• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئن سٹائن سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ خدا پر ایمان رکھتے ہیں ؟ وقت کا دھارا بدلنے والے سائنس دان نے جوا ب دیا ’’میں سپینوزا کے خدا کو مانتا ہوں۔‘‘مرا د یہ تھی کہ میں ایسے غیر شخصی خدا کو مانتا ہوں جوکائنات کا خالق تو ہوسکتا ہے مگر انسانوں کی زندگیو ں میں دخیل نہیں ہے،دنیاوی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا ، معجزے تخلیق نہیں کرتااوردعاؤں کی مدد سے اُس کے فیصلے تبدیل نہیں کیے جا سکتے۔ ایسا خدا ہم انسانوں کے کسی عمل کا محتاج ہے اور نہ منتظر۔

سپینوزا کا تصور خدا کا فلسفہ خاصا عجیب ہے ، ایک سطر میں اگر اسے بیان کیا جائے تو سپینوزا کا خدا کسی انسان کا سرپرست اعلیٰ یا نجات دہندہ نہیں اور نہ ہی یہ خدا انسانوں کی داد رسی کے لیے ہمہ وقت دستیاب ہے بلکہ یہ ایک ایسا غیر شخصی ’جوہر ‘ ہے جو کائنات کو کڑے او ر ناقابل تغیر قوانین کے تحت چلاتا ہے، اِن قوانین کے آگے کسی دعا اور اپیل کی کوئی گنجائش نہیں، یہ قوانین ہر جگہ اٹل ہیں اور کبھی تبدیل نہیں ہوتے۔ ظاہر ہے کہ یہ تصور خدا بائبل یا دیگر مذاہب کے تصور سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا تھا اور پادریوں کے لیے تو بالکل ناقابل قبول تھا جو لوگو ں سے پیسے بٹور کر انہیں جنت کا پروانہ جاری کرتے تھے، وہ کیسے سپینوزا کے خداکو مان لیتے؟تاہم کچھ مغربی مصنفین کا خیال ہے کہ سپینوزا نے خدا کا اچھوتا تصور پیش کرکے ایک طرح سے مذہب پر اٹھائے جانے والے عقلی اعتراضات کا ٹھوس اور شافی جواب دیا ۔ گو کہ اُس زمانے میں سائنس نے ابھی اتنی ترقی نہیں کی تھی مگر اِس کے باوجود مذہب کے باب میں سوال اٹھنا شروع ہو گئے تھے جن کے جواب کے لیے ایک نئے علم الکلام کی ضرورت تھی، یہ ضرورت سپینوزا نے پوری کی ۔سپینوزا کا تصور خدا بظاہر مودبانہ انداز میں خدا کے وجود کا انکار ہے مگر حقیقت میں سپینوزا خدا کے وجود کاقائل تھا۔

سپینوزا کا ایک ’’مقالہ مذہب اور ریاست‘‘ پر بھی ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ سب صحیفے بنیادی طور پر انسانوں اور تمام نسل انسانی کے لیے لکھے گئے ہیں لہٰذا اِن کا مواد ایسا ہونا چاہیے تھا جسے عوامی طور پر سمجھنا مشکل نہ ہو، اِن صحیفوں میں علت و معلول کے کلیے کے تحت معاملات کی تشریح نہیں کی گئی بلکہ انہیں اِس انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو متاثر کیا جا سکے۔ اس کا مقصد انسانی عقل کو ابھار کر قائل کرنا نہیں بلکہ انسانی تخیل کو جھنجھوڑنا ہے، اسی وجہ سے ہمیں اِن میں جا بجا معجزوں کی باتیں اور خدا کا شخصی وجود مصروف عمل نظر آتا ہے۔ ’’داستان فلسفہ‘‘ میں ول ڈیورنٹ لکھتا ہیں کہ سپینوزا کے مطابق اگر اِس اصول پر بائبل کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ہمیں اُس میں کوئی تضاد نظر نہیں آئے گالیکن اگر ہم لفظی تشریح کرنے بیٹھیں گے تو پھر معاملہ الجھ جائے گا۔۔۔دونوں قسم کی تشریحات کا اپنا مقام اور مقصد ہے، لوگوں کو ہمیشہ ایک ایسا مذہب چاہیے ہوگا جس میں کسی مافوق الفطرت وجود کا تصور ہو، اگر ایسے کسی مذہب کا تصور ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی تو لوگ نیا مذہب تخلیق کر لیں گے، تاہم ایک فلسفی کو یہ علم ہونا چاہیے کہ خدا اور قدرت ایک ہی ہیں جو غیر متغیر قانون کے تحت کام کرتے ہیں (صفحہ 210)۔ مشہور مسلم مفکر ابن سینا کا بھی خدا کے بارے میں کسی حد تک یہی غیر شخصی تصور تھا جس پر بعد میں امام غزالی نے سخت تنقید کی۔ سپینوزا کے تصور خدا کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ کائنات بلا مقصد ہے اور اپنے اِس بیان کی حمایت میں سپینوزا کی دلیل خاصی دلچسپ ہے کہ ’’اگر خدا کسی مقصد کوحاصل کرنے کے لیے کوئی عمل کرتا ہے تو اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ اُس مقصد کے حصول سے پہلے خدا کے ہاں کسی قسم کی کوئی کمی ہے لیکن چونکہ خدا کامل اور خود کفیل ہے لہٰذا کمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘

انسان کے علم کو سپینوزا ناقص قرار دیتا اور کہتا ہے کہ علت و معلول کا سلسلہ ہم سے چھپا ہوا ہے اس لیے ہم واقعات کی حقیقت جان نہیں پاتے اوریوں انہیں دوسرے واقعات کے ساتھ غلط انداز میں نتھی کرکے دیکھتے ہیں۔ سپینوزا کی اس بات پر تبصرہ کرتے ہوئے ول ڈیورنٹ لکھتا ہے کہ فلسفے میں پہاڑ ایسی غلطیوں کی جڑ اِس بات میں پوشیدہ ہے کہ انسان اپنے مقاصد، میعارات اور ترجیحات کو ایک ایسی کائنات کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتا ہے جو کسی مقصد کے تحت تخلیق کی گئی ہے لہٰذا یہیں سے برائی کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے اور ہم انسان اپنی زندگی کی برائیوں اور خامیوں کو خدا کی اچھائی کے ساتھ تطبیق کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو لا حاصل ہے۔ اسپینوزا کے الفاظ میں :’’جب بھی کارخانہ قدرت میں ہمیں کوئی بات مضحکہ خیز،بے معنی یا بد لگتی ہے تو اُس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اشیا کا نا مکمل علم ہوتا ہے اور ہم کائنات کے نظم اور قدرت کی ہم آہنگی سے آشنا نہیں ہوتے اور چاہتے ہیں کہ ہر چیز اُس طرح سے ترتیب میں ہو جیسے ہماری عقل کہتی ہے۔جبکہ ہماری عقل جسے برا سمجھتی ہے (ضروری نہیں کہ ) وہ کائناتی نظم اور آفاقی قوانین کے تحت بھی بری ہو،(عین ممکن ہے کہ) وہ ہمارے اختراع کیے گئے قوانین کے تحت ہی برائی سمجھی جاتی ہو۔۔۔۔کوئی بھی بات بیک وقت اچھی ، بری اور غیر متعلق بھی ہو سکتی ہے ، مثال کے طور پر اداسی کے موڈ میں موسیقی خوشگوار اثر ڈال سکتی ہے مگر کسی ماتمی موقع پر اسے برا سمجھا جائے گا اور مردہ لوگوں کے لیے یہ بالکل غیر متعلق چیز ہے ۔‘‘

سپینوزا دراصل انسانوں کو اِس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ وہ اِس کائنات کے رموز و اسرار اور قوانین کو سمجھیں او ر اِن کے مطابق اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ انسانوں کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات، ان دیکھے عوامل کا نتیجہ ہوتے ہیں جنہیں کلی طور پر جاننا انسان کے بس میں نہیں لہٰذا ایسے کسی نا گہانی واقعے سے نمٹنے کے وقت جذبات سے نہیں عقل سے کام لینا چاہیے ، اِس لمحے کو سپینوزا ’Bondage‘ کا نام دیتا ہے، جہاں جذبات کا ریلہ عقل کو بہا کر لے جاتا ہے۔ اِس لمحے کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دینا ہی کامیابی ہے۔

تازہ ترین