اسلام آباد (ایجنسیاں، ٹی وی رپورٹ ) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ اگر حکومت سینیٹ انتخابات میں ووٹنگ کیلئے اوپن بیلٹ سے متعلق صدارتی ریفرنس واپس نہیں لیتی توسپریم کورٹ رائے دیگی۔ انہوں نے استفسار کیا کہ اپوزیشن اوپن بیلٹ پر متفق کیوں نہیں ہورہی ؟ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ہارس ٹریڈنگ اورووٹوں کی خریدو فروخت روکنا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔سپریم کورٹ نے آبزروشن دی ہے کہ ہارس ٹریڈنگ اورووٹوں کی خریدو فروخت روکنا الیکشن کمیشن کا کام ہے، آئین کسی ممبر کو پارٹی لائن کیخلاف ووٹ دینے سے نہیں روکتا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے صدارتی ریفرنس کی مخالفت نہیں کی۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلیٹ کے ذریعے کرنے کیلئے بھجوائے گئے صدارتی ریفرنس کی سماعت کی تو جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ عام انتخابات کے ووٹ بھی الیکشن کمیشن دھاندلی کے الزامات پر کھولتا ہے،ووٹ کے کاونٹر فائل پر بھی شناختی کارڈ نمبر لکھا ہوتا ہے،اٹارنی جنرل نے کہاکہ اوپن بیلٹ میں پرچی کے پیچھے ووٹر کا نام لکھا ہوگا، اٹھارویں ترمیم میں میثاق جمہوریت لکھنے والے کیوں بھول گئے، اٹھارویں ترمیم اور میثاق جمہوریت کرنے والے عدالت اور تاریخ کو جوابدہ ہیں،چیف جسٹس نے کہاکہ آئین میں الیکشن کا طریقہ کار درج نہیں تو پارلیمان قانون سازی کرسکتی ہے۔ درخواست گزار سینیٹر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ سینیٹ انتخابات سے متعلق معاملہ پارلیمنٹ میں آچکا ہے۔ حکومت بھی سمجھتی ہے کہ آئین میں ترمیم کرنا ہو گی۔ حکومت ریفرنس واپس لے تو ٹھیک ورنہ عدالت اپنی رائے دیگی۔ ایسا نہ ہو کہ دو آئینی ادارے آمنے سامنے آجائیں۔ چیف جسٹس نے رضاربانی سے کہا کہ ٓاپکی بات مان لیں تو آئین کا آرٹیکل 186 غیر موثر ہو جائیگا۔ جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ ریفرنس پر جواب دینے کے سو راستے ہوسکتے ہیں۔ ایک راستہ ہے کہ آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں۔ دوسرا راستہ ہے کہ آئینی ترمیم کرنا ہو گی۔ دونوں صورتوں میں عدالت اور پارلیمان آمنے سامنے کیسے ہوں گے؟کیا ائین کی تشریح کرنا عدالت کا کام نہیں؟ رضا ربانی نے کہاکہ صرف معاملہ عدالت کے نوٹس میں لانا چاہتا تھا۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ اٹھارہوں ترمیم میں 101 آرٹیکلز ترمیم کیے گیے۔ میثاق جمہوریت میں کیا گیا وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ بدقسمتی سے ہمارے ملک کی سیاست ایسی ہی ہے۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ اپوزیشن چاہتی ہے ایوان بالا میں ووٹ فروخت کرنے دیئے جائیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ہر لڑائی فتح کے لیے نہیں لڑی جاتی۔ اٹارنی جنرل یہ سیاست نہیں کچھ اور ہی چل رہا ہے۔ چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ اپوزیشن اوپن بیلٹ پر متفق کیوں نہیں ہورہی ؟ اٹارنی جنرل نے کہاکہ اپوزیشن دس سال پہلے متفق تھی اب وعدہ پورا نہیں کر رہی۔جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیاکہ ووٹ فروخت کرنے کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ ثابت کرنا ہو گا کہ پارٹی کے خلاف ووٹ دینے والے نے ضمیر بیچا ہے۔