پاکستان فلم انڈسٹری کے چاکلیٹی ہیرو وحید مراد نے بہ حیثیت فلم ساز پہلی فلم ’’انسان بدلتا ہے‘‘۔(1961)میں بنائی تھی۔ بعد ازاں اسی حیثیت سے جب دوسری فلم ’’جب سے دیکھا ہے تمہیں‘‘(1963) میں پروڈیوس کی تو فلم کی موسیقی کے لیے انہوں نے نوجوان اور باصلاحیت موسیقار سہیل رعنا کا انتخاب کیا۔ اس نئے موسیقار نے اپنے انتخاب کو درست ثابت کیا اور اپنی پہلی ہی فلم میں قابل تعریف و قابل سماعت موسیقی مرتب کی۔ نامور شاعر حمایت علی شاعر (جن کا گزشتہ برس سولہ جولائی کو ٹورنٹو۔ کینیڈا میں 93برس کی عمر میں انتقال ہوا تھا) کے لکھےہوئے نغمات کی دُھنیں سہیل رعنا نے بہت عمدہ موزوں کیں، جنہیں آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔
بالخصوص ممتاز گلوگار احمد رشدی کا گایاہوا ملی نغمہ ’’ہمت سے ہر قدم اٹھانا تو ہے پاکستانی تجھ سے ہی یہ ملک بنے گا دُنیا میں لافانی‘‘ اور یہ نغمہ’’تو حسین تیرا جہاں حسین کھوگیا ہے دل یہیں کہیں میرے صنم تیری قسم‘‘اس کے علاوہ ایک اور خُوب صورت گیت ’’یہ خوشی عجب خوشی ہے اسے جانے کیا زمانہ‘‘۔ احمد رشدی کے علاوہ دیگر گلوکاروں نے بھی اس فلم کے لیے پلے بیک گائیکی کا مظاہرہ کیا اور ان کے گیتوں کو بھی بے حد مقبولیت ملی۔ نامور گائیک سلیم رضا کی آواز میں یہ گیت ’’جب سے دیکھا ہے تمہیں دل کا عجب عالم ہے‘‘ نے بھی سماعتوں میں رس گھولا۔
اس فلم کے بعد وحید مراد نے تیسری فلم ’’ہیرا اور پتھر‘‘ پروڈیوس کی اور خود اس فلم میں بہ طور ہیرو بھی عمدہ کام کیا۔ پرویز ملک اسی فلم سے بہ حیثیت ہدایت کار متعارف ہوئے۔ موسیقار سہیل رعنا نے اس فلم کی موسیقی بھی عمدہ دی۔ اس گولڈن جوبلی ہٹ فلم کے بعض نغمات بے حد مقبول ہوئے جن میں ’’آج مجھے کیا ہوا کیسی ہے ہلچل مچی دل نے میرے چھیڑ دی میٹھی سی راگنی‘‘ (نجمہ نیازی/ موج لکھنوی)۔ ’’گوری سمٹی جائے شرم سے دل کا بھید چھپائے ہم سے ‘‘(احمد رشدی / مسرور انور)۔ ’’ جا جا رے چندا جا رے میرے بھیا کو تو جا کے لا دے رے(مالا /مسرور انور)
’’مجھے تم سے محبت ہے اک بار ذرا دھیرے سے تمہیں میری قسم کہہ دو‘‘ (احمد رشدی/ نجمہ نیازی/ مسرور انور)۔
’’شہرِ حُسن کے رہنے والو سنو! مجھے اک لڑکی سے پیار ہوگیا، اس نے دیکھا پیارکا بیمار ہوگیا، خالی پیلی کہتا ہے پیار ہو گیا، جس کو دیکھو پیار کا بیمار ہوگیا۔ او مجھے اک لڑکی سے پیار ہوگیا‘‘۔ مسرور انور کے تحریر کردہ اورسہیل رعنا کے کمپوز کردہ اس سپرہٹ دوگانے میں سلیم شہزاد کے ساتھ ماضی کی معروف اداکارہ طلعت صدیقی نے بھی آواز کا جادو جگایا۔ فلم ’’ہیرا اور پتھر‘‘ کے اس دوگانے سے سلیم شہزاد کو بہت زیادہ شہرت ملی۔
سہیل رعنا نے اسی ٹیم یعنی وحید مراد ، پرویز ملک اورمسرور انور کے ساتھ اپنی تیسری فلم ’’ارمان‘‘ میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا گراف مزید بڑھایا اور پلاٹینیم جوبلی ہٹ فلم کے سارے ہی نغمات کی دھنیں انتہائی مسحور کن بنائیں، جن کی گونج آج بھی سماعتوں میں رس گھولتی ہے:
’’اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم تمہارے بِنا ہم بھلا کیا جئیں گے‘‘(احمد رشدی)
احمد رشدی نے یہ شہرہ ٔآفاق نغمہ طربیہ انداز میں گایا اور اس کی عمدہ گائیکی کی بدولت انہیں نگار ایوارڈ دیا گیا۔ اسی نغمے کو فلم کے آخری کلائمیکس سین میں گلوکارہ مالا نے حُزن و مَلال کی کیفیت میں گایا اور فلم بینوں کے دِل جیت لیے تھے۔ فلم ارمان کے دیگر نغمات میں ’’زندگی اپنی تھی اب تک اڑتے بادل کی طرح ‘‘(احمد رشدی/ خورشید شیرازی)۔’’بے تاب ہو ادھر تم بے چین ہیں ادھر ہم ‘‘(احمد رشدی)۔’’میرے خیالوں پہ چھائی ہے اک صُورت متوالی سی‘‘(احمد رشدی)۔’’ جب پیار میں دو دل ملتے ہیں میں سوچتا ہوں‘‘(احمد رشدی)۔
پروڈیوسر وحید مراد کی پانچویں فلم ’’احسان‘‘ (1967) میں ریلیز ہوئی اس فلم کی بھی سہیل رعنا نے لاجواب موسیقی دی۔مسرور انور نے کہانی کے تناظر میں عمدہ نغمات تحریر کیے۔ جن میں:
’’ اک نئے موڑ پہ لے آئے ہیں حالات مجھے ‘‘(مہدی حسن)۔اک نئے موڑ پہ لے آئے ہیں حالات مجھے ‘‘(مالا/ المیہ موڈ میں ہے)۔’’دو اکھیاں یہ دو سکھیاں نندیا تیری راہ تکے‘‘(احمد رشدی/ آئرن پروین)۔’’اے میری زندگی اے میرے ہم سفر دل کو تجھ سے بچھڑنے کا غم ہے مگر‘‘ (احمد رشدی/ مالا )۔
سہیل رعنا نے بہ حیثیت فلم ساز سپر ہٹ فلم’’دوراہا‘‘ (1967) میں بنائی اورساتھ میں اس کی زبردست موسیقی بھی دی۔ مسرور انور کے تحریر کردہ اس فلم کے سب ہی نغمات بے حد مقبول ہوئے:
’’تمہیں کیسے بتا دوں تم میری منزل ہو‘‘ (احمد رشدی)۔ ’’اجنبی ذرا سوچ لو ایسا نہ ہو کل تنہائیوں میں ہم پھر تمہیں یاد آئیں‘‘
(احمد رشدی)۔’’بھولی ہوئی ہوں داستان گزرا ہوا خیال ہوں‘‘(مالا)۔’’ ہاں اسی موڑ پر اس جگہ بیٹھ کر تم نے وعدہ کیا تھا‘‘(احمد رشدی)۔ ’’ مجھے تم نظر سے گِرا تو رہے ہو مجھے تم کبھی بھی بھلا نہ سکو گے‘‘(مہدی حَسن)۔ ’’کوئی میرے دل میں دھیرے دھیرے آکے نندیا ‘‘ (مالا)۔ ’’دوراہا‘‘ کے ساتھ 25؍اگست 1967 کو ہدایت کار شباب کیرانوی کی فلم ’’دل دیوانہ‘‘ بھی ریلیز ہوئی اور اس فلم کے بھی سہیل رعنا ہی موسیقار تھے، لیکن اس فلم میں ان کی موسیقی واجبی سی رہی۔ ایک نغمہ احمد رشدی کی آواز میں شباب کیرانوی کا تحریر کردہ البتہ کچھ پسند کیا گیا: ’’چاہے تو نظریں چُراے چا ہے تو دامن چھڑاے، تجھے پیار ہم کریں گے۔
سید کمال کی بہ طور ہدایت کار پہلی فلم ’’شہنائی‘‘ کی موسیقی بھی سہیل رعنا نے دی،جس میں انہوں نےمسرور انور کے بعض نغمات کی بہت عمدہ طرزیں بنائی۔
’’تجھے اپنے دِل سے میں کیسے بھلادُوں تیری یاد ہی تو میری زندگی ہے‘‘ (احمد رشدی)۔ ’’نظاروں سے حسین ہے ستاروں کو یقین ہے میرا محبوب لاکھوں میں حسین ہے‘‘(احمد رشدی)۔ وحید مراد نے اپنی فلم ’’اشارہ‘‘ خود ڈائریکٹ کی تھی۔مسرور انور اور سہیل رعنا کو اپنے ساتھ شامل رکھا۔ اس فلم کے یہ نغمات بے حد پسند کیے گئے۔
’’آخری بار مل رہے ہیں ہم آئو پھر کیوں نہ مسکرا کے ملیں۔ ‘‘(مہدی حسن) ۔ ’’پیار کا حق ہے زمانے میں سب ہی کو پیار کرنے کا صلہ سب کو کہاں ملتا ہے‘‘ (مالا)۔
’’میں اک بُھولا ہوا نغمہ ہوں ‘‘ میں ایک بھولی سی صدا ہوں‘‘(احمد رشدی/ مالا/ نسیم بیگم)۔ مذکورہ بالا فلموں کے علاوہ سہیل رعنا نے جن فلموں کی موسیقی ترتیب دی، ان میں بیس دن، اکیلے نہ جانا، ماں بیٹا، دل دےکے دیکھو، قسم اس وقت کی ،پھر چاند نکلے گا، سوغات، روٹھا نہ کرو، میرے ہم سفر، بادل اور بجلی، اسے دیکھا اسے چاہا، مسافر(1976) اور حساب‘‘ (1986) اور دیگر شامل ہیں۔
موسیقار سہیل رعنا ایک طویل عرصے سے اپنے اہل خانہ کے ساتھ کینیڈا میں سکونت پذیر ہیں۔ آخری بار وہ ’’جیو‘‘ کی دعوت پر2010 میں پاکستان تشریف لائے تھے۔ نامور شاعر سیماب اکبر آبادی کے خانوادے میں جنم لینے والے یہ معروف و ممتاز موسیقار فلمی موسیقی کے علاوہ بہت سے شہرہ آفاق، قومی و ملی نغمات کی لازوال دُھنیں بنا کر آج بھی پاکستانی عوام کے دلوں میں بسے ہوئے ہیں۔
سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے، قدم قدم آباد تجھے‘‘ اپنی جان نذر کروں، اپنی وفا پیش کروں،قوم کے مرد مجاہد تجھے کیا پیش کروں‘‘۔ ان کی فنی عظمت کے شہ پارے ہیں ۔ان دونوں نغمات کو مسرور انور نے لکھا ہے۔ تحریر کے اس آخری حصے میں سہیل رعنا کے کمپوز کردہ مزید مقبول نغمات پر ایک نظر ’’ بہت پچھتائے دل کو لگائے، بہت پچھتائے (بیس دن۔ نسیم بیگم/ مسرور انور)۔’’پوچھتا جان میں، کون سی جھیل کا جادو ہے(اکیلے نہ جانا۔ مہدی حسن/ صہبا اختر)۔ ’’تم نے وعدہ کیا تھا آنے کا اپنا وعدہ نبھانے آجائو تم(ماں بیٹا۔ مجیب عالم/ مسرور انور)۔ ’’ ایک ساتھی ملا دو گھڑی کے لیے اداس زندگی حسین ہو گئی۔ (دل دے کے دیکھو/ احمد رشدی/ فیاض ہاشمی)۔ ’’قسم اس وقت کی جب زندگی کروٹ بدلتی ہے۔ (قسم اس وقت کی ۔ مجیب عالم/ جوش ملیح آبادی)۔ ’’آشیاں جل گیا گلستان لٹ گیا ہم قفس سے نکل کر کدھر جائیں گے‘‘۔ (سوغات/ حبیب ولی محمد/ راز الہٰ آبادی)۔’’ بن کے مدہوش میرے سامنے آیا نہ کریں‘‘۔(پھر چاند نکلے گا۔ احمد رشدی/ مالا/ انجم کیرانوی)۔ ’’ہو چکا ہوتا تھا جو اب دل کو کیا سمجھائیں ہم‘‘۔ (سوغات۔ مسعود رانا۔ فیاض ہاشمی)۔ ’’اجی متحرمہ! اجی سنیے ذرا: ہمارا دل چرا کر چلے ہو کہاں‘‘۔
(روٹھا نہ کرو۔ احمد رشدی/ دکھی پریم نگری)۔’’تجھ جیسا دغا باز میں نے دیکھا نہیں رے‘‘۔ (ہم سفر۔ رونا لیلیٰ/مسرور انور)
بنسی بجانے والے نیندیں چرانے والے ، کاہے چھوڑ چلا تو یہ گائوں رے۔ (بادل اور بجلی ۔ نور جہاں / صہبا اختر)۔ ’’میرے محبوب رک جائو۔ توڑ کے یوں دل نہ جائو‘‘۔ (اسے دیکھا اسے چاہا۔ احمد رشدی/ مسرور انور)۔’’ہم راہی ایسی راہوں کے جن کی کوئی منزل ہی نہیں‘‘۔(مسافر ۔ اخلاق احمد۔ عبید اللہ علیم)۔ ’’کلیوں سے پوچھا، پھولوں سے پوچھا، تاروں سے پوچھا ۔ میرا بھیا ہے لاکھوں میں ایک‘‘۔ (حساب ۔ وسیم بیگ/ حمیرا چنا۔ فیاض ہاشمی)