اسلام آباد (ایجنسیاں، جنگ نیوز) سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ پارٹی کیخلاف ووٹ دینے پر نااہلی نہیں ہو سکتی تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عوام ارکان اسمبلی کو اسلئے منتخب نہیں کرتے کہ وہ اپنی خدمت کرتے رہیں، اوپن بیلٹ کی مخالفت کا کیا مطلب؟ اوپن بیلٹ کی مخالفت کس بنیاد پر کرینگے؟
اوپن بیلٹ کی مخالفت کا مقصد یہی ہے کہ موجودہ سسٹم چلتا رہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ انتظار میں ہوں کہ سیکریٹ بیلٹ کے حق میں کیا دلیل آتی ہے؟ دیکھنا یہ ہے کہ آئین سازوں کے ذہن میں کیا تھا؟ اگر ایم پی ضمیر کے مطابق ووٹ دینا چاہتا ہے تو پردہ داری کیسی؟
ایم پی کو سیکریٹ ووٹ کی اتنی آزادی دینے کا مطلب سمجھ نہیں آتا،جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ پارٹی کو ووٹ نہ دینے پر نااہلی نہیں تو یہ تبدیلی صرف دکھاوا ہو گی، اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کسی کی نا اہلی نہیں چاہتے، لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے ارکان نے کس کو ووٹ دیا، پارٹی امیدوار کو لازمی ووٹ دینے کا کوئی قانون نہیں۔
بدھ کو سپریم کورٹ میں اوپن بیلٹ کے ذریعے سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کی۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ عوام ارکان اسمبلی کو اس لئے منتخب نہیں کرتے کہ وہ اپنی خدمت کرتے رہیں۔سینیٹ کے انتخابات کے طریقہ کار پر ریمارکس دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگراپوزیشن موجودہ طریقہ کاربدلنا نہیں چاہتی ہے تو اس کا مطلب ہے یہ ووٹوں کی خرید وفروخت کوروکنا نہیں چاہتے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ریفرنس پرعدالتی رائے حتمی فیصلہ نہیں ہوگی، حکومت کوہرصورت قانون سازی کرنی ہوگی۔جسٹس اعجازالاحسن نے سوال اٹھایا کہ پارٹی کیخلاف ووٹ دینے پر نااہلی نہیں ہوسکتی تومسئلہ کیا ہے۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ اگر نااہلی نہیں ہے تو پھر یہ تبدیلی صرف دکھاوا ہوگی۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن فری اینڈ فیئر انتخابات کا پابند ہے، اس مقصد کیلئے ایک قانون ہونالازمی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ عوام کا حق ہے کہ انہیں علم ہو کہ منتخب رکن کس کوووٹ دے رہا ہے، سینیٹ میں ووٹر پہلے اپنی پارٹی نہیں عوام کوجوابدہ ہے۔