• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عبدالغفور کھتری

گنگنانا یا باقاعدہ راگ الاپنا، یہ صفت انسان میں کب پیدا ہوئی۔ اس کے بارے میں تاریخ کوئی حتمی عہد نہیں بتا سکی۔ البتہ اتنا ضرور معلوم ہو سکا کہ اشاروں کی زبان میں بات کرتے کرتے، جب وہ اپنا مافی الضمیر حلق سے برآمد ہونے والی آواز کے ذریعے ادا کرنے لگا، تو سُرور اور یاس کے جذباتی موقعوں پر بے اختیاری کے عالم میں اس نے چند ربط وار جملے ادا کیے ہوں گے، جو آگے چل کر شاید شاعری کی صورت گری پر منتج ہوئے اور اسی چند جملوں کو آلاپ کی صورت میں ادا کرنے پر راگ کی ابتداء ہوئی ہوگی۔ راگ کے ساتھ لازم و ملزوم سمجھے جانے والے آلات موسیقی کو غاروں میں قیام کے دوران ہی انسان نے ایجاد کر لیا تھا۔ غاروں کے ان قدیم باسیوں نے مختلف جانوروں کی ہڈیوں اور سینگوں میں سوراخ کر کے اولین ساز بنائے تھے۔

یہ ابتدائیں ہزاروں لاکھوں سالوں کا سفر طے کرتی ہوئی باقاعدہ شاعری، گلوکاری اور موسیقی میں ڈھلتی گئیں۔

ان تین صنفوں سے لگائو کھاتی فنون لطیفہ کی ایک اور صنف بھی ہے، جس کا تعلق ان تین مذکورہ اصناف کی طرح انسانی فطرت سے قریب تر ہے اور وہ پُر لطف لمحات میں اضطراری طور پر جُھومنا،جسے رقص کا نام دیا گیا۔

ایک مشاہدے کے مطابق کچھ اثر پذیر آوازیں کہ وہ کسی ساز سے برآمدہوں یا انسانی حلقوم سے، دونوں کبھی انفرادی حیثیت میں اور کبھی مشترکہ حیثیت میں، نہ صرف انسانوں کو بلکہ حیوانوں کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ قدیم عرب میں بدو اپنے اونٹوں کے قافلے کو رواں دواں رکھنے کے لیے ایک آلاپ گاتے تھے، جن کے زیر اثر قافلے کے اونٹ ایک عالم نشاط میں چلتے ہی جاتے تھے۔

بین کی آواز سُن کر سانپ کا بِل سے باہر نکل کر جھومنا بھی آواز کے زیرو بم اور لے کا کرشمہ ہے۔ ماں کے گلے سے لوری کی صورت نکلنے والی آواز کے سحر سے بچے کا سو جانا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ لے انسان پر اپنا اثر چھوڑتی ہے۔ ان مثالوں سے ظاہر ہوا کہ سُر، راگ یا آلاپ سے متاثر ہونا انسانی جبلت میں شامل ہے۔ سُر، راگ، رقص و سُرور اور فنون لطیفہ کی دیگر اصناف کی جڑیں خصوصاً برصغیر میں کافی مضبوط دکھائی دیں۔ دراصل آزادی سے قبل ہندوستان میں موجود والیان ریاست، راجا، مہاراجا اور شہنشاہوں کی خصوصی سرپرستی نے ان فنون کی جڑیں گہری کر دیں۔ یُوں برصغیر میں بولی جانے والی بڑی زبانوں کے شاعر، گلوکار اور موسیقار ابھر کر سامنے آنے لگے۔آزادی کے بعد یہ خصوصی سرپرستی ختم ہوئی تو ان فن کاروں نے اپنی اکیڈمیز اور سنگر کلب کھول لیے۔

بیسویں صدی کی ساتویں، آٹھویں دہائی تک یہ معاملہ کسی نہ کسی طرح چلتا رہا اور اس تمام عرصے میں علاقائی و قومی زبانوں کے نامور فن کار سامنے آئے۔ اس عروج کے دور میں سماعتوں میں رس گھولنے والے کئی ایک فلمی و غیر فلمی نغمے تخلیق ہوئے،جنہیں سامعین نے سدا بہار کا عنوان دیا۔

گیت کی تاریخ، ترویج اور اس کی اثر پذیری کے مختصر بیانیے کے بعد اب ہم مختصراً جائزہ لیں گے کہ اس بات کا کہ بیسویں صدی کے آخر تک گائے ہوئے کچھ فلمی و غیر فلمی گیت اب تک کیوں ان عمر رسیدہ لوگوں کے ذہنوں میں بسے ہوئے ہیں ، جنہوں نے ان گیتوں کو اپنے لڑکپن اور جوانی کے ادوار میں سُنا اور ان سے محظوظ ہوئے۔آج بھی مہدی حسن، محمد رفیع، کشور کمار، ناہید اختر، غلام علی، نصرت فتح علی خان، نور جہاں، لتاجی اور مہناز کی گائی ہوئی غزلیں اور گیت شوق سے سنے جاتے ہیں۔

کیا وہ ان گیتوں کے رومان پرور بولوں میں اپنی بھولی بسری یادوں کا عکس ڈھونڈنتے ہیں یا المیہ گیتوں میں کسی ناخوش گوار لمحوں میں کھائے زخموں پر پڑی راکھ کرید رہے ہوتے ہیں اور اگر تمام گیت ان ہی دو اظہاریوں پر مشتمل ہوتے ہیں، تو اسی ذیل میں گائے نئے گیتوں میں ان کی دل چسپی کیوں نہیں ہے، کیوں ان کی سوچ ان قدیم دائروں میں ہی گھوم رہی ہے۔ پسندیدگی کے اس رجحان کا اگر نفسیاتی پہلوئوں سے جائزہ لیں تو شاید گتھی کچھ سلجھ سکے۔ ہو سکتا ہے پسندیدگی کے ان تانوں بانوں میں دُکھ کی کوئی ایسی نادیدہ تار بھی بُنت میں شامل ہو چکی ہو، جس کا انہیں بھی علم نہ ہو اور اسی کے زیرِ اثر ان کی طرف سے سدا بہار کی سند دیے ہوئے کسی نغمے کے فضا میں بکھرتے ہی وہ کہیں کھو سے جاتے ہیں۔ کیا وہ اس نغمے کے سحر میں کھوجاتے ہیں؟ یا شاید وہ اس عہد کی یاد میں محو ہوجاتے ہیں، جس عہد میں انہوں نے اپنا بچپن اور لڑکپن گزارتے جوانی کی حدود میں قدم رکھا۔ ہو سکتا ہے وہ اس عہد کے کھوئے امن کو یاد کرتے ہوں جب رات کے دو بجے ویران سڑک پر تنہا گزرتے انہیں کسی خوف کا اندیشہ نہ تھا۔

قیامِ پاکستان کے آس پاس پیدا ہونے والی نسل کو شاید ایک اور زیاں کا نامعلوم قلق بھی پریشان کر رہا ہو اور وہ قلق ہے، فنون لطیفہ کی تقریباً تمام اصناف کا معاشرے کے نچلے طبقے میں ناپید ہوجانا۔ اجداد کے وقتوں سے تسلسل چلتی آئی یہ خوش گوار سرگرمیاں کئی صدی کی ساتویں دہائی کے پورے ہوتے ہوتے مکمل ختم ہو چکیں۔

دراصل پچھلی کئی دہائیوں سے وہ اور ان سے پہلے کی کچھ نسلیں شاعری، گائیکی، ڈراما، موسیقی اور فنون لطیفہ کی دیگر اصناف سے مکمل محظوظ ہوتی تھیں۔ وہ اپنی مدد آپ کے اصولوں پر چھوٹے موٹے کلبوں کے تحت یہ بیٹھکیں سجاتے تھے۔ چھوٹی ناٹک منڈلیاں کہیں ایک ڈیڑھ گھنٹے کا پورا ڈراما رچالیتیں، کہیں سُرتال کی اچھی خاصی محفل جمالیتے، جنہیں نغمہ و آہنگ سے شغف رکھنے والے سامعین کی اچھی خاصی تعداد سراہنے کے لیے موجود ہوتی۔

اسی طرح گھٹی میں پڑے شوق کی آبیاری کے ساتھ اپنے فن کے اظہار کے مواقع ملتے رہنے پر خوشی اور قلبی طمانیت انہیں شانت رکھتی تھی۔ پھر رفتہ رفتہ سن ساٹھ اور ستر کی دہائی تک کئی ایک وجوہ کی بناء پر ان سے یہ تمام شوق چھن گئے۔بس ان وقتوں کے شوق کی صرف تصویریں ہی باقی رہ گئیں۔

اس عہد زریں کی کئی ایک جھلکیاں ان نغموں کی وساطت سے ان کے دل و دماغ سے الجھ جاتی ہیں اور گئے وقتوں کا آج کے وقت کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے شاید ان کا بے چین من ان نغموں کی صورت اسی عہد میں پناہ لینے کی ناکام کوشش کر رہا ہو۔

تازہ ترین
تازہ ترین