تہران ( نیوزیسک) ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے امریکا اور ایران کے درمیان 2015ء کے جوہری معاہدے کی بحالی کی راہ میں حائل تعطل کو دور کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ کوئی ایسا طریقہ کار ہوسکتا ہے، جس کے تحت وقت کا تعین کیا جاسکے یا جو کچھ بھی ممکن ہے، اس کے لیے راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔ ان کا یہ بیان 22جنوری کے بیان سے مختلف ہے، جس میں انہوں نے ایرانی موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس معاہدے میں تہران کے واپس لوٹنے سے پہلے امریکا کو ایران پر عائد پابندیاں ختم کرنی ہوں گی۔ انہوں نے نیا بیان امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے تعطل ختم کرنے سے متعلق سوال پر دیا۔ انہوں نے انٹرویو میں کہا کہ ایران ایک دن سے بھی کم وقت میں اپنے سابقہ وعدوں پر واپس آ سکتا ہے، تاہم بعض ذمے داریاں پوری کرنے میں چند دن یا ہفتے لگ سکتے ہیں، لیکن اتنا وقت نہیں لگے گا جتنا امریکا کو اس انتظامی حکم پر عمل کرنے میں لگے گا جو ایران کے تیل، بینکاری، نقل وحرکت اور دوسرے شعبوں کو دوبارہ فعال بنانے کے لیے ضروری ہے، جو سابق صدر ٹرمپ کے اقدامات کی وجہ سے متاثر ہوئے تھے۔ جواد ظریف نے یورپی یونین پر زور دیا کہ وہ امریکا اور ایران دونوں کی جوہری معاہدے میں واپسی کی راہ ہموار کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ جواد ظریف کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل کو 2015ء میں ہونے والے معاہدے کے رابطہ کار کی حیثیت سے اس حوالے سے کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اقدامات جن کی امریکا اور ایران کو کرنے کی ضرورت ہے، انہیں ایک طرح سے ترتیب دینا ہوگا۔ خیال رہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018ء میں امریکا کو ایران جوہری معاہدے سے الگ کر لیا تھا، لیکن نئے صدر جوبائیڈن کا کہنا ہے کہ اگر ایران معاہدے کی شرائط پر سختی سے عمل کرتا ہے تو واشنگٹن معاہدے میں دوبارہ شامل ہوسکتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت امریکا اور دیگر اقتصادی پابندیوں سے راحت کے بدلے میں ایران اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر راضی ہو گیا تھا۔امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے بھی ایک بیان میں تصدیق کی ہے کہ ایران نے یورپی یونین کی ثالثی کے تحت امریکا کی جوہری پروگرام میں واپسی کی شرط پر 2015 کے سمجھوتے کی خلاف ورزیاں روکنے کی پیشکش کی ہے۔ خیال رہے کہ دونوں ممالک کے درمیان اس تناؤ نے خلیجی خطے میں بھی کشیدگی پیدا کررکھی ہے۔