• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں کتنے سیاستدان گزرے ہیں ، کتنے حکمران گزرے ہیں۔ آج کا پاکستان عمران خان کے حامیوں اور مخالفین میں بٹا ہوا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے قوم کو کتنا پولرائز کر دیا تھا ۔ اصغر خان کی داستان کیا ہے؟ بظاہر کتنے مختلف لوگ مگر ایک ہی کہانی بار بار دہرائی جاتی ہے۔

جب سے انسان پیدا ہوا ہے، ایک ہی کہانی ہے، جو بار بار دہرائی جاتی ہے ۔

ایک ہی کہانی! ایک شخص کہتاہے : اے میری قوم ، میں ہوں تمہارا نجات دہندہ۔اقتدار پانے اور اسے طول بخشنے کی جدوجہد کے دو تین عشروں بعد وہ مارا جاتا ہے۔ بظاہر ہر انسان کی کہانی ایک دوسرے سے کتنی مختلف لگتی ہے؛ حالانکہ ایک ہی کھیل ہے، جو پچھلے تین لاکھ سال سے کھیلا جا رہا ہے۔

دنیا میں ہماری زندگی، عمر بھر کی انسانی جدوجہد تین چار بنیادی جذبات کی محتاج ہے: اپنی ذات سے شدید ترین محبت، جان بچانے کا خوف، اولاد کی محبت اور مادے (وسائل)کی محبت۔ ہر نفس میں اپنی شدید ترین محبت پیدا کی گئی ہے۔ غصہ، انتقام، نفرت سمیت تمام منفی جذبات اپنی ذات سے اسی محبت کی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں۔ آدمی خود کو نقصان پہنچانے والے کا پیچھا ساری زندگی کرتا ہے۔ اس کی بنیاد بھی اپنی ذات سے یہی بھرپور محبت ہے۔ ہر جبلّت کے پسِ منظر میں یہی محبت ہے؛حتیٰ کہ جان بچانے کا خوف بھی اسی کا مرہونِ منت ہے۔ اپنی ذات سے شدید ترین محبت انسان کو مجبور کرتی ہے کہ تمام تر محرومیوں کے باوجود وہ اپنی زندگی کی حفاظت کرتا رہے۔ کوئی جذبہ اگر اس پہ غالب نظر آتاہے تو وہ اولاد کی محبت ہے۔

خوف بڑا بنیادی جذبہ ہے۔انسان میں جذبات پیچیدہ ترین صورت اس لیے اختیار کرجاتے ہیں کہ وہ عظیم انسانی عقل کے ساتھ تعامل کرتے ہیں۔ یہ عقل اسے ٹوکتی ہے۔ اسے اپنے خطاکار اور گناہ گار ہونے کا احساس دلاتی رہتی ہے۔ آدمی جرم پہ جرم کرتار ہتا ہے۔ و ہ دوسروں کا حق کھاتاہے۔دوسروں کے وسائل پہ قابض ہونے کے لیے انہیں قتل کر ڈالتاہے۔ جوں ہی وہ جرم اور گناہ میں ملوث ہوتاہے، ساتھ ہی خوف بڑھتا چلا جاتاہے۔ بظاہر وہ خوش و خرم ہوتاہے، اندر ہی اندر ایک خلش اسے بے چین کیے رکھتی ہے۔ بظاہر وہ چالاکی سے دوسروں کو لا جواب کیے رکھتا ہے۔ خود کو حق پہ ثابت کرتاہے۔ اندر ہی اندر ایک خوف اسے کھائے جاتاہے۔ قتل کے کسی مقدمے میں کچھ شواہد سامنے آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس خوف میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے؛حتیٰ کہ پر سکون رہنے کے لیے وہ بے تحاشا الکحل پینے لگتاہے۔جرم اور کرپشن کی زندگی میںآدمی کھرب پتی ہو جاتاہے۔ یہ خوف اس کا نظامِ انہضام تباہ کر ڈالتاہے۔اسے اپنے دماغ کی رگیں پھٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔

خوف انسان کو ما رڈالتاہے ۔ جہاں موقع ملے، شیطان انسان کے اندر یہ احساس پوری قوت سے پیدا کرتاہے کہ اس سے ایسے گناہ سرزد ہو چکے ،جن کی معافی کا اب کوئی امکان نہیں۔یہ شیطان کی طرف سے اس توبہ کا انتقام ہے ، جو آدمؑ نے خدا کے حضور پیش کی اور قبول کر لی گئی ۔ شیطان یقین دلاتا ہے کہ انسانیت کے رتبے سے وہ نیچے گر چکا ؛لہٰذا اب اسے مر ہی جانا چاہیے۔ مستقل طور پر ایسے خیالات کے حصار میں رہنا، جو انسان کو تکلیف پہنچا رہے ہوں، ذہن کے لیے بہت نقصان دہ ہوتاہے۔

انسانی دماغ میں بہت سے پیچیدہ توازن بگڑنے لگتے ہیں۔ ذہنی خلیات ایک دوسرے سے رابطے کے لیے چند مادوں مثلاًسیرو ٹونن کے محتاج ہوتے ہیں۔ان مادوں کا توازن بگڑنے کے ساتھ ہی آدمی ایک ناقابلِ برداشت تکلیف میں اتر جاتا ہے۔ وہ مستقل طور پر اداس ہو جاتاہے۔خواہ وہ کتنی ہی کوشش کر ے، اپنے آپ کو کتنا ہی سمجھائے، زبردستی بھاگ دوڑ کرتا رہے، اس کیفیت کو وہ بدل نہیں سکتا۔

ذہین اور بنیادی طور پر نیک فطرت لوگ بھی اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔ یہ صورتِ حال مناسب دوا (Medication) کی متقاضی ہوتی ہے لیکن ماہرِ نفسیات (Psychiatrist) سے رجوع کرنا باعثِ شرم سمجھا جاتا ہے؛ لہٰذا اکثر لوگ اندر ہی اندر گلتے سڑتے رہتے ہیں۔ مناسب ادویات ضروری ہیں۔ علم میں اضافہ آدمی کوبہت سے نفسیاتی مسائل سے بچا لیتا ہے۔ قرآنِ کریم کی آیات اپنے حافظے میں منتقل کرتے چلے جانے سے معجزے رونما ہوتے ہیں ۔

آدمی میں مادی وسائل کی محبت پیدا کی گئی ہے۔ دولت بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ محبت کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی جاتی ہے؛ حتیٰ کہ آدمی روپیہ کمانے کی مشین بن کر رہ جاتاہے۔ دولت جمع کرتے کرتے انسان قبر میں جا لیٹتا ہے۔ ضرورت سے بہت زیادہ مال جمع کرنے اور جمع ہی کرتے چلے جانے کی بیماری انسان کو ذہنی مریض بنا کر رکھ دیتی ہے۔ توازن سے وہ محروم ہوجاتاہے لیکن اس کے رزق سے پھر سینکڑوں ،ہزاروں لوگوں کا رزق وابستہ ہوتا ہے۔ خدا یہ دنیا اسی طرح چلاتاہے۔ اگر یہ بیمار لوگ نہ ہوں تو کاروبارِ دنیا ٹھپ ہو کر رہ جائے۔

سادہ زندگی، باعزت طور پر ضروریاتِ زندگی حاصل کرنے کی جدوجہد، حصولِ علم، دوسروں کے تکلیف دینے والے روّیوں کی بنیاد کو سمجھنا، اپنا تجزیہ، زندگی کو سمجھنے کی کوشش۔ ایک توازن ہی سے انسان طمانیت بھری زندگی بسر کر سکتا ہے۔ آدمی کو اپنی تمام زندگی کسی ایک خونخوار جبلت کے حوالے نہیں کر دینی چاہیے۔

تازہ ترین