ساتھ کیا گیا معاہدہ ختم ہونے میں چند ماہ باقی تھے۔وہ گاڑیاں اور مشینری جو لاہور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی نے ترک کمپنی کے حوالے کی تھیں ان میں سے بیشتر ناکارہ ہوچکی تھیں۔
ان کی مرمت کے لئے فنڈز روکے جانے لگے۔پھر روزانہ مکمل ادائیگی کے بجائے 60فیصد رقم دی جانے لگی۔ ادائیگیوں کا توازن بگڑ جانے سے ان ترک کمپنیوں کے 3ارب روپے واجب الادا ہو گئے۔حکومت کی طرف سے یہ پروپیگنڈا کیا جانے لگا کہ ان کمپنیوں کے ساتھ ٹھیکے بہت زیادہ نرخوں پر کئے گئے ،یہ 14ارب روپے کھا رہی ہیں۔
حقیقت یہ تھی کہ ان 14ارب روپوں میں سے10ارب روپے ہمارے سرکاری محکمے LWMCکا سالانہ بجٹ ہے جبکہ 4ارب روپے ان کمپنیوں کو ادا کئے جا رہے تھے۔ترک کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کی تجدید نہ کی گئی۔ ادائیگی سے متعلق ٹال مٹول سے کام لیا گیا اور پھر آخر کار ان کمپنیوں کے دفاتر اور املاک پر قبضہ کرکے مشینری اور گاڑیاں قبضے میں لے لی گئیں۔
اس آپریشن کے بعد ایک پرائیویٹ کنٹریکٹر سے کچراٹھکانے لگانے کا معاہدہ کیا گیا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اس کنٹریکٹر کو 40دن کے 240ملین روپے دیئے جائیں گے یعنی ایک سال میں اسے 2190ملین کی ادائیگی کی جائے گی۔
اور المیہ یہ ہے کہ نئے بندوبست کے تحت لاہور سے یومیہ 2000ٹن کچرا اُٹھایا جا رہا ہے جبکہ روزانہ 3500ٹن کچرا جمع ہونے کے باعث گندگی کے پہاڑ بنتے جا رہے ہیں اور پورا شہر کچراکنڈی میں تبدیل ہو رہا ہے۔یعنی اگر پورا کچرا اُٹھانے کا بندوبست کرنا پڑے تو حکومت ترک کمپنی کو جتنی ادائیگی کر رہی تھی، اس سے دوگنا رقم خرچ کرنا پڑے گی۔
ظلِ الٰہی! آپ کسی کو این آر او ہرگز نہ دیں مگر جان کی امان پائوں تو عرض کروں،کچھ دن کے لئے شہباز شریف کو پیرول پر رہا کردیں تاکہ ان کے ذریعے ترک کمپنیوں کے ساتھ معاملات طے کئے جاسکیں ورنہ لاہور اور کراچی میںفرق کرنا دشوار ہو جائے گا۔