امتیاز دانش
ہر روز شام ہوتی ہے
سورج سمندر میں
ڈوب جاتا ہے
پہاڑوں کے پیچھے چھپ جاتا ہے
میں اداس ہو جاتا ہوں
میری شام
شام ِغریباں ہوتی ہے
ہر طرف گھور اندھیرا
اک لمبی رات
جس کی کوِئی سحر نہیں ہوتی
وقت کی ہر گھڑی
یزید کی دربار لگتی ہے
میں پاگلوں کی طرح دوڑتا ہوں
کبھی اِدھر کبھی اْدھر
اپنے ہر ساتھی کو یاد کر کہ
بکھر جاتا ہوں
قافلوں کی طرح
شام کا ہر پل
مجھے بہت بھاری لگتا ہے
یسوع کی صلیب سے بھی زیادہ
میری آنکھیں نم ہو جاتی ہیں
میں ماہی گیروں کی کشتی کی طرح
ڈوب جاتا ہوں
اپنے آنسووْں میں
میرا درد کوئی نہیں سمجھتا
میرا شہر بہت غریب ہے
کوئی سہارا نہیں دیتا
کوئی کاندھا نہیں دیتا
جہاں اپنا سر رکھ کہ
اک لمبی نیند سوجاؤں !