• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرا پچھلا کالم اس بات پر ختم ہوا تھا کہ برطانوی حکومت کی طرف سے جاری کیے گئے انڈین انڈیپنڈنٹس ایکٹ کے تحت ہندوستان اور پاکستان آزاد تو ہوئے مگر اسی ایکٹ کے تحت دونوں ملکوں کو مختصر مدت میں انتخابات کراکے اپنے اپنے ملکوں کے آئین بھی بنانے تھے۔ ہندوستان میں تو ایسا ہی کیا گیا مگر کیا پاکستان میں ایسا ہوا؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب آج تک پاکستان کے کسی بھی حکمران نے نہیں دیا۔ ساتھ ہی میں اس بات کا بھی حوالہ دیتا چلوں کہ 1940میں قائد اعظم محمد علی جناح کی سربراہی میں لاہور میں منظور کی گئی قرارداد میں یہ بات واضح کی گئی تھی کہ جو ریاستیں (صوبے) پاکستان کا حصہ بنیں گے وہ Autonomousاور Sovereignہوں گے۔ یہ بات افسوس سے کہنا پڑتی ہے کہ 1973تک یا تو انتخابات ہی نہیں کرائے گئے اور اگر ایک دو بار کرائے گئے تو وہ انتخابات کے نام پر مذاق تھے۔ اسی طرح 1973تک یا تو آئین نہیں بنائے گئے، آئین کے بجائے مارشل لا رہا اگر آئین بنائے گئے تو وہ آئین کے نام پر آئین کا مذاق تھے۔ اس سلسلے میں،میں فی الحال دو مثالیں دوں گا۔ جب ایک انتخاب میں جنرل ایوب خان ملک کے صدر منتخب ہوئے توان کے مقابلے میں قائد اعظم محمد علی جناح کی بہن محترمہ فاطمہ جناح صدر کی امیدوار تھیں مگر محترمہ فاطمہ جناح کو ہرایا گیا اور جنرل ایوب خان صدر منتخب ہو گئے۔ محترمہ فاطمہ جناح مشرقی پاکستان سے تو منتخب ہو گئیں مگر انہیں مغربی پاکستان سے منتخب نہیں ہونے دیا گیا جہاں تک اس عرصے کے دوران آئین بننے کا سوال ہے تو اس آئین کے بارے میں مزید کیا رائے دوں۔ فی الحال میں اس وقت کے پاکستان کے ممتاز شاعر حبیب جالب کے ایک شعر کا حوالہ دیکر یہاں اس شعر کی صرف آدھی سطر پیش کررہا ہوں جس میں کہا گیا تھا کہ

’’ایسے دستور کو‘ صبح بے نور کو‘ میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا‘‘۔ پاکستان کا پہلا قابل ذکر آئین 1973میں بنا جس کا سہرا پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کے سر ہے،یہ آئین پاکستان کا پہلا وفاقی اور جمہوری آئین تھا مگر اس آئین میں بھی صوبوں کو وہ سارے حقوق نہیں دیئے گئے تھے جو ایک Autonomousاور Sovereignصوبے کا حق ہوتا ہے۔ بہرحال صوبوں اور عوام کے حقوق کسی حد تک 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے بحال کیے گئے جبکہ یہ آئینی ترمیم موجود ہ ’’حاکمِ وقت‘‘ کو قبول نہیں اور بار بار اس کو واپس لینے یا اس میں ترامیم کرنے کی بات کی جاتی ہے مگر چونکہ حاکم وقت کو احساس ہوگیا ہے کہ صوبے 18ویں آئینی ترمیم کے ساتھ کسی قسم کی بھی چھیڑ چھاڑ کو قبول نہیں کریں گے بلکہ ایسا کرنے پر مرکزی حکومت کے خلاف کوئی بھی سخت اجتماعی احتجاجی تحریک چلانے پر مجبور ہوجائیں گے۔ اس سلسلے میں خاص طور پر سندھ کے عوامی اور سیاسی حلقوں میں یہ تجاویز بھی زیر غور ہیں کہ 18ویں ترمیم کو ختم کرنے یا اس میں ترمیم کرنے کے بجائے 18ویں آئینی ترمیم جیسی ایک اور ترمیم پارلیمنٹ سے منظور کرائی جائے۔ اس سلسلے میں کسی بھی وقت سندھ کے اندر سیاسی تحریک شروع ہوسکتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس سلسلے میں نہ صرف سندھ کے قوم پرست حلقوں،بائیں بازو کے سیاسی عناصر و دیگر تنظیموں کے درمیان تبادلہ خیال ہورہا ہے یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اس سلسلے میں سندھ کے قوم پرست اور بائیں بازو کے حلقے جلد بلوچستان اور کے پی کے قوم پرست،جمہوری اور عوامی حلقوں سے رابطے کرنے کی تیاری کررہے ہیں مگر موجودہ مرکزی حکومت کی تازہ ترین سرگرمیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ حکومت فی الحال 18ویں آئینی ترمیم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کے بجائے اس آئین کی مختلف شقوں پر عملدرآمد روک کر اپنا کام آگے بڑھانا چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک مثال تو یہ ہے کہ قومی مالیاتی کمیشن کے بارے میں آئین کی شق 160کی ذیلی شق 3(A)میں کہا گیا ہے کہ:

"The share of the provinces, in each Award of National Finance Commission shall not be less than the share given to the provinces in the previous Award."

آئین کی یہ شق بہت واضح ہے،موجودہ مرکزی حکومت نے اس مالی سال کے پہلے تین ماہ میں جو کارنامے سرانجام دئیے ہیں اس کی کچھ تفصیلات آئندہ کالم میں پیش کروں گا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین