• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عورت: شاہ عبداللطیف بھٹائی کی نظر میں...

سندھ’’ امن کی دھرتی ‘‘کہلاتی ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہاں بوسیدہ رسم و رواج کے نام پر صدیوں سے عورتوں کے ساتھ ظلم و جبر ہوتا چلا آرہا ہے۔ ویسے تو آج کل سندھ کی عورت کے حق میں بہت آوازاُٹھائی جا رہی ہے۔اُ س کے قدم مضبوط کرنے کی سعی بھی جاری ہے، لیکن سندھ کے صوفی شاعر شاہ عبداللّطیف بھٹائی نے توصدیوں پہلے اپنے کلام میں عورت کے مضبوط کردار کی گواہی دی ،لوگوں کو بتایا کہ عورت کسی سے کم تر نہیں ، وہ تو مہر ووفا کی مُور ت ہے اور اگر ہمّت، ذہانت،عشق اور وفا کا درس لینا ہو، توسسّی، ماروی اور سوہنی سے لینا چاہیے۔ 

شاہ بھٹائی نے سات سورمیوں (شہزادیوں)کے قصّوں کو بذریعہ شاعری بیان کر کے معاشرے کو عورت کے بارے میں ایک نئی سوچ و فکر دی۔ انہوں نے اپنی شاعری میں مَردوں کے بجائے خواتین کو اہمیت دی۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں ’’سات سورمیوں کا شاعر ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے تخلیق کردہ کر داروں ’’سسّی، ماروی، مومل، سوہنی، موکھی، سورٹھ اور نوری‘‘ نے انہیں امر کر دیا۔ شاہ سائیں سسّی کے بارے میں لکھتے ہیں ؎ سسّی کے پیر تھے ریشم جیسے، پربت میں وہ پیادہ…قابلِ دید تھی آبلہ پائی… زخم ہوئے تھے تازہ…پھر بھی پربت روند رہی تھی… ہجرمیں من تھا ماندہ…جس نے بندھن باندھا، کاش کہ اس سے مل آؤں۔ انہوں نے سسّی پنّوں کے عشق کی کہانی ایسے بیان کی کہ؎ بھنبھور تیرا میلا تھا…پنوں نے آکر اسے اُجلا کیا… کنواریوں نے کپڑے رنگنے سیکھے… اور اس کے رنگ میں رنگ گئیں۔

شاہ لطیف نے سندھ کی عورت کو ظلم کے خلاف بغاوت، مزاحمت، احتجاج اور انحراف کرنا سکھایا اور سمجھایا کہ وہ ہر مشکل کا سامنا ہمّت و حوصلےسے کر سکتی ہیں۔ فرسودہ رسم و رواج کے دَور میں شاہ صاحب نے عورتوں کو اپنی شاعری میں وہ اہمیت دی، جو شاید دنیا کا کوئی اور شاعر ابھی تک نہ دے سکا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج کئی لوگ انہیں ’’ فیمینسٹ شاعر ‘‘بھی کہتے ہیں۔آفاقی شاعر ، شاہ لطیف کی شاعری محض لوک داستانوں ہی پر مشتمل نہیں، انہوں نے دریائے سندھ، سندھ دھرتی کے میدانوں، ریگستانوں اور پہاڑوں سمیت کینجھر جھیل، مچھیروں کی زندگی سمیت کئی موضوعات کو بھرپور انداز میں پیش کیا ۔شاہ لطیف نےمچھیروں کی زندگی بھی کچھ یوں بیان کی کہ ؎بدبو جن کی خوراک…بدبو دار مچھلیاں جن کی پونجی…سمہ سلطان نے ان سے رشتہ جوڑا…جو دُکھوں سے نڈھال ہیں…لطیف کہتا ہے کہ اے سمہ سلطان…ان ٹھکرائے ہوئے، دُھتکارے ہوؤں کی لاج رکھنا۔

سندھ دھرتی کے عظیم صوفی شاعر، حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی وہ واحد شاعر ہیں، جن کی شاعری کو اتنا عرصہ گزرجانے کے با وجو د بھی آج تک انتہائی دل چسپی سے پڑھا اور گایا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے انسانیت، محبت، برداشت اور امن کا پیغام دیا۔ آج بھی ہر رات، راگی شاہ سائیں کے مزار پر اُن کا کلام گاتے ہیںاور وہ طنبورے کے تاروں سے ایسے الاپ پیدا کرتے ہیں کہ سُننے والوں کو سحر میں مبتلا کر دیتے ہیں اور دل چسپ بات یہ ہے کہ شاہ بھٹائی کا کلام پڑھنے اور پسند کرنےوالوں میں ہر عُمر اور ہر طبقے کے افراد شامل ہیں۔

تازہ ترین