بلاشبہ بیٹیاں اللہ کی رحمت ہیں، جن کی معصومانہ باتوں، شرارتوں، ہنسی قہقہوں سے گھر آنگن چہکتا مہکتارہتا ہے ، لیکن اسی معاشرے میں کچھ ایسے درندہ صفت بھی ہیں، جن سے ان کی یہ معصومیت برداشت نہیں ہوتی کہ ہوس کے یہ پجاری ان معصوم کلیوں کو مسلنے میں وقت نہیں لگاتے، کسی خوں خوار جانور کی طرح تاک لگائے بیٹھے ہوتے ہیں کہ اِدھر موقع ملے اور اُدھر وہ ان کا بچپن، معصومیت، ہنسی چھین لیں۔
معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کوئی نئی بات نہیں کہ اب تو یہ معمول کی بات لگنے لگی ہے۔ مُلک بھر کی طرح خیبر پختون خوا میں بھی آئے روز ننھّی بچیوں کو درندگی کا نشانہ بنایا جارہا ہےاورافسوس ناک امر یہ ہے کہ اس حوالے سے قانون سازی ہونے کے با وجود بھی ایسے واقعات میں کمی نہیں آ رہی۔
اسی طرح کا ایک واقعہ گزشتہ دنوں پشاور کے علاقے، بڈھ بیر میں پیش آیا، جہاں 7سالہ عالیہ کو سہیلیوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے اغوا کرکے زیادتی کا نشانہ بنا نےکے بعد قتل کر دیاگیااور بات یہیں ختم نہیں ہوئی کہ شواہد مٹانے کے لیے درندوں نے بچّی کی لاش ہی جلادی۔
تفصیلات کے مطابق 7سالہ بچّی کے گھر قر آن خوانی تھی، تو وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ باہر کھیلنے چلی گئی ۔شام کو جب سب بچیاں گھر لوٹیں اور عالیہ نہ آئی تو گھروالوں کو تشویش لاحق ہوئی اور اس کی تلاش شروع کی گئی ، مگر 3 روز گزرنے کے بعد بھی عالیہ کی کوئی خیر خبرنہ ملی۔بعد ازاں، والدین کو تھانہ بڈھ بیر سے اطلاع ملی کہ انہیں ایک بچّی کی جلی ہوئی لاش ملی ہے، جس کا چہرہ قابلِ شناخت ہے۔ یوں گھروالوں کو پتا چلا کہ ان کے آنگن کی ننّھی کلی کو کسی نے زیادتی کے بعد جلا دیاہے ۔
تھانے جاکر مزید معلومات کیں تو پتا چلا کہ چھے روز قبل بڈھ بیر ہی سےایک چارسالہ بچّہ بھی لا پتا ہوا تھااور اس کی بھی لاش ملی ہے۔ ایک ہفتے میں دو بچّوں کے اغوا کے بعد قتل اور ملزمان کی عدم گرفتاری پر اہلیانِ علاقہ سرا پا احتجاج بن گئےاور کوہاٹ روڈ کو ٹریفک کے لیےبلا ک کر دیا۔تاہم ، آئی جی پی خیبر پختون خوا، ثناء اللہ عباسی نے واقعے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ملزمان کا سراغ لگانے کے لیے ایس یس پی آپریشنز اور انویسٹی گیشن کی نگرانی میں علاقےکے معززین کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ ٹیم تشکیل دی ، جس نے ایک ماہ بعدبالو خیل کے رہائشی، ملزم آصف رضاولد غلام رضا کو ضلع خیر ذخہ خیلی سے گرفتار کرلیا۔ ابتدائی تفتیش میں ملزم نے اعتراف کیاکہ ’’مَیں عالیہ کا پڑوسی ہوں، مجھے شیطان نے ورغلادیا تھا۔
مَیں نے زیادتی کے بعد پکڑے جانے کے ڈر سے بچّی کو قتل کرکے جلا دیا، تاکہ شناخت نہ ہو سکے۔ واضح رہے، مُلک بھر میں بچّوں سے زیادتی کے لاتعداد واقعات رُو نما ہوتے ہیں، جن میں سے کچھ ہی رپورٹ ہوپاتے ہیں، اکثروالدین بد نامی کے ڈر سے پولیس کو مطلع ہی نہیں کر تے۔ اور یوں اَن گنت معصوموں کو انصاف نہیں مل پاتا۔ اس حوالے سے آئی جی ، خیبر پختون خوا، ثناء اللہ عباسی کا کہنا ہے کہ ’’معاشرتی قدامت پسندی کے باعث کئی خاندان، بچّوں سےجنسی زیادتی کے واقعات کی رپورٹ ہی درج نہیں کرواتے۔
تاہم، مَیں نےپولیس کو سختی سے ہدایت کی ہے کہ ایسے تمام واقعات پر نظر رکھے اور بر وقت مقدمہ درج کرے۔ یہی وجہ ہے کہ کے پی کے میں بچّوں سے زیادتی کے رجسٹرڈ کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’ ہم اب تک بچّوں کے ساتھ زیادتی اور قتل میں ملوّث 235 ملزمان کو گرفتار کر چُکے ہیں۔معاشرے کو زیادتی کے شکار بچّوں اور ان کے خاندانوں کے ساتھ اپنے رویّےمیں تبدیلی لانی چاہیے۔ مجرموں کی گرفتاری کے ساتھ معاشرے میں شعور بیدارکرنے کی بھی سخت ضرورت ہے۔ گزشتہ برس خیبر پختون خوا میں 198بچّوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔‘‘
اگر بچّوں کے ساتھ جنسی زیادتی ، قتل و تشدّد کے واقعات کا عمیق جائزہ لیا جائے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے، جیسے ہم کسی جنگل میں رہ رہے ہیں، جہاں چاروں طرف بھیڑیئے ، درندےمنڈلا تے رہتے ہیںکہ کب موقع ملے اور وہ معصوم بچّوں کو نوچ کھائیں۔ اس حوالے سے ایڈووکیٹ زینت محب کاکا خیل کا کہنا ہے کہ ’’چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ2010ءکے تحت کسی بھی بچّے کے ساتھ جنسی زیادتی کے مرتکب فرد کے لیے 10سال قید کی سزا مقرّر کی گئی ہے، جب کہ پاکستان پینل کورٹ کی 2016ء کی ترمیم کے مطابق ایسے فرد کی سزا 14سال ہے۔ چائلڈ پرو ٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ 2010 ءکے تحت خیبر پختون خوا کے ہر ضلعے میں چائلڈ پرو ٹیکشن کے حوالے سے عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جانا چاہیے تھا، لیکن 12سالوں میں صرف 4ہی اضلاع (پشاور،مردان، ایبٹ آباد اور غلنئی ) میں ان کا قیام ممکن ہو۔ گر چہ صوبائی حکومت نے7 ڈویژنز میں مذکورہ عدالتوں کےقیام کاحکم جاری کر رکھا ہے، لیکن بچّوں سے زیادتی کے مسلسل بڑھتے واقعات کے پیشِ نظر صوبے کے 35اضلاع میں ان عدالتوں کے قیام کی ضرورت بڑھ گئی ہے،تاکہ متاثرہ بچّوں اور ان کے والدین کو جلد انصاف مل سکے ۔
دوسری طرف متاثرہ بچّوں اور ان کے والدین کی سوشل کاؤنسلنگ بھی سخت ضروری ہےتا کہ وہ عملی زندگی کی جانب دوبارہ لَوٹ سکیں۔ اس حوالے سےبچّوں کے حقوق کے لیےکام کرنے والی ایک تنظیم ،گروپ ڈویلپمنٹ پاکستان کے پراجیکٹ کوآرڈی نیٹر،عمران ٹکر کا کہنا ہے کہ ’’ جب بھی بچّوں سے زیادتی کا کوئی واقعہ رُونما ہوتاہے، تو سب کی نظریں پولیس پر ہوتی ہیں، حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ پولیس نوّے فی صد کیسز میں ملزمان کو گرفتار کر لیتی ہے، لیکن سزا کا معاملہ تفتیشِ استغاثہ، گواہان، شواہد ،ثبوت، بیانات اوروکلا کے دلائل وغیرہ پر منحصر ہوتاہےاور عدالت بھی ثبوت و شواہد کی روشنی ہی میں فیصلہ سُناتی ہے ۔پھر یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاںپولیس کی تفتیش کا عمل خاصاروا یتی ہے۔ وسائل، جدید تیکنیک ،قابلیت اور تجربے کی کمی بھی آڑے آجاتی ہے۔میرے خیال میں ایسے کیسز کی ذمّے داری تجربہ کار، باصلاحیت خواتین آفیسرز کو دینی چاہیے۔
مزید بر آں، ہمارے صوبے میں بچّوں سے زیادتی کے واقعات کی تفتیش کے لیے جدید لیبارٹریز تک موجود نہیں، لاہور کی فرانزک لیبارٹری سے رپورٹ آنے میں ایک ہفتےسے لے کر ایک مہینہ لگ جاتا ہے۔حالاں کہ وزیر اعظم پاکستان اور وزیرِ اعلیٰ خیبر پختو ن خوانے پشاور میں فرانزک لیبارٹری بنانے کا وعدہ کیا تھا، مگر وہ اب تک وفا نہیں ہو سکا۔ خیبر میڈیکل کالج میں فرانزک لیبارٹری کی ایک برانچ موجود ہے، لیکن اس کی اب تک کوئی کارکردگی سامنے نہیں آ سکی۔‘‘
خیبر پختون خوا اسمبلی کی چائلڈ پرو ٹیکشن کمیٹی کی رکن اور ایم پی اے ، عائشہ بانو کے مطابق ’’صوبے میں بچّوں کے تحفّظ کے حوالے سے قانون موجودہے، لیکن اس میں ترمیم کا بِل بھی تیار کر لیا گیا ہے، جو اسپیکر اسمبلی، مشتاق غنی کی سر براہی میں حکومتی اور اپوزیشن بینچزکےارکان، لا ڈیپارٹمنٹ اور چائلڈ پرو ٹیکشن کمیشن کے نما ئندوں پر مبنی کمیٹی کی رپورٹ پر مشتمل ہے ۔یہ رپورٹ وزیرِ اعلیٰ کو بھجوا دی گئی ہے، تاکہ کیبنٹ کی منظوری کے بعد اسےاسمبلی کے آئندہ اجلاس میں پیش کیا جا سکے ۔ترمیمی بل میں سزائوں کو بڑھانے کی تجویز کے ساتھ اس کے نفاذ اورآگہی کے حوالے سے اقدامات پر زور دیا گیا ہے، تاکہ اس قسم کے واقعات کا تدارک ہو سکے۔‘‘
دوسری جانب بچّوں سے جنسی زیادتی کےبڑھتے ہوئے واقعات کے حوالے سے والدین کا کہنا ہے کہ ’’ جمعے کے خطبوں میں اس مسئلے کو اُجاگر کیا جانا چاہیے، تاکہ عوام میں اس گناہ، قتل اور زیادتی کے حوالے سے شعور بیدار ہو۔ علاوہ ازیں، زنا بالجبراورقتل کے حوالے سے اسلامی تعلیمات عام کی جانی چاہئیں کہ یہ کتنا بڑا گناہ ہےاور اس کی سزا کیا ہے کہ جب تک اس مسئلے سے متعلق ہر سطح پر آواز بلند نہیں کی جائےگی، تب تک معاشرے سے اس ناسور کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔
علاوہ ازیں، بچّوں میں بھی اس حوالےسے شعور وآگہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔اس ضمن میں اسکولز، کالجز میں ورک شاپس، سیمینارز منعقد ہونے چاہئیں اور سیلف ڈیفینس کی تربیت بھی دی جانی چاہیے تاکہ ضرورت پڑنے پر بچّےخود اپنا دفاع کرسکیں۔‘‘