بھارتی فلم ”بھائی بھائی“ 1956ء میں ریلیز ہوئی تھی!اس میں لتا منگیشکر نے ایک خوبصورت گانا گایا تھا، اس کالم میں آپ کو گانا تو نہیں سنوایا جاسکتا، تاہم اس گانے کے بول پڑھیں اور مزہ لیں۔
اس دنیا میں سب چور چور، اس دنیا میں سب چور چور
کوئی پیسہ چور، کوئی مرغی چور، کوئی دل کا چور
اس دنیا میں سب چور چور…
کوئی چوری کرے خزانے کی
کوئی آنے دو آنے کی
کوئی چھوٹا چور، کوئی بڑا چور
یہ بیٹھا چور، وہ کھڑا چور
اس دنیا میں سب چور چور…
کوئی ڈاکہ ڈالے راتوں میں
کوئی کاٹے باتوں باتوں میں
کوئی گورا چور، کوئی کالا چور
کوئی لاٹ صاحب کا سالا چور
اس دنیا میں سب چور چور…
یہ سوال پوچھنا آپ کا حق بنتا ہے کہ میں آپ کو گانا سنوانے کیوں بیٹھ گیا۔ تو حضرت … ہم پاکستانیوں نے جہاں دوسرے شعبوں میں عظیم کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں وہیں ہم نے چوری میں بھی ریکارڈ قائم کردیا!ٹیکس چور ہم پہلے ہی تھے، خزانے کے چور بھی ہم تھے، وسائل کی لوٹ مار میں بھی ہم نمبر ون تھے، بچوں کے ہاتھ سے ٹافی چھیننے سے ہم گریز نہیں کرتے، بجلی اور گیس کی چوری ہمارا وطیرہ ہے، بنک لوٹنا ہمارا دل پسند مشغلہ ہے، راہ چلتے لوگوں کو لوٹنا ہمارا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے!!
مگر جو کام حیدرآباد کے قریب پاکستانیوں نے انجام دیا ہے ، اس نے تو سلطانہ ڈاکو کو بھی مات کردیا ہے!
ستم ظریف چوروں نے دوٹرالروں پر لدی ہوئی NATOکی گاڑیوں کو، ٹرالروں سمیت چرالیا اور کئی دن سے ان میں سے سامان نکال نکال کر بیچ رہے تھے!
امریکہ اور نیٹو کا جنگی سامان چوری کرنا ہمارے لئے ایسے ہی ہے، جیسے گاؤں کا میراثی ،اپنے چودھری یا نمبردار کی بھینس چرالے، پھر ان گاڑیوں سے سامان نکال کر بیچنا ایسے ہی ہے ، جیسے میراثی چرائی ہوئی بھینس کا دودھ چودھری کے گھر کے باہر ٹھیلا لگا کر بیچنا شروع کردے!!
شیخ سعدی کے بقول
چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد
(کتنا بہادر چور ہے کہ ہاتھ میں چراغ لے کر چوری کرنے آتا ہے)
دلاوری ،بہادری چوری اور سینہ زوری کا ذکر آیا تو ماضی کا ایک قصہ اور سن لیجئے!یہ قصہ ہمیں زبیر رانا مرحوم (خدا انہیں آخرت میں بھی اپنے افعال و اشغال جاری رکھنے کی قدرت عطا فرمائے) نے سنایا!
کسی دور میں پنجاب کے دریاؤں کے آس پاس جانگلی آبادیوں میں جرائم پیشہ افراد کا دل پسند شغل”ڈنگر چوری“ تھا۔ مویشی چوروں کے سر پرستوں کو رسہ گیر کہا جاتا تھا۔ مویشی اس لئے چوری کئے جاتے تھے کہ زمینداروں کے پاس سونا چاندی اور نقدی تو ہوتی نہیں تھی ۔سب سے بڑی جائیداد زمین ا ور مویشی ہوتے تھے۔ زمین چوری نہیں ہوسکتی، مویشی رات کی تاریکی میں کھول لئے جاتے تھے! اس دور میں مویشی چوری جاں بازوں کا کام سمجھا جاتا تھا اور سب سے بڑی بہادری پولیس کی مار کھانا اور جرم نہ قبولنا ہوتا تھا۔
ایسا ہی ایک مویشی چور پولیس کے ہتھے چڑھ گیا۔ پولیس والوں نے مار مار کر اس کا حشر کردیا مگر وہ اقرار جرم کرنے پر تیار نہ ہوا۔ آخر تھانیدار عاجز آگیا…اس نے ہتھکڑیوں میں جکڑے چور کو بلایا، سامنے زمین پر بٹھایا اور پوچھا
”اوئے اللہ دتے…تو مار کھا کھا کر تھک گیا ہے، اب کچھ کھانا بھی کھائے گا کیا؟
چور نے بے تکلفی سے فرمائش کردیا
”تھانیدار…دودھ جلیبیاں چا کھوا“(مجھے دودھ جلیبیاں کھلادو!)
تھانیدار کے حکم پر دودھ جلیبیاں آگئیں، اللہ دتے نے رغبت سے کھائیں، ہاتھ کی پشت سے منہ صاف کیا، مونچھوں کو بل دیا اور تھانیدار سے کہنے لگا
”تھانیدار…آہ پستول تے وکھا(ذرا مجھے اپنا پستول تو دکھانا)
تھانیدار نے گولیاں نکال پستول چور کے ہاتھ میں دے دیا، چور نے اسے گھما پھرا دیکھا اور کہنے لگا”تھانیدار…تو میتھوں ڈنگراں دی چوری منوانا چاہنا ایں…اس توں تو پہلاں جے توں میتھوں ایہ منوالیں کہ میں تیرا پستول پھدیا اے تے میرا پیو کوئی ہوراے! (تھانیدار تم مجھ سے ڈنگراں کی چوری قبول کرانا چاہتے ہو، اگر تم مجھ سے اس بات کا اقرار کرالو کہ میں نے تمہارے ہاتھ سے پستول پکڑا ہے تو میرا باپ کوئی اور ہوگا!NATOکی گاڑیاں چوری کرنے والے تو حکومت سے داد شجاعت کے مستحق ہیں ہی…اصل داد کے مستحق تو اپنے راجہ پرویز اشرف ہیں جنہوں نے اپنی حکومت ختم ہوتے ہوتے قومی خزانے سے43ارب روپے یوں ڈکارے کہNATOچوروں نے کیا بہادری دکھائی ہوگی۔ ان کا کیس تو سپریم کورٹ میں ہے ، جس نے راجہ صاحب کے خلاف کرپشن کی تحقیقات کا حکم بھی انہی لوگوں کو دیا ہے ،جن کے ذریعے کرپشن ہوئی مگر یہ ایک الگ بحث اور کہانی ہے۔اصل بات پاکستانی چوروں کی دلاوری اور بہادری کا اعتراف ہے۔ عدالتی کارروائی اپنی جگہ جاری رہے مگر ان سب چھوٹے بڑے چوروں کو ”حسن کارکردگی“ کے سرٹیفکیٹ اور تمغے ضرور ملنے چاہئیں۔آغاز راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی سے ہو تو بہتر ہے۔ یہ کام جلد ہونا چاہئے کیونکہ چور سیاستدانوں اور بیوروکریٹوں کی لائن بہت لمبی ہے۔